جنسیت : پیسہ نہیں تو بندوق ورنہ خواب ہیں ناں


جنسی درندگی کا معاملہ کچھ عجیب الجھا ہوا ہے۔ جہاں مذہبی جنونیت نہیں ان لبرل معاشروں میں بھی یہ سب موجود ہے۔ ہاں قانون یا مجموعی معاشرتی صورت حال کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدرے کم ہے۔ معاملہ صرف یہی سمجھ آ رہا ہے کہ، سب کچھ کرو لیکن باہمی رضا مندی سے۔ باہمی رضا مندی ہی جدید انسان کے مہذب ہونے کی علامت ہے۔ لیکن ہم کیا کریں ہمارے سامنے باہمی رضا مندی کے مقام پر گناہ اور سزا کا تصور ہے۔ اس لیے شب خون مار لیتے ہیں۔ بعد میں رب کو راضی کر لیں گے۔

ہم سب کا ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے، مردانہ معاشرے کا رعب۔ کسی جگہ ایک بڑی عمدہ بات پڑھی کہ ہم نے عورت کو باحیا بنانے کے چکر میں مرد کو بے حیا بنا دیا۔ اور مرد ; یہ نہیں، وہ چاہیے۔ مرضی سے نہیں، تو طاقت سے۔ اس پورے معاملے پر دن رات کھپنے والے وہ لوگ ہیں جو ایسے واقعات کو ہوتا دیکھ کر گھر جا کر سو جاتے ہیں اور صبح خبر پڑھ کر سوشل میڈیا پر شور مچاتے ہیں۔

یہ کہانی سامنے آ گئی۔ ورنہ اس طرح کی کہانیاں اچھالنے والے خود ایسی کہانیوں کے مرکزی کردار ہوتے ہیں۔ انسان جیتے جی کرے توبہ خطاؤں سے / مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں۔ معاشرہ جب باہمی رضامندی کے مقام پر پہنچے گا پھر شاید۔ لیکن نہیں۔ سب قاعدے اور قانون لے آئیں، کیا رقابت، ہوس اور نفسیاتی مسائل ختم کرنا ممکن ہے؟ اس ذہنی اور نفسیاتی عدم توازن کو تربیت سے شاید کم کیا جاسکتا ہے اور یہ توازن ہر سطح پر ہو تب۔ ورنہ نصاب اور ہم نصاب کچھ نہیں کر سکتے۔ یونیورسٹیوں، کالجز اور مدرسوں کے معاملات سب کے سامنے ہیں۔ کہیں باہمی رضامندی ہے اور کہیں طاقت۔ کیونکہ جب حیوانی بھوک نے انگڑائی لینی ہے اس وقت پیسہ نہیں تو بندوق۔ عقل نہیں تو جنون اور اگر کچھ نہیں تو خواب ہیں ناں سہانی زندگی کے۔

دوسری طرف کیا اوٹ پٹانگ انداز ہیں عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھیں اور لنگر خانے کھولتے جائیں۔ روٹی کھاؤ اور دیگر بھوکیں کہیں اور جاکر چھپ چھپا کر مٹائیں۔ خبروں والے خبر اچھال کر پیسہ کما لیں گے اور ہم عوام کو وعدوں کے ذریعے مطمئن کر لیں گے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں اتنے میں ایک اور خبر آ جائے گی۔ عوام کی یاداشت کمزور ہے۔

بہرحال جو بھی ہے اس موٹروے واقعہ پر کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے۔ اس پولیس کو جس کا سربراہ یہ کہ ہا ہے کہ خاتون کو رات بارہ بجے موٹروے پر اکیلے نہیں آنا چاہیے تھا یا عورت کو جو رات بارہ بجے گاڑی کا پیٹرول چیک کیے بغیر بچوں کو لے کر براستہ موٹروے لاہور سے گوجرانوالہ جا رہی تھی؟

فرض کیا وہ بچوں کے ساتھ اپنی فیملی کے کسی مرد کے ساتھ ہوتی تو کیا خاتون وحشیانہ سلوک سے بچ جاتی۔ عین ممکن ہے وہاں پولیس کو لاشوں کا ڈھیر سنبھالنا پڑ جاتا۔ غلیظ نیت کو کیا پتا تھا کہ گاڑی کے اندر کون اور کتنے لوگ ہیں وہ تو بس اس غلاظت میں رنگے ہوئے تھے جو ہم سب کی اجتماعی زندگی میں رواں دواں ہے۔

عورت کو مردوں کی ذہنی حالت کا پورا شعور کبھی نہیں ہوتا۔ کیسے ہو وہ کوئی الف لیلی کی شہر یار ہیں جس نے کتابیں چاٹ رکھی تھیں اور جنھوں نے چاٹ رکھی ہیں ان کا رد عمل بھی فہم و فراست والا نہیں محاذ آرائی کا ہے ”میرا جسم میری مرضی“ کتابیں پڑھنے کے باوجود عقل پر تالے ہیں۔ اور فرعونوں سے محاذ آرائی ہے۔ گرد و پیش کا ماحول بچپن میں ہی دماغ کی نشو و نما روک دیتا ہے۔ زندگی سے نبرد آزما ہونے کی جرات فراہم نہیں کی جاتی۔ فیصلے کرنے نہیں سکھائے جاتے۔ بس شادی کے بعد فرعون کو کس طرح راضی رکھنا ہے یہ درس گھروں میں دیا جاتا ہے۔ اور جن کو شعور میسر ہے ان میں شہریار جیسی معاملہ فہمی نہیں۔

ریاست کے تشکیل شدہ نصاب سے اسکولز، کالجز اور یونی ورسٹیوں میں اخلاقیات کے نام پر ان اسباق سے متعارف کرواتا ہے جو جدید معاشرے میں متروک ہو چکے ہیں۔ بس پرچار ہے۔ انسانیت تربیت سے تشکیل پاتی ہے۔ تعلم ادھورے نصاب پر مبنی ہے۔ جو فراست نہیں یادداشتوں تک محدود ہے۔ تربیت کون کرے۔ کرنے والے خود سر تا پا غلاظتوں کا ڈھیر ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے، وہ پیسے سے جسم خرید لیتے ہیں اور جن کے پاس ڈنڈا یا بندوق ہے وہ موٹروے پر درندگی کی نئی تاریخی رقم کر دیتے ہیں۔ سرکار کیا کرے؟ اسی کے تائے چاچے بعد میں کہیں سے بر آمد ہوتے ہیں اور کیس کی کمزور تفتیش کے بعد ملزمان آزاد۔

لگتا ہے جیسے اس طرح کے سانحات چھپے رہیں تو بچت ہے۔ ورنہ میڈیا کا انداز اور پولیس کے پڑھے لکھے افسر کا بیان درندوں کے عمل سے زیادہ زخموں پر نمک پاشی کرتا ہے۔ اور اہل محلہ خبر سن کر مزا لیتے ہیں۔

حیرت ہے ایسے واقعات کے بعد ہم جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ورنہ گھروں میں خود اپنے سپوتوں کی ایسے معاملات میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نظر انداز بھی۔ محفوظ کون ہے کوئی بھی نہیں۔ بس ٹیکس دیتے رہیں اور اپنی نگہبانی خود کریں۔

اور کچھ نہیں کرنا آتا تو بیان تو ڈھنگ کا دو کہ جن کا ماتم ہے ان کو کوئی حرف تسلی ملے۔ مانا ہم زمین کو جنت نہیں بنا سکتے۔ لیکن اپنے رویے اور عمل سے اسے قابل برداشت تو بنا سکتے ہیں۔

سرعام پھانسی دیں نہ دیں لیکن ایسے واقعات کی مذمت کا ڈھنگ تو سیکھیں۔ پارلیمان میں بل پیش کریں یا نہ کریں کیا فرق پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن سے لے کر کھاتے ہیں وہ کچھ کرنے دیں گے؟ پہلے ٹھیکے داروں سے انسانی حقوق کا تعین تو کروا لو۔ وہ تو خود اپنے گھروں کا گند اٹھا کر ہمارے دروازوں پر حقوق کے نام پر رکھ رہے ہیں۔ ہر دفعہ یو ٹرن جلدی نہیں ملتا۔ پہلے اسے معاملات کو موجودہ حکومتی مشینری سے حل کر کے دکھائیں۔ عوام کو یقین تو آئے کہ سرکار تبدیلی کے لفظ کو ادا کرنے کی اہل ہے۔ عوام کو کہیں مدینے کی جھلک تو نظر ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو اپنے خواب اپنے پاس رکھیں۔ لوگ اب مذاق اڑاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).