تربت سے لاھور موٹروے تک


ایک نہ تھمنے والی چیخ ہے، ایک لامتناہی ماتم ہے، ایک المیہ کی مذمت میں زہر افشانی ہے۔ اخبارات میں خبروں میں لہو کی بو ہے، کالموں سے عورت پہ ہونے والے تمام ظلم و عدو کی ایک بار پھر نقشہ گیری جاری ہے۔ ٹی وی کی سرخیاں خوں چکاں ہیں۔ ماہرین، اداکار، تجزیہ نگار اپنی اپنی تجزیات کی روشنی میں معاشرے کی پیوند کاری میں مصروف ہیں۔ قانون دان قانون میں موجود سقم پہ نوحہ خواں ہے۔ آئین کے وہ چور دروازوں کو کوسا جا رہا ہے جس میں سے مجرم، باعزت بریت کا سند پاتے ہیں۔

یہ تمام نوحہ خوانی لاہور میں موٹروے پر حوا کی ایک بیٹی کی اس کے بچوں کے سامنے عزت تار تار کرنے اور جواہرات لوٹنے کے بعد کی جارہی ہے۔ وزیراعلٰی سے لے کر وزیراعظم تک ہر کوئی اپنے گہرے صدمے کا اظہار کر رہا ہے۔ جو یقیناً ان کو کرنا چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاکہ کل کو پھر سے حوا کی ایک اور بیٹی کی عزت تار تار نہ ہو۔ لیکن؟

یہ شور و غوغاں کئی سوالات جنم دیتا ہے۔

پہلا سوال کہ کہاں تھا یہ شورو غوغاں جب ملکناز کو اس کی بیٹی، پھول جیسی برمش کے سامنے گولیوں سے بون دیا گیا؟ کہاں تھے یہ اخبارات، یہ رسائل یہ ٹی وی پہ چیخ چیخ کر ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والے، کہاں تھا وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی۔ آخر ملکناز عورت نہیں تھی، کیا ملکناز اسی وطن کی باسی نہیں تھی؟ شور اٹھا تو یہی تک اور یہی دب گیا۔

سوال ہے کہ کلثوم کا جب گلا کاٹا گیا تو کہاں تھا یہ نام نہاد میڈیا، کہ چار بیٹیوں کے سامنے ایک ماں کا گلا کاٹا گیا؟ نہ کوئی سیاسی بیان آیا نہ ٹیوٹر والوں کی طرف سے کوئی ٹیوٹر پیغام۔

حالانکہ یہ بھی اما حوا کی بیٹیاں تھیں، ان کو بھی ڈاکوؤں نے بے رحمی سے قتل کیا۔ مگر شاید صحافت و حکومت کے روایت و معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔

لیکن، المیہ یہ ہے کے لاہور موٹروے واقعہ سے محض چند دن پہلے، تربت میں ایک، مصور، ایک شاعرہ اور ایک صحافی بی بی شاہینہ شاہین کی ابھرتی آواز کو گولیوں سے خاموش کر دیا گیا۔ لیکن یہ خبر فقط کچھ نیوز چینل کی بیس سیکنڈ کی ہیڈلائنز تک محدود رہی، چند نے تو اسے فقط اسٹیکر تک ہی محدود کر دیا۔ حکومت وقت نے تو اپنی انگلیوں پر ایک ٹویٹ تک کی بھی زحمت نہیں کی۔

تو آخر سوال اٹھتا ہے کہ میڈیا کی طرف سے یہ دوغلا پن کیوں کیا جاتا۔ کیوں بلوچستان کی بیٹیوں کو حوا کی بیٹیاں تسلیم نہیں کیا جاتا؟ کیوں لاہور موٹروے کا واقعہ تمام ملک کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، اور چوبیسیوں گھنٹوں تک میڈیا کی زبان پہ ہوتا ہے لیکن شاہینہ شاہین ایک اسٹیکر تک محدود۔

کیا بلوچستان ہمارے میڈیا کے لئے کولمبس کا ہندوستان ہے جو اسے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا؟
سوال اٹھتا ہے۔

اگر صورت حال یہی رہا تو بلوچستان میں محرومیت کی صدائیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ میڈیا کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان میں عورتوں کے ہر قتل اور اس پر ہونے مظاہرہ کو اپنے اسکرین پر جگہ دیتا۔ کیونکہ بلوچ عورت کا خون بھی اسی طرح سرخ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).