خوف کے آگے جیت!


من حیث القوم ہم سب ایک ان دیکھے خوف کا شکار ہیں۔ ہونی کا خوف، انہونی کا خوب، دیکھے کا خوف، ان دیکھے کا خوف، دشمن کا خوف، دوست کا خوف، سوچ کا خوف، خالی ذہن کا خوف، باس کا خوف، کلیگ کا خوف، تنزلی کا خوف، ترقی کا خوف، منزل کا خوف، راستے کا خوف، روزی کا خوف، بے روزگاری کا خوف، پیچھے والے کا خوف، ٓاگے والے کا خوف، محبت کا خوف، بچھڑ جانے کا خوف، خالی جیب کا خوف، بھری جیب کا خوف، بیماری کا خوف، تندرستی کا خوف، جسم کا خوف، جان کا خوف، جان جاناں کا خوف، دشمن جاں کا خوف، رقیب کا خوف، سماج کا خوف، رسوم کا خوف، پیاز کا خوف، پیمپر کا خوف، آزادی کا خوب، قفس کا خوف، درندے کا خوف، شکنجے کا خوف، خوف کا خوف۔

خوف کی یہ دھند ہمارے شعور اور لاشعور میں تہہ در تہہ بیٹھی ہمیں ساکن اور جامد رکھتی ہے۔ ہم اس بات کو نظر انداز کیے کہ خوف کے اس سمندر، جو کہ ہمارا اپنا خود ساختہ ہے، کے آگے کامیابی و کامرانی کا امرت دھارا ہے جو ازلوں سے ان جواں مردوں کی تشنگی کا سامان کیے اپنی ہی رفتار سے دھیرے دھیرے آگے بڑھا جاتا ہے، اور اس کی موجیں اس وقت خوشی سے تلاطم خیز ہو جاتی ہیں جب کوئی آگے بڑھ کر اس کے جام سے اپنی پیاس بجھانے کشاں کشاں چلا آتا ہے۔

ہمیں ضرورت ہے اپنے حال کی خبر لینے کی۔ ہمیں ضرورت ہے اپنی سوچ کو بدلنے کی، ہمیں ضرورت ہے اپنے عمل کی اصلاح کی، ہمیں ضرورت ہے اپنی فکر کی فکر کرنے کی، ہمیں ضرورت ہے محبت کو اپنانے کی، ہمیں ضرورت ہے آگ کو بجھانے کی، ہمیں ضرورت ہے بلند فکری کی، ہمیں ضرورت ہے عالی نظری کی، ہمیں ضرورت ہے روشن فکری کی، ہمیں ضرورت ہے ان تمام عناصر، فکری و عملی روویوں کو رد کر دینے کی جو ہمارے عمل کے گرد مکڑی کے جال کی مانند اپنا حصار قائم کیے ہمیں ساکن اور جامد رکھے ہوئے ہیں۔

اپنے اس خوف کے زیر عصر ہم بھول بیٹھے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور خواب کیا۔ خقیقت کو خواب سمجھ کر ہم خواب کو حقیقت بنائے بیٹھے ہیں۔ سوچ و فکر کی ان بھول بھلیوں میں گم ہم ہر لحظہ حقیقت سے دور سے دور تر ہوتے چلے جا رہیں ہیں، مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اپنے اوپر وارد ہونے والے اس عذاب کی خبر ہی نہیں ہے۔ خواب میں جھیلے ہوئے دکھ اور درد تو ہمیں خوب یاد ہیں، مگر حقیقت کے دھارے پر بہتا پانی ہمیں مانند سراب لگنے لگا ہے۔ حقیقت سے فرار میں ہماری یہ کیفیت اس شتر مرغ کی مانند ہے جو ریت میں منہ چھپائے اس خیال کا دامن ہاتھ میں لیے آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔

ہمارے اس اجتماعی خوف کے پیچھے، سایئکالوجسٹ شاید اس خوف کو اجتماعی شعور یا کولیٹو کانشس کا نام دیں، ہمارے لاشعور میں چھپی وہ انسیکیورٹی ہے جو ہمیں کسی بھی پل چین نہیں لینے دیتی۔ اور ہمارے اس عدم تحفظ کے پیچھے وہ خود آگاہی ہے جو ہمیں اس خوف سے ہلکان رکھتی ہے کہ لوگ ہماری کمیوں اور خامیوں کے بارے میں جان جایں گے۔ اور اس سب گورکھ دھندے کے پیچھے چھپا ہمارا وہ خود ساختہ تشخص ہے جو ہمارے اپنی تخلیق تو ضرور ہے مگرجس کا تعلق حقیقت کی بجائے سراسر تخیل کی طلسماتی دنیا سے ہے۔ کیوں کہ ہم دنیا کے سامنے اپنی ذات ایک ایسے شخص کی طور پر پیش کرتے ہیں جو پرفیکٹ سے سات قدم کچھ آگے ہی ہوتا ہے۔ درون خانہ ہم جانتے ہیں کی ہم ایسے نہیں ہیں!

وہ تمام بلند و بانگ خواہشات اور توقعات جو ہم اپنی حقیقی زندگی سے پیوستہ رکھتے ہیں اس خوف کو پروان چڑھانے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ 80 ماڈل کی ہونڈا موٹر سائیکل کے مالک بھی بمشکل ہوتے ہوئے ہمارے خواب ہمیشہ آڈی 7 سیریز کے ہوتے ہیں اور اس کم بخت آڈی کوچند ہی سالوں میں حاصل کرنے کے لیے کی گئی جدوجہد، چاہے اس کا انجام کامیابی ہو یا ناکامی، ہمارے اعصاب پر جو بوجھ ڈالتی ہے اس کی قیمت ہم خوف کے سائے خرید کر ساری زندگی ہی ادا کرتے رہتے ہیں!

یا پھر ماضی میں جھیلے گئے کسی مینٹل ٹراما کے گہرے سائے ہمارے خوش رنگ مستقبل کی تمام تر رنگینیوں اور رعنایوں کو ایسے بد رنگ اور بدنما کر دیتے ہیں کہ ہم اپنی آنے والی تمام تر زندگی انہی رنگوں کی تلاش لاحاصل میں گزار دیتے ہیں۔ ہمارا ماضی ہمارے حال کو ہمیشہ کے لیے نگل جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اس مینٹل ٹراما سے ایسے ہارے کہ تمام عمر کے لیے اپنی زندگی سے رنگ کھو بیٹھے اور خوف کا طوق ہمیشہ کے لیے اپنے گلے کا ہار کیے رہے۔

خوف کا تعلق مختلف النوع ویری ایبلز کے ساتھ ہے۔ خوف کا تعلق امید کے ساتھ بھی ہے، خوف کا تعلق ڈر کے ساتھ بھی ہے، خوف کا تعلق خدشات اور اندیشہ ہائے دوام کے ساتھ بھی ہے، خوف کا تعلق لاعلمی سے بھی ہے، خوف کا تعلق زیادہ جان لینے سے بھی ہے، خوف کا تعلق جان لینے سے بھی ہے، خوف کا تعلق جان دینے سے بھی ہے، خوف کا تعلق مستقبل کے ساتھ بھی ہے، خوف کا تعلق ماضی سے بھی ہے، خوف کا تعلق کھو دینے سے بھی ہے، خوف کا تعلق کا تعلق پا لینے سے بھی ہے، خوف کا تعلق بھری جیب سے بھی ہے، خوف کا تعلق خالی جیب سے بھی ہے، خوف کا تعلق ہجوم سے بھی ہے، خوف کا تعلق تنہا رہ جانے سے بھی ہے، خوف کا تعلق قریب والے سے بھی ہے، خوف کا تعلق دور والے سے بھی ہے، خوف کا تعلق کا تعلق ہار جانے سے بھی ہے اور خوف کا تعلق کا تعلق جیت جانے سے بھی ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ خوف کے آگے جیت ہے! جو اس حقیقت کو پا گئے وہ کامیاب ہو گئے۔ دنیا کی تاریخ ایسے لوگوں کے اتنے ناموں سے ایسے بھری پڑی ہے جتنے ساحل سمندر پر ریت کے ذرات جو اپنے خوف کو اپنی طاقت بناتے ہوئے کامیابی کا افقی زینہ چڑھنے میں کامیاب رہے، چاہے راستے میں ہزار بار ہی لڑکھڑائے مگراپنے عزم کی طاقت سے اپنے راستے کی ہر دیوار کو ریت کر کے ہمیں یہ درس ہدیہ کر گئے کہ خوف کے آگے جیت ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).