اسرائیل اور عرب ممالک میں امن معاہدے: کیا تل ابیب کو تسلیم نہ کر کے پاکستان غلطی کر رہا ہے؟


متحدہ عرب امارات اور اسرائیل

متحدہ عرب امارات کے بعد اب بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور منگل کو واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رہنما اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کریں گے۔

یہ دونوں خلیجی ممالک سعودی عرب کے قریب ترین اتحادی ہیں اور بعض مبصرین کے مطابق سعودی عرب کی مکمل حمایت کے بغیر وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے۔

اس سے قبل اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کے بعد ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان پروازیں شروع ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی طیارے سعودی عرب، کویت اور بحرین کی فصائی حدود سے گزر کر امارات پہنچیں گے۔ ہزاروں اسرائیلی اور اماراتی تل ابیب، دبئی اور ابوظہبی پرواز کرنے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے صدر نے گزشتہ دنوں ایک فرمان کے ذریعے اسرائیل کے اقتصادی بائیکاٹ کی قرار داد کو ختم کر کے اسرائیل سے اقتصادی تعلقات کے آغاز کی راہ ہموار کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل کو مان لیجیے مگر۔۔۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور بحرین کے درمیان امن معاہدے کا اعلان

اسرائیل عرب ممالک کے قریب کیوں آنا چاہتا ہے؟

اس معاہدے کا فلسطینیوں کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا یہ ابھی معلوم نہیں لیکن فلسطینیوں نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا ہے۔ فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر بحرین کی بھی مذمت کی ہے۔

واضح رہے کہ بحرین اسرائیل کو تسلیم کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔

صدر ٹرمپ نے پچھلے دنوں اسرائیل بحرین معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والے ہیں۔

اسرائیل

اسرائیل بھی پاکستان کی طرح مذہبی بنیادوں پر وجود میں آیا اور دنیا کی پہلی یہودی ریاست کے نام سے جانا جاتا ہے

اخبار نیویارک ٹائمز نے پرنسٹن یونیورسٹی میں سعودی امور کے ایک ماہر برنارڈ ہیکل کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ایک سلسے کا آغاز ہے اور اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ سعودی عرب اسی جانب گامزن ہے حالانکہ سعودی فرمانروا کے لیے یہ راستہ مشکلوں سے بھرا ہوا ہو گا۔

گزشتہ دنوں امریکی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدارجو بائیڈ ن نے انتخابی مہم کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر یہودی اکثریت والی اسرائیلی ریاست کو پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک تسلیم کرتے ہیں تو یہ قیام امن کے لیے بہتر ہو گا لیکن اس صورت میں اسرائیل کو بھی دو مملکت کے سیاسی حل یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام پر بھی عمل کرنا ہوگا۔

امارات اوراسرائیل کے حالیہ معاہدے کے اعلان کے بعد پاکستان میں بھی اسرائیل کے سوال پر بحث ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تب تک تسلیم نہیں کر سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلے کو منصفانہ طریقے سے حل نہیں کیا جاتا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خیال پاکستان میں آتا جاتا رہا ہے۔ دفاعی امور کی معروف تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مختلف مرحلوں میں پاکستان کے اسرائیل سے غیر رسمی تعلقات بھی رہے ہیں۔

’1970 کے عشرے میں پاکستان نے ایران کے توسط سے اسرائیل سے ہتھیار خریدے۔ اس وقت ایران کے شاہ پاکستان کے پیامبر کا کردار ادا کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بھی ایسا ہوا تھا۔ اس وقت پاکستان کے توسط سے امریکہ اور اسرائیل سے ہتھیار خرید کر ایران پہنچائے گئے۔ اس طرح کے غیر رسمی تعلقات تو رہے ہیں لیکن روایتی سفارتی تقلعات قائم کرنے کے بارے میں بات چیت جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی۔‘

’پرويز مشرف نے امریکہ میں جیوز کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ انھوں نے اپنے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو اسرائیلی نمائندوں سے بات چیت کے لیے ترکی بھیجا تھا لیکن بات چیت ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔‘

محمود عباس

فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر بحرین کی بھی مذمت کی ہے

ایک ڈیڑھ سال پہلے بھی اس سوال پر بات چیت چلی تھی۔‏ ایک دلیل یہ رہی ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی عرب ممالک کی خاطر اختیار کی تھی اور اب چونکہ عرب ممالک ہی اسرائیل سے تعلقات استوار کررہے ہیں اس لیے پاکستان کو بھی کر لینا چاہیے۔‘

جنوبی ایشیا کے خارجی امور کی تجزیہ کار نروپما سبرامنین کہتی ہیں ’خواہ وہ پاکستان کی سویلین حکومت ہو یا پاکستان کی فوج، وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا نواز شریف کی، اندر ہی اندر سبھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ سفارتی طریقے سے حل ہو جائے کیونکہ انھیں اب محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں اپنے لیے کوئی کردار نہیں دیکھ رہا۔‘

پاکستان میں اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے بارے میں عشروں سے جو بیانیہ رہا ہے اس میں مذہب کا عنصر غالب ہے۔ اس کے پس منظر میں یہودیوں اور مسلمانوں کے تعلقات پر بڑھ چڑھ کر بات ہوتی ہے۔

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں ’جس طرح ہم نے اپنے معاشرے کی تربیت کی ہے اس میں یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ یہ ایک دو دن میں نہیں حل ہو سکتا۔ خواہ وہ پاکستان کے عسکری ادارے ہوں یا حکومت، پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بہت بڑا سیاسی اور سفارتی چیلنج ہے۔‘

نروپما سبرا منین کے خیال میں ایک برس قبل جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کی گئی تھی اس وقت پاکستان کی عوام کو عمران خان کی حکومت سے یہ توقع تھی کہ وہ کشمیر کے لیے کسی حد تک جا سکتی ہے لیکن اس نے صرف زبانی لڑائی لڑی، جس سے عوام میں بہت حد تک حکومت سے مایوسی پیدا ہوئی۔

فلسطینی احتجاج

’اگر اس وقت پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے یا اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان نے فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ حکومت کے لیے اپنی پوزیشن کا جواز پیش کرنا مشکل ہو جائیگا۔‘

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں ’کشمیر اور فلسطین ایک طرح سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ایک طرح کے مسئلے ہیں اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے لیے کتنی بڑی قیمت ادا کرنی ہو گی۔‘

عائشہ کہتی ہیں ’اگر آپ ایک ایسا قدم اٹھائیں گے جس سے معاشرے میں سخت بے چینی پیدا ہو سکتی ہے تو اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ میرے خیال میں کوئی بھی اس وقت اس حالت میں نہیں جو یہ فیصلہ کر سکے۔‘

جس طرح کے اشارے مل رہے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ٹوٹے پھوٹے فلسطین کا دیرینہ مسلہ بھی کسی شکل میں حل ہو جائے۔

اس بدلتی ہوئی صورتحال کا کشمیر کے تنازعے پر بھی براہ راست اثر پڑے گا اور پاکستان کو مستقبل کی اپنی حکمت عملی ابھی سے وضع کرنی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp