کورونا وائرس: انڈیا کووڈ 19 کی وبا پر قابو کیوں نہیں پا سکا؟


کورونا وائرس، انڈیا

انڈیا میں کورونا وائرس کی وبا کو نو مہینے ہونے کو ہیں۔ ملک میں پچاس لاکھ سے زیادہ تصدیق شدہ متاثرین ہیں جو کہ امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس وائرس سے اب تک ملک بھر 80 ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

ایک حکومتی سائنسدان نے مجھے بتایا کہ ملک میں یہ وبا ’سٹیپ لیڈر سپائرل‘ کی طرح بڑھ رہی ہے۔ صرف ایک ہی قدرے مثبت عنصر ہے کہ انڈیا میں اموات کی شرح جو کہ اس وقت 1.63 فیصد ہے دیگر زیادہ کیسز والے ممالک سے کم ہے۔

انڈیا میں تصدیق شدہ کیسز میں تیزی کی ایک وجہ ٹیسٹنگ میں اضافہ ہے مگر جس تیزی سے یہ وائرس پھیل رہا ہے اس سے اب ماہرین پریشان ہو رہے ہیں۔

پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کو پہلے دس لاکھ کیسز تک پہنچنے میں 170 دن لگے اور آخری دس لاکھ کیسز 11 دن میں سامنے آئے۔ یومیہ کیسز کی اوسط تعداد اپریل میں 62 تھی تو ستمبر میں یہ 87000 سے زیادہ ہو گئی۔

گذشتہ ہفتے میں انڈیا میں ہر روز 90000 سے زیادہ کیسز سامنے آئے اور 1000 اموات روزانہ ہوئیں۔ جن سات ریاستوں کو یہ وبا بدترین انداز میں متاثر کر رہی ہے وہاں انڈیا کی 48 فیصد آبادی رہتی ہے۔

بینر

آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

انڈیا: کورونا وائرس کے مریضوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد

کورونا نے انڈیا کے امیر ترین شہر میں کیسے تباہی مچائی؟


مگر جہاں انفیکشنز بڑھ رہے ہیں، انڈیا میں پھر بھی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، ریستوران، اور جم کھولے جا رہے ہیں کیونکہ کئی دہائیوں کی بدترین معاشی حالات سے نمٹنا ہے۔

دنیا کے سخت ترین لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو گھروں پر رہنا پڑا، کاروبار بند ہو گئے اور لاکھوں مزدوروں کی نوکریاں چلی گئیں۔ لاکھوں لوگوں کو شہروں سے پیدل اپنے آبائی علاقوں میں جانا پڑا۔

نومورا انڈیا بزنس ریزمپشن انڈیکس کا کہنا ہے کہ کیسز میں جاری اضافے کے باوجود معاشی سرگرمیوں کی بحالی کا مطلب ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن سے تھک گئے ہیں۔

انفیکشنز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے

انڈیا میں پانچ کروڑ افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں اور دس لاکھ ٹیسٹ روزانہ کیے جا رہے ہیں مگر پھر بھی ملک میں ٹیسٹنگ کی شرح دنیا میں کم ترین میں سے ایک ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں انفیکشنز کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ حکومت کے اپنے جائزے کے مطابق ملک بھر میں مئی کے آغاز میں 64 لاکھ کیسز ہونے چاہیے تھے جبکہ اس وقت تصدیق شدہ کیسز 52 ہزار تھے۔

کورونا وائرس، انڈیا

یونیورسٹی آف میشیگن کے بائیو سٹیٹسٹکس کی پروفیسر بھرامر مکھرجی کہتی ہیں کہ انڈیا میں اس وقت تقریباً 10 کروڑ افراد میں یہ وائرس ہونا چاہیے۔

’میرے خیال میں انڈیا ہرڈ ایمیونٹی(اجتماعی قوت مدافعت) کی جانب جا رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ لوگ احتیاطی تدابیر جیسے کہ ماسک پہننا یا سماجی دوری کا خیال رکھ رہے ہیں۔‘

ہرڈ ایمیونٹی تب حاصل ہوتی ہے جب اتنے لوگوں میں قوتِ مدافعت آ جائے کہ وائرس کا پھیلاؤ رک جائے۔

جب تک انفیکشنز بڑھ رہے ہیں معیشت کی مکمل بحالی میں تاخیر رہے گی اور ہسپتالوں پر دباؤ رہے گا۔

پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر سرناتھ ریڈی اسے پہلی لہر کے بجائے پہلا مدوجزر کہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’یہ لہریں اپنیے نقطہ آغاز کے ابتدائی مقامات سے باہر کو پھیل رہی ہیں، پھیلاؤ اور تیزی کی شرح مختلف ہے۔ یہ سب مل کر ایک انتہائی اونچا مدوجزر بناتے ہیں جس کے کم ہونے کا ابھی امکان کم ہے۔‘

کیسز ابھی بڑھ کیوں رہے ہیں؟

ڈاکٹر مکھرجی کہتے ہیں کہ لوگوں کے گھومنے پھرنے اور سماجی دوری یا ماسک پہننے کے رجحان میں کمی کی وجہ سے وائرس پھر بڑھنے لگے گا۔

راجستان میں جودھپور کے ایک ہسپتال کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کے بیمار مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک معروف ماہر برائے وبائی امراضِ ڈاکٹر جیکب جان نے ماضی میں کہا تھا کہ انڈیا میں وبا کا ایک طوفان آ رہا ہے۔

وہ اب کہتے ہیں ’ایک ایسے ملک میں جہاں صحت عامہ کا نظام کمزور ہے وہاں زیادہ تعداد میں کیسز کا سامنے آنا تو تھا ہی۔‘ مگر ان کے خیال میں غیر درست وقت پر لاک ڈاؤن بھی اس بڑی تعداد کے مریضوں کی وجہ بنی۔

زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ شہروں میں ایک جزوی اور بہتر انداز میں عائد کردہ لاک ڈاؤن شاید بہتر طریقہ ہوتا۔

کورونا وائرس، انڈیا

ورلڈ بینک کے سابق چیف اکانومسٹ کوشک باسو کہتے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن اس لیے ناکام ہوا کیونکہ اس نے وہی کیا جو لاک ڈاؤن کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں آمدورفت ہوئی کیونکہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وائرس پھیلا بھی اور انڈیا کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا۔

مگر ڈاکٹر ریڈی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے جانیں بھی بچی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بعد میں لاک ڈاؤن کے وقت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں مگر اس وقت اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں تھا جیسے کہ برطانیہ میں تنقید کی جا رہی ہے کہ اسے دیر سے لگایا گیا، اگر جلدی لگ جاتا تو جانیں بچ سکتی تھیں۔

ہر موت کسی پیارے کا چہرہ ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن جتنا بھی مؤثر یا غیر مؤثر تھا اس کی وجہ سے انڈیا کو وقت ملا کہ وہ علاج اور نگرانی کے قوانین پر کام کر کے انھیں لاگو کر سکیں جو کہ مارچ میں موجود نہیں تھے۔

اب جب موسمِ سرما آ رہا ہے تو ملک میں کووڈ کے 15 ہزار چھوٹے بڑے ہسپتال ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ خصوصی بیڈ متعین کیے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ماسک، وینٹیلیٹر اور حفاظتی لباس کی کمی نہیں ہے تاہم آکسیجن کی رسد میں کمی گذشتہ ہفتوں میں سامنے آئی ہے۔

ڈاکٹر مکھرجی کہتے ہیں کہ صحت کے نظام کو بہتر کرنے اور کووڈ کے سینٹر بنانے سے ہمیں اموات کی شرح کم کرنے میں مدد ملی۔

مگر اس وبا نے انڈیا کے پہلے سے کمزور عوامی صحت کے نظام پر بہت زیادہ دباؤ ڈال دیا ہے۔

ڈاکٹر مکھرجی کا ماننا ہے کہ ابھی انڈیا میں معاملات اور بگڑیں گے جب تک تمام ریاستیں اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔

اس وقت انھیں ایک ہی امید ہے کہ انڈیا میں اس وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کم رہے چاہے کیسز بڑھتے بھی رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp