صاحب پٹھان ہندوستانی


دروازہ کھولا تو سامنے ہلکے سانولے رنگ کی نہایت خوبصورت خاتون کھڑی تھی۔ فرصت میں گھڑے ہوئے نقش، گہری سیاہ آنکھیں، ستواں ناک متناسب مگر بھرے بھرے ہونٹ اور ماتھے پر چمکتی ہوئی بندیا۔ میری نگاہ اس چمکتی ہوئی بندیا پر ٹک گئی سو چند لمحے دیکھتا ہی رہا۔ چھوٹے میاں اندر آنے کا نہیں کہو گے؟ وہ گویا ہوئیں ہم آپ کے پڑوسی ہیں یہ سامنے والا گھر ہمارا ہے۔ میں نے بے خیالی میں اپنا ہاتھ دبایا تو اس میں موجود کھلونا طوطے نے زور سے ٹاں ٹاں کیا اور بندیا والی خاتون ٹھٹھک گئی۔ میں نے جلدی سے انہیں اندر آنے کا راستہ دے دیا۔

ہمیں ٹینچ بھاٹہ کے اس نئے خریدے ہوئے مکان میں منتقل ہوئے شاید تیسرا دن تھا یہ انیس سو تراسی تھا میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ اپنے نئے گھر کی چاہت تو ایک طرف مگر منتقلی کے دوران یہاں ایک خالی کمرے میں ملنے والا ربڑ کا کھلونا طوطا میری خوشی کی بڑی وجہ تھا۔ مجھے بہت ہی پیارا لگا۔ دبانے پر ٹاں ٹاں کی آواز نکالتا۔ میں خوشی سے پورے گھرمیں ٹاں ٹاں کرتا پھر رہا تھا اور ایسے میں ہی دروازہ بجنے پر بندیا والی خوبصورت خاتون وارد ہوئیں اور باورچی خانے کے فرش پر دھرے چولہے کے گرد رکھی ہوئی پیڑھیوں پر امی اور بہنوں کے ساتھ گپ شپ کو بیٹھ گئیں اور ہاتھ تاپنے لگیں۔

تعارف وغیرہ کے بعد رسمی باتیں جاری تھیں اور میں پاس بیٹھا خاتون کی بندیا کوہی تکے جا رہا تھا۔ آپ ہندو ہیں؟ کچھ ہی دیر بعد میں نے حسب عادت سوال داغ دیا۔ خاتون نے چونک کر میری جانب دیکھا اور قہقہہ لگا یا تو ان کے دانت بھی موتیوں جیسے چمک اٹھے۔ نہیں تو، ہم الحمدللہ مسلمان ہیں۔ تو پھر یہ؟ میں نے بندیا کی جانب اشارہ کیا؟ ارے ہم ہندوستان سے بیاہ کر آئی ہیں وہاں سبھی لڑکیاں بندیا لگاتی ہیں۔ بندیا مسلمان یا ہندو نہیں ہوتی بلکہ ہم انسان ہوتے ہیں چھوٹے میاں۔ ان کی اردو میں بہت شائستگی تھی۔ کیوں ہر وقت الٹے سیدھے سوال پوچھتا رہتا ہے امی نے مجھے ڈانٹا۔ اور میں سر دھننے لگا

ہمارے نئے گھر کے بالکل سامنے دو منزلہ مکان تھا جس کے باہر صاحب پٹھان کی تختی لگی ہوئی تھی بندیا والی خاتون یہیں رہتی تھیں صاحب پٹھان ان کے بوڑھے سسر کا نام تھا۔ جنہیں ان کے سبھی گھر والوں سمیت پورا محلہ بھی ابا پکارتا تھا۔ ہندوستانی خاندان چار بیٹوں تین بہوؤں اور ان کے بچوں پر مشتمل تھا۔ تینوں بہوئیں وہ کچھ سال قبل ہندوستان سے بیاہ کر لائے تھے اور اکلوتی بیٹی انہوں نے کراچی میں بیاہی تھی۔ ہمارے محلے میں صرف وہی اردو بولنے والے ہندوستانی تھے باقی پنجابی اور پوٹھوہاری۔

آمنے سامنے گھر ہونے کی وجہ سے ان کی خواتین کا ہمارے گھر بہت آنا جانا ہو گیا تھا۔ سب سے زیادہ وقت صاحب پٹھان کی بوڑھی بیگم ہمارے گھر گزارتیں انہیں سبھی اماں کہتے تھے وہ باتونی اماں بالکل دھان پان سی تھیں۔ گہرا سانولا رنگ جو اس عمر میں سیاہی مائل ہو گیا تھا۔ گال پچکے ہوئے۔ اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں اس قدر اندر کو دھنسی ہوئیں کہ آنکھوں کی بجائے صرف دو گڑھے ہی دکھائی دیتے۔ اکا دکا دانتوں والے پوپلے منہ میں ہر وقت منہ میں چھالیہ گھماتی رہتیں اور اسی پوپلے منہ سے خوب مزے مزے کے قصے ہمیں سنایا کرتیں۔

زبان کی روانی کا پوپلے منہ اور دانتوں سے کوئی تعلق نہیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا۔ وہ بتایا کرتیں کہ جب وہ بیٹوں کی بارات لے کر ریل گاڑی سے ہندوستان گئیں تو سلیپر کے تھکا دینے والے سفر اور گرد و غبار سے اٹے وہاں پہنچنے پر ان کے رشتہ دار بھی انہیں نہ پہچان پائے۔ دولہا بھی کوئلے کی کان کا مزدور دکھائی دیتا اور پاکستان واپسی کے سفر پر کے بعد گھر پہنچنے پر دلہن چڑیل کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اماں یہ باتیں سناتے وقت کھلکھلاتی تو اس کے اکا دکا دانت دکھائی دے پڑتے جو چھالیہ کی وجہ سے سیاہ پڑ چکے تھے۔ ہم اماں کی باتیں بہت دلچسپی سے سنا کرتے

کچھ ہفتے گزرنے کے بعد ہی مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ محلے بھر میں ان ہندوستانیوں کی کوئی بھی عزت نہیں کرتا تھا۔ محلے میں انہیں کئی ناموں سے پکارا جاتا۔ کوئی ہندوستانی، کوئی مٹروا، کوئی بھیے تو کوئی مہاجر کہ کر پکارتا۔ میں ان دنوں سمجھتا تھا کہ شاید یہ ہی ہندوستانیوں کے اصل نام ہیں جیسے ہم پنجابی کہلاتے تھے۔ وہ بہت بزدل بھی مشہور تھے۔ سہمے سہمے سے دکھائی دیتے۔ اگرچہ غربت بھی انسان کو بزدل بنا دیتی ہے لیکن وہ اتنے بھی غریب نہ تھے۔

کبھی کسی سے ادھار نہ مانگا۔ محلے والے ان ہندوستانیوں کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ راہ چلتے فقرے کسنا، ان کا دروازہ بجا کر بھاگ جانا، کئی مرتبہ رات کے وقت ان کی کال بیل پر ٹیپ چپکا کر غائب ہو جانا محلے کے نوجوانوں کا خاص شغل ہوا کرتا تھا، محلے کے تمام شرارتی لڑکے اس ایک بات پر متفق تھے کہ ہندوستانیوں کو تنگ کرنا ہے اور ان کے بڑے بھی ان کی شرارتوں پر انہیں سمجھانے بجھانے کی بجائے زیر لب ذو معنی انداز میں مسکرا دیا کرتے۔

ابا (صاحب پٹھان ) نے اپنے بیٹوں کو کبھی کسی سے لڑنے نہ دیا۔ پتا نہیں ابا نے انہیں کیا گھول کر پلا دیا تھا کہ وہ ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھتے۔ ابا جب بھی ملتا پیار سے ملتا اور ہمیشہ اخلاقیات اور پڑوسیوں کے حقوق پر درس دینے لگتا۔ وہ نہایت صلح جو تھا شاید یہ اس کی مجبوری بھی تھی کیونکہ جب مقابلہ نہ کر پاؤ تو صلح ہی کی آپشن بچتی ہے۔

اس دن شب برات تھی۔ محلے کے سب لڑکے دن بھر پٹاخے بجاتے رہے۔ چھوٹے بچے سائکل کی ٹوٹی سپوک کے آخری سوراخ والے حصے ؁ میں ماچس کی تیلی کا مصالحہ بھر کر اس میں کیل ٹھونس کر زور سے دیوار پر مارتے تو پٹاخہ بجتا۔ جب کہ ان سے قدرے بڑے بچوں نے سریے کے اور پر لوہے کی نلکی ویلڈ کروا رکھی تھی۔ نلکی میں گندھک پٹاس بھرتے اور لوہے کے پیچ کو اس میں ٹھونس کر زوردار پٹاخا بجاتے۔ جبکہ بعض ڈالڈے کا چھوٹا خالی ڈبا لے کر اس کے ڈھکن میں سوراخ کر لیتے۔

پھر اس کے اندر کاربیٹ کا ٹکڑا ڈال کر باری باری سبھی اس میں تھوکتے اور جلدی سے ڈھکن بند کر کے سوراخ پر انگلی رکھ کر ڈبے کو زور سے ہلایا جاتا۔ چند منٹ بعد اس میں گیس بھر جاتی تو زمین پر رکھ کر سوراخ کو ہلکی سے آگ دکھانے پر زوردار دھماکہ ہوتا اور ڈبہ پریشر سے اور بچے خوشی سے ہوا میں اچھل جاتے۔ دن بھر یہ شغل جاری رہا۔ اور ابا وقفے وقفے سے باہر آ کر بچوں کو منع کرتے رہے۔ شام ہوتے ہی بڑے لڑکے آ گئے اور شغل عروج پا گیا۔

ان کے پاس دو روپے والے سوتری بم اور کئی قسموں کے پانچ سے دس روپے والے بم تھے جن کا کا دھماکہ درو دیوار ہلا دیتا۔ رات گہری ہونے پر یہ شغل ہندوستانیوں کو تنگ کرنے تک ہی مخصوص ہو گیا۔ لڑکے بار بار صاحب پٹھان کے دروازے کے سامنے بم پھینک کر بھاگ جاتے۔ دھماکہ ہوتا اور ابا باہر نکل کر شور مچاتا اور واپس چلا جاتا۔ ایک مرتبہ تو حد ہو گئی۔ ایک لڑکے نے ابا کے دروازے پر یکے بعد دیگرے دو بم سلگا کر اچھالے۔ ایک دروازے کے سامنے جبکہ دوسرا بم ان کی نالی میں گرا۔

پہلا بم پھٹتے ہی ابا بلبلاتا ہوا باہر نکلا تو اگلے ہی لمحے نالی میں گرا بم بھی پھٹ گیا۔ اور ابا سر تا پا نالی کے غلیظ کیچڑ سے بھر گیا۔ اب کی بار اس کی زبان تو گنگ ہو گئی مگر عقب سے بھاگ کر آتی ہوئی اماں نے خوب شور مچایا۔ لڑکے بھاگ چکے تھے۔ آج کی رات کا ان کا یہ آخری بم تھا جو ہدف پر پھٹا۔ اماں اپنے دوپٹے سے ابا کے منہ پر لگا ہوا نالی کا کیچڑ صاف کرنے لگی اور اسے بازو سے تھام کر واپس لے گئی۔ ابا کے بوڑھے خاموش قدموں میں اب توازن غائب تھا۔

اس روز اماں بہت خاموش تھی اس کے گوشت سے عاری جبڑے زیادہ نمایاں تھے وہ تیزی سے اپنے پوپلے منہ میں چھالیہ گھماتی جا رہی تھی۔ چولہے پر ہاتھ تاپتے تاپتے اچانک اس کا منہ رک جاتا اور پھر سرد آہ بھر کر چھالیہ گھمانے لگتی۔ مجھ سے نہ رہا گیا پوچھ ہی لیا۔ آج آپ اتنی چپ کیوں ہیں۔ محلے بھر کو ہم ہی ملے ہیں تنگ کرنے کو۔ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ اس نے کرب سے چہرہ میری جانب گھمایا۔ وہ اس لیے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور آپ ہندوستانی۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ گویا بپھر ہی گئی۔ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ سچ بات منہ سے نکالوں تو وہ بات ہمیں شہر سے ہی نکالتی ہے۔ تم ابھی بچے ہو تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔ بیٹا ہم بھی پاکستانی ہیں۔ ہم نے قائد اعظم کی آواز میں آواز ملائی۔ بچپن میں میں بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ گلیوں میں بھاگ بھاگ کر بن کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے پاکستان کے نعرے لگایا کرتی تھی۔ ہم نے اپنی جائیدادیں اپنا گھر بار اپنی وہ گلیاں جہاں ہم پیدا ہوئے کھیلے کودے سب کچھ چھوڑا اور خالی ہاتھ پاکستان آ گئے۔

ایک مسلمان ملک کی محبت اور زخموں کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ میری بڑی بہن فسادیوں نے اٹھا لی جس کا آج تک کوئی اتا پتا نہیں۔ میرے ابا اور دو بھائی ہجرت کے دوران بے دردی سے قتل کیے گئے۔ ہمیں تو ان کی قبریں بھی معلوم نہیں کہ دفنائے گئے یا چیل کوے کھا گئے؟ کیا ہم اب بھی ہندوستانی ہیں۔ اماں روہانسی ہو گئی۔ اب اس کے چہرے کے دو گڑھوں میں اس کی چھوٹی آنکھیں چمکتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ آنسوؤں نے آنکھوں کی پہچان کروا دی تھی۔ میری عمر اور عقل چھوٹی تھی مگر یہ معلوم تھا کہ آنسو تبھی آتے ہیں جب انسان بہت دکھی ہو۔ میں نے بے اختیار ہاتھ میں پکڑے ربڑ کے طوطے کو دبا دیا اور وہ ٹاں ٹاں کرنے لگا۔

خرم بٹ
Latest posts by خرم بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خرم بٹ

خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے

khurram-butt has 10 posts and counting.See all posts by khurram-butt