گیم آف تھرون


کیا کہا؟ اب کوئی اور آپشن نہیں؟ واہ واہ بھول گئے کیا؟ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ پچھلے تہتر برس میں ہر خاص اور اس کے خاصوں کے خاص یہی سمجھتے رہے ان کے سوا کوئی اور اس خاص مقام کے لئے بنا ہی نہیں پر بھئی کنگ میکرز نے ہمشہ گیم آف تھرون میں سسپنس کے بعد ایک سے ایک سرپرائز دیا۔ اور چن کر کوئلہ کی کان سے ہیرہ نکالا۔ وہ آغا ہو ایوبی ہو ضیائی ہو یا مشرفی دور۔ ۔ ۔ تابعدار برخوردار ہمشہ ہی آپشنز کے ساتھ دستیاب رہے۔

ماضی قریب میں جس طرح پہلے ایک تیز رفتار اسٹار ال روانڈر اور پھر ایک تیز رفتار اسٹار گیند باز نے انتہائی مہارت سے سیاسی گگلی اور یارکر کرائی ہیں اور سیاسی چھکے لگاتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہو گی۔ سیاست کی نرسری میں مصنوعی کھاد کے کرشمہ سے ہر وقت ہائبرڈ فصل تیار رہتی ہے۔

عجب ہیں چشم یار کی معجز بیانیاں

ہر اک کو ہو گمان کہ مخاطب ہم ہی رہے

اور پریشان ہونے یا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب تک نہیں سمجھے۔ لندن دبئی امریکہ سعودیہ شریف اور قطر رہ کر بھی نہیں سمجھے۔ جلا وطن اور اہل وطن ہوتے ہوئے بھی نہیں سمجھے کہ سیاست میں کوئی آخری آپشن نہیں ہوتی۔ سیاست تو کھیل ہی ممکنات کا ہے۔ اشارہ ادھر کا اور چال ادھر کی۔ یو ٹرن میں کمال مہارت کا وصف بھی جمہوریت نما نظام میں نمایاں ہے۔ اقتدارر تہہ د ر تہہ اقتدار کے کھیل کا نام سیاست ہے۔

پھر شیخ ہو پنڈت ہو یا نجومی اندازوں کی پتنگ جتنا چائیے اونچا اڑا لے پر آخری سرا نظروں سے اوجھل کہیں اور محفوظ ہاتھوں میں ہی ہے۔

اب کیا ہو گا کیسے ہو گا یہ سوچنا تمہارا کام نہیں ہے تم بس اگلے الیکشن کی تیاری رکھو وقت آنے پر پتہ چل جائے گا کس پارٹی کس نشان پر الیکشن لڑنا ہے۔ کب کیسے کیا کرنا ہے سب معلوم ہو جائے گا۔

نہ کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی کوئی ضروری ہے۔ اور جمہوریت تو نام ہی تبدیلی کا ہے۔

ویسے بھی سیاست کے کھیل میں روایتی سیاست دانوں کی نسبت کھلاڑیوں کو موقع ملنا چائیے۔ اور ریٹائر ہونے کے بعد ان کا اسٹیمنا آخر کس کام آئے گا؟

کینیڈا کے باکسر وزیر اعظم ہوں یا کیلیفورنیا کے سابق گورنر دینا کا نمبر ون باڈی بلڈر سیاست کے کھیل میں بھی خود کو منوایا۔ جمہوریت میں تبدیلی ججتی بھی خوب ہے۔ سیاست ایک کھیل ہے اور کھلاڑیوں سے بہتر کون چوائس ہو سکتا ہے۔

بیشک مستقبل کھلاڑی جمہوریت کا ہی ہے۔ دیکھا نہیں وسیم اکرم پلس نائٹ واچ مین ایک لمبی ٹیسٹ اننگز کھیل رہا ہے اسے میچ فکسنگ اور رن آؤٹ کروانے کی بھر پور کوششیں ہو رہی ہیں پر وہ اپنی کریس پر چٹان کی طرح ڈٹا ہوا سرائیکی وسیب کا خوب نام روشن کر رہا ہے۔ سرائیکی صوبہ بن کے رہے گا۔ ابھی بہت کام باقی ہے۔ جنوبی پنجاب کے میں منشیوں کا علیحدہ یونٹ لگا تو دیا ہے۔ جو کام رہ جائیں گے وہ اگلے الیکشن کے نام۔ جلدی کیا ہے پکا کام کریں گے۔ تب تک نعروں سے جنوبی پنجاب کے ووٹر کو گرماتے رہو اورجمہوریت کی بیل گاڑی چلاتے رہو۔

کپتان کو پتہ ہے کس کو کب کیسے اور کہاں کھلانا ہے کس کو گروانڈ میں اتارنا ہے کس کو بارہویں کھلاڑی کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اور کب اننگز ڈکلیر کرنا ہے۔ اور جب کپتان کوچ ایک پیج پر ہوں تو ٹیم کا اعتماد ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

تب یہ چھوٹی موٹی منقسم حزب مخالف جس کا کوچ بھی بارہوے کھلاڑی جیسا ہو وہ ہرانے کی طاقت نہیں رکھتی ماسوائے میچ اگر فکس ہو جائے۔ ویسے بھی اصلی اور نسلی کرکٹ تو ہے ہی ٹیسٹ وہ چاہے پانچ دن کی ہو یا پانچ سال کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).