دو سنگتروں کی کہانی


ہم نئے نئے پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ ہماری یہ کسی تھانہ میں پہلی پوسٹنگ تھی۔ یہ تھانہ صادق آباد راولپنڈی کا علاقہ تھا۔ اس علاقے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں محرم الحرام کے دنوں میں مجالس اور جلوس کی بھرمار ہوتی ہے۔ ڈھوک کالا خان صادق آباد بازار اور دیگر محلوں میں پورے دس دن مجالس اور ماتمی جلوس نکلتے رہتے ہیں۔ اس علاقے میں کچھ ایرانی بھی آباد ہیں ان کی اپنی امام بارگاہ ہے۔ وہ فارسی بولتے ہیں۔ انجا بیہ۔ کجامی ری۔ نمم چی است۔ یہ فارسی جملے میں نے انھیں ایرانیوں سے سیکھے تھے۔ ان ایرانیوں کے میلے کچیلے بچے ہمارے آس پاس کھیلتے فارسی بولتے اور میں ان جملوں کو ذہن نشین کرلیتا۔

مرزا فضل صاحب انسپکٹر ایس ایچ او تھے۔ بڑے ہی شفیق نفیس اور ماتحت پرور افسر تھے۔ اسپیشلی ہم نئے لڑکوں کے ساتھ تو ان کا رویہ کسی شفیق باپ بھائی جیسا تھا۔ ان کا محرر تابعدار کو حکم تھا کہ ان نئے لڑکوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے میں اپنے رہائشی ہاسٹل کے سامنے کھڑا تھا کہ ایک برف کے پھٹے والے نے مجھے کہا۔ ”سر جی سامنے پلازے میں شراب کباب کی محفل جاری ہے۔ میرے سامنے پلازے والوں کا نوکر پیپسی کی بوتلیں اور مجھ سے برف لے کر گیا ہے“ ۔

میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سول پارچات میں ہی پلازے کے مین آفس میں ریڈ ماردیا۔ حالانکہ مجھے کسی طور اختیار نہ تھا۔ ہم سب کے سب کانسٹیبل تھے اور سفید کپڑوں میں تھے اس لیے کسی طور بھی اس پلازے میں ہمارا داخل ہونا قانونی نہیں تھا۔ لیکن ہم نئے نئے پولیس والے تھے۔ ہر جگہ جا گھسنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ کہتے ہیں نہ ”لاعلمی بھی ایک نعمت ہے“ بہر حال جب ہم پلازے کے ٹھنڈے ٹھار کمرے میں پہنچے تو زمین پہ قالین بچھائے چند سفید پوش پکی عمروں کے اشخاص بیٹھے تھے۔

ہمیں دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے انھوں نے سمجھا شاید کوئی ڈاکو ہیں۔ لیکن جب انگریزی فلموں کے ہیروز کی طرح ہم نے جارحانہ انداز میں اپنا تعار ف کروایا تو وہ لوگ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ دسترخوان پہ چند پیپسی سیون اپ کی بند بوتلیں اور چکن کے پیس جو ابھی پیک ہی تھے اور جن سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی موجود تھے۔ ان لوگوں نے کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ میزبان نے کہا بھائی تم لوگ اندر کیوں آئے کوئی وجہ تو بتاؤ۔ یہ میرے مہمان ہیں اور ہم کھانا کھانے لگے ہیں۔

آپ لوگوں کو کیا چاہیے بہرحال قصہ مختصر پلازے کے مالک نے مرزا صاحب کو فون کیا اور کہا کہ یہ چند لڑکے ہیں سفید کپڑوں میں خود کو پولیس والے بتاتے ہیں اور بنا پوچھے ہمارے پلازے میں گھس آئے ہیں بتائیں ان کا کیا کرنا ہے۔ چند لمحے بعد وہاں تھانے کی گاڑی آ گئی اور ہمیں گاڑی میں بٹھا کے تھانے لے جایا گیا۔ مرزا صاحب ہمیں دیکھ کر خوب ہنسے اور کہا بیٹا ابھی تمھیں سیکھنے میں وقت لگے گا۔ ایسا کوئی بھی کام بنا افسر اور اپنے ایس ایچ او کر بتائے بغیر نہیں کرتے۔ یہ میرے لیے ایک برا تجربہ تھا مگر اس کے بعد پوری سروس میں نے کوئی بھی کام مجاز افسر کی اجازت اور مشاورت کے بغیر نہیں کیا۔ بعد میں پتہ چلا جس ہاسٹل میں ہم رہائش پذیر ہیں وہ اسی بندے کا ہے جس کے دفتر میں ہم بغیر وارنٹ کے جا گھسے تھے۔ وہ بندہ اچھا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس معاون شخص تھا۔

آج محرم کا ساتواں دن تھا۔ راولپنڈی میں ساتویں محرم کے جلوس بڑے زور شور سے جاری تھے۔ مجھے تھانہ صادق آباد کی گاڑی نے ڈھوک کالاخان کے مین چوک میں اتارا۔ ایس ایچ او صاحب خود بھی گاڑی میں موجود تھے۔ یہ وہ چوک تھا جہاں صادق آباد کے تمام جلوس جمع ہونے تھے۔ مجھے مرزا صاحب نے اتارتے ہوئے کہا ”بیٹا یہاں کچھ دیر میں غازی سٹی ڈی ایس پی سرکل اور دیگر افسران آ جائیں گے۔ آپ نے ایک تو الرٹ رہنا ہے اور دوسرا یہ جو اردگرد ریڑھیاں ٹھیلے کھڑے ہیں جلوس پہنچنے کے وقت ان تمام کو ملحقہ گلیوں میں دھکیل دینا ہے۔ جب جلوس پہنچیں تو یہاں کوئی گاڑی موٹرسائیکل یا ریڑھی نظر نہیں آنی چاہیے۔“ میں نے جی سر کہہ کرسلام کیا اور گاڑی اگلے چوک میں جوان اتارنے کے لیے روانہ ہوگئی۔

مجھے ابھی چوک میں آئے دومنٹ بھی نہ ہوئے ہوں گے کہ ایک فروٹ کی ریڑھی والے نے جلدی جلدی مجھے کرسی اور چھوٹا سا لکڑی کا اسٹول مہیا کر دیا اور پلیٹ میں دو سنگترے کاٹ کر عزت کے ساتھ میرے سامنے لاکر رکھ دیے اور کہا ”سرجی کوئی پانی وانی چاہیے ہو یا کچھ اور کھانا ہو تو بالا جھجک کہہ دیجیے گا۔ وہ سامنے میری سنگتروں کی ریڑھی ہے“۔ میں نے شکریہ ادا کیا کندھے سے رائفل اتار کر کرسی کے ساتھ ٹکا لی اور ٹانگ پہ ٹانگ دھر کے سنگترے کھانا شروع کردیے۔

تقریباً ایک گھنٹہ میرا اسی کرسی پہ بیٹھے گزر گیا۔ محکمہ پولیس کی بدقسمتی یہی ہے کہ ڈیوٹی سے کئی گھنٹے پہلے آپ کو پوائنٹ پہ پہنچا دیا جاتا ہے اور جب ڈیوٹی شروع ہوتی ہے اس وقت تک آپ تھکاوٹ اور بوریت سے چکنا چور ہوچکے ہوتے ہیں۔ ناجانے کب اس محکمہ میں بھی کوئی ٹائم ٹیبل یا اوقات کار ڈیوٹی متعین ہوں گے۔ خیر اس ایک گھنٹہ میں متعدد بار وہ ریڑھی والا آیا اور میں نے ہر بار شکریہ کے ساتھ یہی کہا نہیں بھائی مزید کچھ درکار نہیں۔

جب جلوس کے آنے کا وقت ہوا کچھ ہلچل مجھے محسوس ہوئی تو میں کرسی سے اٹھا اور آس پاس کی تمام ریڑھیاں ٹھیلے میں نے چوک سے ہٹوا دیے مگر وہ ریڑھی والا جس نے مجھے سنگترے کھلائے اور کرسی مہیا کی تھی اس کی ریڑھی جوں کی توں چوک میں موجود رہی۔ میں نے یہ سوچ کر اسے ریڑھی ہٹانے کو نہ کہا کہ یہ کیا سوچے گا۔ ابھی تو میں نے اس بندے سے سنگترے کھائے اس نے مجھے کرسی دی۔ اب میں اس کی ریڑھی کسیے ہٹوا دوں۔ اس بندے نے بھی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی میں اسے کہہ سکا کہ ریڑھی ہٹا لو۔ میں نے بہانے سے اسے بلا کر یہ کہتے ہوئے کہ جلوس بس پہنچنے والا ہے۔ اس کی کرسی اور اسٹول بھی واپس کر دیا۔ مگر وہ بندہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

کچھ ہی دیر میں تھانے کی گاڑی ڈیوٹی چیک کرتے ہوئے اس چوک میں پہنچ گئی جہاں میں کھڑا تھا۔ مرزا صاحب گاڑی سے اترے انھوں نے چوک میں ادھر ادھر دیکھا تمام ریڑھیاں اور ٹھیلے چھوٹی چھوٹی گلیوں میں چلے گئے تھے۔ مگر ایک ریڑھی وہیں کھڑی تھی۔ مرزا صاحب نے مجھے بلا کرشاباش دی اور کہا ”ایدھے کولوں سنگترے تے نہیں کھادے؟“ میں نے ڈھیٹ ہوتے ہوئے کہا جی سر جی۔ مرزا صاحب ہنسنے لگے۔ اور ریڑھی والے کو بلا کرکہنے لگے ”اؤ بے شرم آدمی اگر جوان نے تیرا حیا کیا ہے تو تجھے بھی شرم نہیں آئی کہ خود حالات دیکھ لے اور ریڑھی ہٹا لے۔ چل دفع ہو جا اور ریڑھی پیچھے گلی میں لے جا۔

مجھے لگا جیسے کہہ تو مرزا صاحب ریڑھی والے کو رہے ہیں لیکن حقیت میں وہ مجھ سے مخاطب ہیں۔ اس واقعہ نے میری زندگی پہ ایسا نقش چھوڑا کہ پھر میں سترہ سال کے عرصہ میں نہ ہی رشوت لے سکا اور نہ ہی بطور پولیس مین کسی سے کوئی تحفے تحائف قبول کر سکا۔ جب بھی کوئی رشوت لینے دینے یا تحفہ لینے دینے کی صورتحال پیدا ہوتی میرے کانوں میں مرزا صاحب کے وہ جملے گونجنے لگتے جو انھوں نے ریڑھی والے سے کہے۔ مجھے جب وہ لمحہ یاد آتا ہے تو ایسا لگتا ہے وہ دو سنگترے میرے گلے میں آج بھی اٹکے ہوئے ہیں۔ جنھیں چاہ کر بھی میں اپنی یاد اور گلے سے نیچے نہیں اتار پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).