کیا امریکی قیادت میں ایشیائی ممالک کا اتحاد انڈو پیسیفک خطے میں چین کے اثر کا مقابلہ کر سکتا ہے؟


امریکہ، انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان آپس میں فوجی اور تجارتی تعاون کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

اس مقصد کے لیے ان ممالک پر مشتمل ایک غیر رسمی پلیٹ فارم کواڈریلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ یا کواڈ قائم کیا گیا ہے۔

تائم اس شراکت داری کے مستقبل کو جاپان اور امریکہ میں ممکنہ اندرونی سیاسی تبدیلیوں کے باعث مستقبل میں خطرات لاحق ہیں۔

چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازع پر مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت بھی یہ طے کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی کہ چار ممالک کا یہ اتحاد کتنا موثر ہو گا۔

ستمبر کے آغاز میں امریکہ کے ڈپٹی وزیرِ خارجہ اسٹیفن بِیگن نے کہا تھا کہ اتحاد میں شامل ممالک کی کوشش ہے کہ اکتوبر کے آخر تک نئی دہلی میں اجلاس منعقد کیا جائے تا کہ ‘مشترکہ مفادات’ کی بنیادوں پر اس اتحاد کو ایک رسمی شکل دی جا سکے۔

امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ کے اس بیان سے قبل اس سال کے آغاز میں آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان کے نمائندے ایک ایسے اتحاد کو قائم کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں جس کے ذریعے انڈو پیسیفک خطے میں تجارتی روابط کو مضبوط کر کے اس خطے میں چینی غلبے کا مقابلہ کیا جا سکے۔

چین کے ساتھ حالیہ تنازعوں نے مشترکہ مفادات کو اجاگر کیا

انڈیا اور چین اس سال جون سے ایک سرحدی تنازع میں الجھے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کے وزرا اور فوجی اہلکاروں کے درمیان مذاکرات کے باوجود ابھی تک فوجوں کو پیچھے ہٹانے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

اس چار فریقی اتحاد کو سنہ 2007 میں اس وقت کے جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ایبے کی کوششوں سے غیر رسمی طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اسی سال چاروں ممالک نے بحیرۂ ہند میں مشترکہ بحری مشقیں بھی کی تھیں۔ تاہم یہ اتحاد اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ سنہ 2008 میں آسٹریلیا ان مشقوں سے نکل گیا اور انڈیا نے اسے دوبارہ شرکت کی دعوت نہیں دی۔

انڈین میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق اگلے برس کے آغاز میں یہ بحری مشقیں متوقع ہیں اور اب انڈیا ان میں آسٹریلیا کو شرکت کی دعوت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس اتحاد میں انڈیا کی دوبارہ دلچسپی کا مقصد اپنی سرحدی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کرنا اور چین کے خلاف ایک مضبوط فورس تیار کرنا ہے۔

لیکن صورتحال اس الحاظ سے غیر یقینی ہے کہ کیا انڈیا چین کے خلاف اپنے اقدامات کو اس حد تک آگے لے جائے گا کہ اس کے چین کے ساتھ جاری مذاکرت پر خراب اثر پڑے؟

انڈیا کا اخبار ‘دا پرنٹ’ چھ ستمبر کو لکھتا ہے ‘اس موقع پر آسٹریلیا کو مشترکہ بحری مشقوں میں شرکت کی دعوت دینے کا مطلب ہے چین کو یہ پیغام دینا کہ مجموعی طور پر انڈو پیسیفک خطے کے تناظر میں یہ ممالک چین کے خلاف جمع ہو رہے ہیں۔ لیکن ذرائع کے مطابق ایسی کوئی کوشش چین کو ناراض کر سکتی ہے اور وہ اس وقت جاری مذاکرات کو ختم کر سکتا ہے۔’

تجارت، سکیورٹی اور مبینہ جاسوسی جیسے معاملات پر آسٹریلیا اور چین کے اختلافات نے آسٹریلیا کو امرکہ اور اس کے اتحادیوں کے قریب کر دیا ہے۔

آسٹریلیا کے ٹی وی چینل اے بی سی پر نشر ہونے والی کچھ مبصرین کی رائے کے مطابق ‘چین کو یہ امید نہیں تھی کہ ایسا کوئی اتحاد وجود میں آ سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہی بات انھیں پریشان کر رہی ہے۔’

ایشیا میں نیٹو کی طرز کا اتحاد قائم کرنے کی امریکی کوشش

انڈو پیسیفک خطے میں امریکی قیادت میں ایک فوجی اتحاد چین کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس خطے میں چین اپنے بڑے اہداف والے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ اور بحیرۂ جنوبی چین میں فوجی موجودگی پر عمل پیرا ہے۔

مبصرین کے خیال میں اگر یہ اتحاد ایک رسمی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی بڑی کامیابی تصور کی جائے گی جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے امریکہ عالمی قیادت کے لحاظ سے کمزور ہوا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات میں اگر امریکہ میں قیادت کی تبدیلی ہو بھی جائے تو چین کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ویب میگزین ‘دی ڈپلومیٹ’ میں چار ستمبر کے ایڈیٹوریئل میں کہا گیا ہے ‘چین سے متعلق بائیڈن انتظامیہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کسی پالیسی میں تبدیلی کے بجائے لب و لہجہ، انداز اور الفاظ کا فرق ہو گا۔’

دریں اثنا چینی میڈیا اس اتحاد کے موثر ہونے کے امکان کو رد کر رہا ہے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق ‘چین کے انڈیا اور جاپان کے ساتھ تعلقات اتنی تیزی سے خراب نہیں ہوئے ہیں جس تیزی سے چین کے امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ چین کے انڈیا کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جبکہ جاپان کو کورونا وائرس کی وبا کے بعد کے دنوں میں معاشی ترقی کے لیے چین کی ضرورت ہے۔’

شنزو ایبے کے بعد جاپان کا کردار

نریندر مودی، شنزو ایبے اور ڈونلڈ ٹرمپ

شنزو ایبے کی جاپان کے وزیرِ اعظم کے عہدے سے معزولی کے بعد اس اتحاد کے ساتھ ملک کے تعلق اور چین کے بارے میں مجموعی حکمتِ عملی پر سوال کیے جا رہے ہیں۔

اب سب کی نظریں نئے وزیراعظم یوشی ہیدے سوگا پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کی قیادت میں اس بات کا امکان کم ہے کہ جاپان چار ممالک کے اس اتحاد سے اپنے تعلقات کم کرے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یوشی ہیدے سوگا بھی اپنے پیش رو شنزو ایبے کی طرح اس اتحاد میں ایک متحرک کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں۔

چار ملکی اتحاد کیا چین کا مقابلہ کر سکتا ہے؟

چین کی جانب سے حالیہ دباؤ نے آسٹریلیا اور انڈیا جیسے ممالک کو ایک ایسا کثیر الجہتی پلیٹ فارم بنانے پر مجبور کر دیا ہے جو چین کا مقابلہ کر سکے۔ تاہم اس اتحاد میں چین کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے اس کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ رکن ممالک اپنے اہداف پر کتنے واضح طریقے سے اتفاق کرتے ہیں۔

سنہ 2008 کی صورتحال سے بچنے کے لیے اس اتحاد کو آپس کے تعاون کا دائرہ کار طے کرنا ہو گا، حالانکہ حالیہ برسوں میں آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان دفاع اور تجارت کے شعبوں میں دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔

انڈین اخبار دی ٹائمز آف انڈیا نے 14 ستمبر کو اپنے ایڈیٹوریئل میں لکھا ‘کیا یہ چین کے خلاف فوجی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب آنا ہے یا تجارت جیسے شراکت داری کے دوسرے عناصر بھی اس کا حصہ ہوں گے۔’

اس بات کی بھی کوشش ہو رہی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کی تنظیم آسیان کے کچھ رکن ممالک کو بھی اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کا اصل امتحان یہ ہو گا کہ چین کے ساتھ دوطرفہ تنازعات میں رکن ممالک کس حد تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس اتحاد کو زیادہ مضبوط اور گہرا بنانے کے لیے رکن ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ دو طرفہ معاہدوں کی ضرورت ہے۔

اخبار آسیان پوسٹ نے اپنے ایک اداریے میں لکھا ‘مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان کے سکیورٹی مفادات میں پوری طرح سے یکسو نہیں ہیں۔ اتحاد کے باقی ممالک کے مقابلے میں انڈیا اور جاپان کو چین کی جانب سے زیادہ ‘شدید اور فوری’ خطرہ ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp