قیام پاکستان کے بین الاقوامی محرکات


پاکستان میں قیام پاکستان کا افسانہ یقیناً آسکر ایوارڈ کے لائق ہے کہ اتنی دیر پردے پہ مقبولیت کے جو ریکارڈ قائم کیے اس کی نظیر کہیں اور ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ کیسا حسین امتزاج ہے اور ہدایت کار کے فن کو بھی داد دیے بغیر انسان رہ نہیں سکتا کہ جن کے کفر کا ”مسلم امہ“ کا اجماع تھا وہ حصول پاکستان کی جد و جہد میں سرگرداں تھے اور جو اب پاکستان کے وارثان ہیں وہ اس کے بننے کے گناہ میں شرکت سے بری الزمہ ہیں۔

اس کھلے تضاد پہ پرفن ہدایت کاری اپنی معراج کو چھو لیتا ہے۔ ہم قیام پاکستان کے حوالے سے ریاستی بیانیے کے علاوہ کسی بھی دوسری تحقیق کو شجر ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔ سرکاری سطح پہ پڑھائی جانے والی تاریخ الہامی ہونے کی دعویدار ہے جس سے معمولی سا انحراف بھی حب الوطنی کے ساتھ ساتھ انسان کو اس کے ایمان سے بھی محروم کر سکتا ہے۔ اسی ریاستی بیانیے نے قوم کو تقسیم در تقسیم کے لا متناہی سلسلے کی نظر کر رکھا ہے۔ جس کا ایک مرتبہ اظہار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بڑی سکرین پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی نے اتنے بڑے کے بعد بھی خود احتسابی کے لیے خود کو پیش نہیں کیا اور اتنی تندہی کے ساتھ گیم کے اگلے لیول کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے۔

1940 سے 1947 تک کا عرصہ بہت ہی اہم ہے اسے بار بار ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ اس عرصہ میں دنیا میں ہونے والی ڈویلپمنٹ اور ہندوستان میں چلنے والی تحریکوں، ہونے والے معاہدوں اور بننے والے کمیشن اور پھر ہندوستان کے حالات اور بین الاقوامی منظر پہ ہونے والی تبدیلیوں کے آپس میں تعلقات کو ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کابینہ مشن پلان 1946 ایک انتہائی اہم ڈاکیومنٹ ہے اسے جتنی بار پڑھا جائے کم ہے اس پہ ہندوستانی قیادت کا موقف کیا تھا؟

کابینہ مشن پلان میں ہندوستان کی ساری قیادت متفق تھی جس کے مطابق ہندوستان دس سال تک برطانوی ڈومینین قبول کیا تھا پھر ایسا کیا ہوا کہ اگلے ہی سال ہندوستان کو آزادی دے دی گئی؟ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کون کون سی قیادت میسر تھی اور ان کے سیاسی مقاصد کیا تھے؟ ایک معروف نعرہ ”پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ“ جس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاست کو بہت متاثر کیا اسے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کتنی سی پذیرائی حاصل تھی؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی سطح پہ طاقت کے ترازو کا جھکاؤ کس جانب تھا؟ کیا دنیا منظر نامے میں آنے والی تبدیلیاں ہندوستان کی آزادی کو آسان بنا رہی تھیں؟

اگر ہم دوسری جنگ عظیم کا سرسری تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اتحادی افواج میں روس نے سب سے زیادہ کنٹری بیوٹ کیا تھا کامیابیاں بھی زیادہ اسی نے سمیٹی تھیں اور نقصان بھی۔ جنگ کے دوران مرنے والوں میں ہر ساتواں شخص روسی تھا۔ اگر جنگ اپنے روایتی انداز میں ختم ہو جاتی تو بلاشبہ نئی سپر پاور کا تاج روس ہی کے سر پہ سجایا جاتا۔ لیکن جولائی 1945 میں نیو میکسیکو کے صحرا میں امریکہ نے جوہری بم کا کامیاب تجربہ کیا تو بین الاقوامی سطح پہ طاقت کا توازن یکسر تبدیل ہو گیا۔

برطانوی وزیر اعظم ایٹمی حملے کے حق میں تو تھے لیکن وہ یورپ سے دور اس پہلی قیامت برپا کیے جانے کے حق میں تھے۔ اسی لیے جاپان کو اس تجرباتی کیفیت سے گزرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ جاپان پہ ایٹمی حملہ بلاجواز تھا اس کا اظہار خود امریکی اعلیٰ عہدہ دار بھی کر چکے ہیں کیونکہ جاپان اپنی فضاوں پہ کنٹرول کھو چکا تھا اور اس کے لیے مزید جنگ جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پہ حملہ صرف اور صرف روس کی کامیابیوں کو مدھم کرنے کے لیے کیا تھا جس میں وہ کامیاب بھی رہا۔ کیونکہ بگ تھری کے درمیان یہ طے تھا کہ 8 اگست 1945 کو روس جاپان پہ حملہ کرے گا اور روس نے اپنی افواج جاپانی بارڈر پہ لگا بھی دیں تھیں لیکن اس سے دو روز قبل بغیر روس کو اطلاع دیے 6 اگست 1945 کو ہیروشیما پہ اور پھر 9 اگست کو ناگا ساکی پہ ایٹم بم پھینک کر اپنی برتری ثابت کر دی۔

اگر ہم جنگ عظیم دوئم کے خاتمے پہ دنیا پہ نظر ڈالیں تو ہمیں ایک سابقہ سپر پاور برطانیہ نظر آتی ہے جس کا دنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام کا وسیع عریض نظام ہے۔ دوسری ہمیں سپرپاور روس کی صورت میں نظر آتی ہے جس نے چھ برس تک ایک کٹھن جنگ میں بے شمار کامیابیاں سمیٹی تھیں۔ اس کا اظہار برطانوی وزیر اعظم چرچل کے اس خوف سے بھی ہوتا کہ اگر روس مشرقی یورپ سے اپنی فوجیں نکالنے سے انکار کر دے تو کوئی اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔

تیسری طرف ہمیں امریکہ کی صورت میں ایک سپر پاور نظر آتی ہے جو اس وقت دنیا کی واحد نیوکلیر پاور تھی۔ جسے دوسری جنگ عظیم میں پرل ہارپر پہ جاپانی حملے کے ردعمل کے طور پہ کودنے کا موقعہ ملا اور جاپانی طاقت کا سورج بھی امریکہ کے ہاتھوں غروب ہوا۔ طاقت کی اس مثلث میں برطانیہ نے امریکہ کے جونئیر پارٹنر کے طور پہ ذمہ داری قبول کی تو دنیا کمیونسٹ ممالک جس کی سربراہی روس کے پاس تھی اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک جس کی سربراہی امریکہ کے پاس تھے کے دو بلاکس میں تقسیم ہو گئی۔ کیونکہ معاشی نظریات دنوں بلاکس کے ایک دوسرے کے لیے خطرہ تھے۔ اور ایک سرد جنگ کا آغاز دوسری جنگ عظیم کی کوکھ سے ہی ہو گیا تھا۔

اگر یالٹا کانفرنس 1945 میں بگ تھری کی شرائط پہ نظر ڈالی جائے تو امریکی صدر اقوام متحدہ کے قیام کی صورت میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ روز ویلٹ یہ بخوبی جانتے تھے کہ کس طرح جنگ عظیم اول کے بعد اتحادی ممالک کے درمیان بے اعتباری اور تلخی کی وجہ سے امریکہ سنہ 1920 اور 1930 کے عشروں میں عالمی سیاست سے دور ہو گیا تھا۔ اس لیے روزویلٹ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ایک مرتبہ پھر امریکہ دنیا سے الگ تھلگ نہ ہو۔

جبکہ روسی صدر جوزف سٹالن جنگی اخراجات کی وصولی کے لیے اپنے طے شدہ فارمولے کے مطابق تعاون چاہتے تھے۔ جس میں مشرقی یورپ میں اپنا حلقہ اثر چاہتے تھے۔ جو سویت یونین کے گرد ایک حصار کا کام کرسکے اور اس کی حفاظت کرے۔ یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ جرمنی آئندہ کبھی جارحیت کا مظاہر نہ کرسکے سٹالن جرمنی کی تقسیم بھی چاہتے تھے اور اس کے علاوہ جرمنی سے مشینری پیسے حتی کہ افرادی طاقت کی شکل میں بھاری معاوضہ چاہتے تھے تاکہ تباہ شدہ سویت یونین کو بحال کیا جا سکے۔

برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل یورپ سے جنگ کا خاتمہ تو چاہتے تھے لیکن روس کی بالا دستی کو قبول کرنے میں تعامل تھا۔ بالآخر اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اسے امریکی سرپرستی پہلے دن سے حاصل ہو گئی تھی۔ امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے کے راستے میں گزشتہ سپر پاور برطانیہ اور متوازی سپر پاور کی دعویدار روس رکاوٹ تھے۔ برطانیہ نے اگرچہ امریکہ کی بالادستی قبول کر لی تھی مگر اس کی نو آبادیات کی وسعت اس قدر تھی کہ وہ اپنی کمزور معیشت کو درست کر سکتا تھا اور کسی بھی وقت امریکہ کی ہم عصری کا دعوی کر سکتا تھا۔ اس لیے اقوام متحدہ نے اپنے قیام سے ہی دنیا سے نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط آواز اٹھائی جسے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس کے آگے دوسری جنگ عظیم میں ہونے والے نڈھال برطانیہ اور فرانس کھڑے نہ ہو سکے اور انہیں اپنے کثیر نوآبادیاتی علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی دور میں کئی ممالک کو آزادی کی نعمت نصیب ہوئی۔ اسی تسلسل میں برطانوی سلطنت جس میں سورج کا غروب ہونا بھی گوارا نہیں کیا جاتا تھا محدود ہو گئی۔

روس کے پھیلاؤ کی نوعیت جغرافیائی ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی بھی تھی۔ کیونکہ سوشل ازم کا پھیلاؤ دنیا کے بیشتر حصوں میں نفوذ کرچکا تھا۔ اس لیے اس کے بندوبست کے لیے وسیع اور طویل المدت پلاننگ کی گئی جس کے لیے امریکی صدر ہنری ٹرومین نے منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی جسے ٹرومین ڈاکٹرائن کہا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں کانگریس کے صدر سبھاش چندر بوس نے آزادی کے لیے امن کا راستہ ترک کے مزاحمت کی راہ اختیار کی تو انہیں کانگریس سے راہیں بھی جدا کرنی پڑیں۔

انہوں آزاد ہندوستان فوج کی بنیاد ڈالیں اور کئی محاذوں پہ ان کے سپاہی قابض افواج سے برسر نظر آتی ہے۔ انہوں نے غلام ہندوستان میں اپنے زیر اثر علاقوں میں اپنے لیے وزیر اعظم کا عہدہ تخلیق کیا۔ انہوں نے برطانوی مخالفت کے لیے جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر سے بھی ملاقات کی۔ وہ لینن کی تحریک سے بھی متاثر تھے۔ ان کے علاوہ پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور علامہ اقبال جیسے بڑے قد کے لیڈر بھی سوشل ازم کے سحر میں نظر آتے تھے۔ ایسی صورت حال میں متحدہ ہندوستان برطانوی نفرت کی گھٹی لے کر جنم لیتا تو یقینی طور پہ کمیونسٹ روس میں زیادہ کشش دکھائی دیتی۔

اس دور میں چائنا میں بھی ماوزے تنگ کی سربراہی میں انقلاب کے خد و خال بھی نمایاں ہو رہے تھے جس کا نظریاتی جھکاؤ بھی روس کی جانب تھا۔ ایسی صورتحال میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی تین ممالک میں ہونے سے سرمایہ دارانہ نظام کی لٹیا ہی ڈوب جاتی۔ یہیں سے روس کو پھیلنے سے روکنے کی عملی تدبیر اختیار کی جانے لگی اسی عملی منصوبہ بندی حصہ تھا ہندوستان کی نفرت انگیز تقسیم۔ اسی لیے برطانیہ نے اسی انداز میں برطانیہ کو چھوڑا جو اس وقت کے اینگلو امریکن مفادات کو بہتر لگا۔

پاکستان میں ایسے نظام کو ہوا دی جہاں اسلام انتہا پسندانہ گروہوں کے ہاتھوں میں رہے جو ایشیا میں اینگلو امریکن جیو سٹیٹک مفادات کی نگہبانی کے لیے بیس کیمپ کا کام کرنے پہ تیار کیا جا سکے۔ جب کہ بھارت میں ایک نرم اسلام کے لیے راہ ہموار کی گئی تاکہ برطانوی سیاسی کلچر اور معاشی مفادات برصغیر میں محفوظ رہے اور ان کی سو سالہ محنت رائیگاں نہ جائے۔ پھر کرشمہ سازی ملاحظہ ہو کہ وہ جس نے استعماریت کا جال بن بن کر یہاں کے لوگوں کو بدترین غلامی میں جکڑ رکھا تھا آزادی کے بعد اسے خیر کا خواہ کا درجہ حاصل ہوا اور جو غلام تھے وہ آزادی کے بعد ایک دوسرے کے دشمن ہو کر اپنے سابقہ آقا کے مفادات کی نگہبانی پہ جت گئے۔

برصغیر کی اس خون سے لکھی گئی تقسیم نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے دور کر دیا جس سے ستر برس سے دونوں اپنے علاقائی مسائل کو حل کرنے کی بجائے محض دفاع کو مضبوط کرنے پہ معمور ہیں۔ جس سے خوشحالی اور ترقی نے کبھی ان کی دہلیز پار نہ کی۔ بھارت سوا ارب کی آبادی نہیں بلکہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے لیے بہترین منڈی ہے۔ پاکستان کو پہلے دن سے سبز انقلاب کے گہرے سبز باغ دکھائے جانے لگے۔ پین اسلام ازم کی صورت میں سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں سمونے لگا۔

امریکہ پاکستان کے معاملات براہ راست دیکھنے لگا۔ روس کو نکیل ڈالنے کا امریکی منصوبہ اگرچہ 1988 میں پایہ تکمیل کو پہنچا لیکن اس کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ پاکستان نے کس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مغربی بلاک میں شمولیت اختیار کی اس کی تفصیلات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ پاکستان چونکہ امریکی مفادات پہ واچ ڈاگ کا کام کر رہا تھا اسی لیے 1971 کی پاک بھارت جنگ میں مغربی پاکستان کو اسی منصوبہ کے تحت محفوظ رکھا گیا تھا کیونکہ مقصد کا حصول ابھی دور تھا۔ اس لیے کابینہ مشن پلان میں تسلیم کیے جانے کے باوجود کہ دس سال تھا ہندوستان برطانوی ڈومینین کے طور پہ رہے گا پھر بھی یہ اعلان کر دیا گیا کہ جون 1948 تک برطانیہ اپنا تسلط اٹھا لے گا اور پھر اس مقررہ تاریخ سے بھی پہلے اگست 1947 کو ہی آزادی دے دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).