سوک سینس پارٹ ون Civic Sense


غربت اور احساس محرومیت کی وجہ سے Frustration پیدا ہوتی ہے اور ایک مخصوص حد کے بعد انسان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو اسے دور کرنے کے لئے نشے کا سہارا لیتا ہے یا جرائم کی جانب راغب ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرے اور انصاف میسر نہ ہو وہاں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ بد قسمتی سے مملکت خداداد پاکستان میں عوام کو سہولیات فراہم کرنا حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے اور عدالتوں کے پاس کیسز کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر غریب انصاف کے انتظار میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

یہ سب کچھ تو ہم کئی دہائیوں سے سن رہے ہیں مگر کیا عوام نے کبھی اپنی ذمہ داریوں پر غور کیا ہے۔ مانا کہ حکمرانوں کی ترجیحات فرق ہوتی ہیں مگر کیا ہم نے کبھی اپنے رویوں پر غور کیا ہے کہ عوام کتنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ گھر سے نکل کر مارکیٹ یا کام کرنے والے مقام تک پہنچتے ہوئے ایک حساس آدمی کتنی اذیت سے گزرتا ہے، ہماری غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کتنے لوگوں کو نہ صرف پریشان کرتی ہے بلکہ خوفناک حادثات کی وجہ سے کتنے لوگوں کی زندگیاں برباد ہوچکی ہیں۔

اسلام آباد اس لحاظ سے بہتر سمجھا جاتا ہے مگر چند روز قبل ٹریفک پولیس کے پبلک ریلیشن افسر ( پی آر او) شمس گل صاحب کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے اعداد و شمار چونکا دینے والے تھے۔ اس کے مطابق رواں سال اسلام آباد میں 88,467 ڈرائیورز کے خلاف لاپروائی سے ڈرائیونگ کرنے پر کارروائی کی گئی۔ یہ کالم لکھنے تک یہ تعداد یقیناً زیادہ ہوچکی ہوگی۔ رپورٹ میں ایس ایس پی ٹریفک پولیس فرخ رشید صاحب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وفاقی دارالحکومت کو حادثات سے پاک کرنا، ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔

اس سلسلے میں خصوصی ٹریفک ایجوکیشن اینڈ انفورسمنٹ مہم کے ذریعے شہریوں کو روڈ سیفٹی کے متعلق ہر ممکن آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ شمس گل صاحب بذات خود نفیس، محنتی اور خوش اخلاق آدمی ہیں۔ محنتی لوگ ویسے ہی عزت کے قابل ہوتے ہیں اور شمس گل نے یہ مقام اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ آئی جی پولیس کے ساتھ بھی بطور پی آر او کے طور کام کرنے کے علاوہ مختلف تھانوں میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ محدود وسائل میں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔

مڈل کلاس طبقے میں بچے پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں تو بندہ سمجھتا ہے میری محنت رنگ لائی ہے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کا تعلق ویسے ہی گہرا ہے، تعلق رکھنا اور نبھانا جانتے ہیں۔ گل صاحب کا ذکر آیا تو یہ لکھنا واجب تھا۔ خیر میں بات کر رہا تھا کہ ہمارے ہاں عام لوگوں میں سوک سینس کی شدید کمی ہے۔ ٹریفک قوانین عوام کے تحفظ اور سڑک کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔ سپیڈ کی حد رفتار مقرر کرنے کا مقصد ہے کہ سڑک کی ساخت اسی سپیڈ کی متحمل ہے اور پھر اس رفتار پر چلتے ہوئے گاڑی یا موٹر سائیکل کو کنٹرول کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔

اسی طرح سے بھاری گاڑیوں اور موٹرسائیکل کے لیے علیحدہ لائنز مقرر کی گئی ہیں۔ پیدل چلنے والوں کے لیے اسلام آباد ایکسپریس وے پر پل تعمیر کیے گئے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے سواریوں کو اتارنے اور بٹھانے کے لئے جگہیں مخصوص کی گئی ہیں۔ تاکہ باقی ٹریفک ترتیب سے جاری رہے۔ چونکہ پیک آورز میں تمام اطراف رش ہوتا ہے لہذا احتیاطی پیغامات جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن من چلے ڈرائیورز نے خود تو مرنا ہوتا ہے ساتھ دوسروں کا نقصان بھی کرتے ہیں۔

پھر ہر ایک جلدی میں ہے جیسے کہیں آگ بجھانے جا رہا ہو۔ سڑک پر گاڑی دوڑاتے ہوئے سب سے آگے نکلنے کے چکر میں دوسروں کو مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل والوں نے تو ٹھان رکھی ہے کہ وہ تمام روڈ کے مالک ہیں اور آخری لائن میں موٹر سائیکل دوڑانے میں جانے کیا مزا ہے۔ شمس گل صاحب نے بتایا کہ یہ تعداد صرف لاپروائی سے ڈرائیونگ کرنے والوں کی ہے، اس کے علاوہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں کی کل تعداد 4,76,189 ہے۔

جن میں ایک لاکھ زائد موٹر سائیکل والے شامل ہیں۔ اور تو اور 68 پارلیمنٹرین، 184 سرکاری اعلیٰ افسران، 107 آرمی کے افسران، 54 میڈیا سے منسلک افراد، 47 عدالتی ملازمین اور 84 غیر ملکی یا ڈپلومیٹس کو بھی ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانے کیے گئے۔ غلط پارکنگ کرنا اور چلتی گاڑی سے گند سڑک پر پھینکنا تو ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ اشارہ لگانے اور آگے پیچھے دیکھے بغیر مڑ جانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ پیدل چلنے والے مخصوص مقامات پر پل سے سڑک کراس کرنے کی بجائے بچوں سمیت عام شاہراہ سے سڑک عبور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جن کا چالان تو نہیں ہو سکتا۔ یہاں اس نقصان کی ریاست تو ذمہ دار نہیں۔ ذرا سوچیں رواں سال میں کچھ عرصہ تو لاک ڈاؤن میں گزرا اور پھر ابھی تک تعلیمی ادارے باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوئے پھر بھی روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں ڈرائیورز کو لاپروائی برتنے پر ٹوکن ملا۔ اور پھر یہ وہ لوگ ہیں جو ہتھے چڑھ گئے ورنہ ہزاروں ایسے ہوں گے جو قابو نہیں آئے۔ یہ صرف دارالحکومت کی کہانی ہے جہاں دیگر شہروں سے آنے والے ڈرائیورز اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوتے وقت سیٹ بیلٹ لگا لیتے ہیں یا موٹرسائیکل والے ہیلمٹ پہن لیتے ہیں۔ باقی حالات کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ خدارا اپنا اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).