ماں کا خواب اور امید کی ڈوری


چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں،

 ” آغا حشر صاحب کا خیال تھا کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی تعریف کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک مرتبہ کسی اخبار میں میری ایک نظم جو غالباً عید کے متعلق تھی، شائع ہوئی۔ آغا نے اخبار دیکھا تو نظم کی بڑی تعریف کی۔

 خصوصاً آخری شعر کئی مرتبہ پڑھا اور پھر بولے ‘‘اماں تم بہت خوب کہتے ہو۔ اس سے اچھا کوئی کیا کہے گا؟’’

‎میں نے کہا ‘‘آغا صاحب آپ تو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ میں کیا اور میری نظم کیا؟’’

‎کہنے لگے ‘‘کیا کہا؟’’ ہم تعریف کرتے ہیں اور تم اپنی مذمت سننا چاہتے ہو۔ اچھا صاحب یوں ہی سہی۔ نظم بہت بُری ہے۔ تم نے جھک ماری جو یہ نظم لکھی اور ہم نے جھک ماری جو تمہاری تعریف کی۔ کہو کہو۔ اس ہیچ مدان، پنبہ دہان، کج مج زباں، حقیر فقیر سراپا تقصیر کو کیا شعور ہے کہ نظم لکھ سکے۔ حضور کی ذرہ نوازی ہے اور سیدھی سادی زبان میں یہ مضمون ادا کرنا چاہو تو کہو میں نے یہ نظم نہیں لکھی اور تم جھوٹے جو اس کی تعریف کر رہے ہو۔ ارے بھائی، میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر تمہارے انکسار کا یہی حال رہا تو فاقے کرو گے۔ سینہ تان کے کیوں نہیں کہتے کہ جی ہاں میری نظم تعریف کے قابل ہے”

‎آغا حشر کی یہ بات سن کے مجھے ہمیشہ کے لیے ‎کان ہوگئے۔ اگرچہ میں ان کی طرح اپنی تعریفیں آپ نہیں کرتا۔ لیکن کوئی تعریف کرے تو یہ بھی نہیں کہتا کہ حضرت میں تو بالکل جاہل ہوں۔”

صاحب، چراغ حسن حسرت کی کتھا کہہ کے یہ تمہید یوں باندھنی پڑی کہ اگر آپ ہمارے دردمند دل کی پہچان رکھتے ہیں تو ہم آپ کو جھٹلائیں گے نہیں اور نہ ہی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے زمین میں گڑ جانے کی اداکاری کر یں گے۔

اب کیا کیجیے کہ طب کی پریکٹس میں روزانہ کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ دل خوش فہم اپنے آپ کو تھپکی دینے سے باز نہیں رہتا۔ اگر کبھی حسرت کی طرح کسر نفسی سے کام لینے کی کوشش کریں تو حشر کی آواز کان میں گونجنے لگتی ہے، ہیچ مدان، پنبہ دہان، کج مج زبان……

” مجھے اپنی بیٹی کو نڈر، با اعتماد، اور زمانے میں سر اٹھا کے زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے”

ہمارے سامنے بیٹھی مریض کہہ رہی تھی،

” اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے میرے دل نے مجھے کچھ سجھایا ہے لیکن اس کے لئے مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے “

“جی کہیے، میرے بس میں ہوا تو ضرور!” ہم نے کہا،

ٹھہریے، ہمیں محسوس ہوتا ہے اگر یہ کہانی ہم نے شروع سے نہ سنائی تو اس میں گندھی درد کی چاشنی شاید آپ تک نہ پہنچ سکے۔

کچھ ماہ قبل تھکے تھکے قدموں اور مضمحل چہرے کے ساتھ ہمارے کلینک میں داخل ہونے والی اس شام وہ آخری مریض تھی۔ اسے کلینک پہنچنے کے لئے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنا پڑی تھی سو تھکن کے آثار چہرے سے نمایاں تھے۔

کہانی وہی تھی جو ہم اکثر سنتے ہیں۔ شادی کو بہت برس بیت چکے، حمل ٹھہرنے میں بھی کوئی دقت نہیں لیکن ہر مرتبہ اسقاط ہو جاتا ہے۔ سب نسخے آزما چھوڑے کہ وہ خود فارماسسٹ تھیں لیکن ہر دفعہ گود خالی ہی رہی۔ وہ ہمارے ساتھ کام کرنے والی نرس کی دور پار کی رشتے دار تھی اور اسی حوالے سے ہمارے پاس آئی تھی۔

تفصیلاً ہسٹری اور معائنے کے بعد ہم نے اسے صرف ایک ہدایت دی۔ جب بھی ماہانہ ایام کی تاریخ میں تاخیر ہو بھلے ایک دن، ہسپتال آ کر ہم سے ملے تاکہ فوراً علاج شروع کیا جا سکے۔ اب یہاں نظام کچھ ایسا ہے کہ پہلے سے اپائنٹمنٹ کے بغیر مریض نہیں دیکھا جا سکتا اور علاج لکھنا بھی ناممکن کہ ہر چیز بذریعہ کمپیوٹر ہوتی ہے۔ دوسرے کوئی بھی ڈاکٹر مروجہ طریقہ کار سے باہر نہیں نکلتا۔ ہم کچھ دوسری شہرت رکھتے ہیں سو اس کا پریشان سوالیہ چہرہ دیکھ کے کہا کہ تم آ جانا، باقی ہم سنبھال لیں گے۔ احباب کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ہم میں پاکستانی ہونے کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔

لیجیے جناب، دو ماہ بعد ہی وہ مرحلہ آن پہنچا۔ ہم آپریشن تھیٹر میں تھے جب ہمیں خبر ملی کہ باہر ایک خاتون ہمارے انتظار میں ہے۔ فارغ ہو کر باہر نکلنے پہ اسے انتہائی اضطراب کے عالم میں ٹہلتے دیکھا۔ ہمیں دیکھتے ہی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے ہمارے پاس آئی،

ڈاکٹر، آج صبح ہی حمل کا ٹیسٹ کروایا ہے اور مثبت ہے۔ لیکن ڈاکٹر یہ تو برسوں سے ہو رہا ہے۔ کہنے کو یہ میرا ساتواں حمل ہے لیکن کبھی بھی تیسرے مہینے سے آگے نہیں جاتا”

ہم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ابھی اہم یہ ہے کہ لمحہ حال میں جیا جائے۔ جو گزر گیا وہ بس میں نہیں، جو ہو گا، وہ علم نہیں۔ سو ابھی ایک امید کا دیا جلاتے ہیں اور مل کر کوشش کرتے ہیں کہ ساتواں حمل مدت پوری کرے اور امید بار آور ہو۔

حمل ساقط ہونے کی وجوہات مدت حمل کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ پہلے تین مہینوں میں ساقط ہونے والے زیادہ تر حمل ابنارمل کروموسومز کی وجہ سے ہو تے ہیں۔ کروموسومز کی زیادتی یا کمی کی وجہ سے عموماً بچہ ٹھیک سے نہیں بنا ہوتا سو فطرت کا کوالٹی کنٹرول نظام مدافعت کرتے ہوئے اسے پنپنے نہیں دیتا۔

اگلے تین ماہ میں ہونے والے اسقاط کی وجوہات میں رحم کی کمزوری، انفیکشن، آٹو امیون بیماریاں، ذیابیطس، آنول کی کمزوری، والدین کی بڑھتی عمر، کزن میرج، اور جینیاتی طور پہ خون کے گاڑھا ہو کے جم جانے میں خرابی کا موجود ہونا ہے۔

اگر تین حمل یکے بعد دیگرے ساقط ہو جائیں تو آٹو امیون اور جینیاتی ٹیسٹ کروانا لازم ٹھہرتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حمل تو باربار ساقط ہو رہا ہے لیکن ٹیسٹ میں کسی بھی سبب کی نشاندہی نہیں ہو رہی۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کی صوابدید ہے کہ اپنے تجربے کی روشنی میں مریض کا علاج کرے۔

ہم عموماً ایسے مریضوں کو بہت سی دواؤں کی ایک ‘ کاک ٹیل’ دیا کرتے ہیں جو بہت سے اسباب کے لئے مجرب ہے۔ اس مریض کے ساتھ بھی یہی کیا۔ اور ساتھ میں وہ ہدایت بھی کہ جب کبھی بھی حمل ساقط ہونے کی کوئی بھی علامت ظاہر ہو، ہسپتال پہنچ کے ہم سے رابطہ کرو تاکہ کاک ٹیل کی مقدار میں کمی بیشی کی جا سکے۔ اور ہماری وہ پیشکش کہ کسی بھی مشکل میں تم پہنچ جاؤ، باقی ہمارے ذمے۔

تین ماہ گزر گئے اور چوتھے ماہ میں وہ ہانپتی کانپتی میرے سامنے موجود تھی۔

” ڈاکٹر یہ چوتھا مہینہ پہلی دفعہ آیا ہے “

“فکر نہیں کرو، دواؤں کے ساتھ ساتھ اس دفعہ امید کی ڈوری میں بندھ کے ہم دونوں سب مہینوں کو پار کریں گے” ہم نے مسکرا کے کہا،

اور ایسا ہی ہوا۔ پانچویں چھٹے مہینے تک وہ بے حد پریشان رہی، ساتویں میں مسکرانا شروع کیا، آٹھویں میں چہرے پہ گلاب کھلنا شروع ہوئے اور اب نویں میں ہم ڈلیوری کا طریقہ کار متعین کر رہے تھے۔

“میں چاہتی ہوں کہ میرا بچہ سیزیرین کے ذریعے دنیا میں آئے”

“وہ کیوں ؟ تم نارمل بھی پیدا کر سکتی ہو” ہم نے پوچھا

“ وجہ یہ ہے کہ یہ میری بچی جسے میں نے ایک ایک دن کی امید سے بندھ کر پایا ہے، ڈھیروں دوائیں اور انجکشن استعمال کیے ہیں، نو ماہ تمہارے ہسپتال کا ننگے پاؤں طواف کیا ہے، جسے تم نے الٹرا ساؤنڈ پہ ایک نقطے کی صورت میں دیکھا تھا۔ میں چاہتی ہوں کہ پہلا لمس وہ تمہارے ہاتھ کا پائے۔ تمہارا ہاتھ پکڑ کے وہ اس دنیا میں قدم رکھے۔ جیسے تم نے ایک ایک دن اس حمل کی نگہداشت کی ہے، یہ آخری مرحلہ بھی تمہارے سامنے طے ہونا چاہیے”۔

احساس، درد اور لگن کے جواب میں ایسی محبت! یقین جانیے، دامن دل کی تنگی کی فکر ہونے لگی۔

اولیٰ دنیا میں آ چکی ہے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ اپنی ماں کی خواہش پہ چلتے ہوئے وہ دنیا میں ہمیشہ سر اٹھا کے چلے گی اور محبت و احساس کے وہ دیے روشن رکھے گی جن سے زندگی کا سفر سہل ہو سکے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).