کدھر چلیں؟


اتوار کا دن بڑی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔ شروع دن سے جب میں نے ہوش سنبھالی، اتوار کے دن والد صاحب گھر پر ہوتے تھے تو یہ دن خاص لگتا تھا۔ جب اسکول جانے لگے پورا ہفتہ انتظار ہوتا تھا کہ اتوار کب آئے گا؛ کیونکہ اس ایک دن کی آزادی کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ کچھ یار لوگ اب کہتے ہیں کہ زمانہ طفل میں اسکول کا زمانہ بڑا مزیدار لگتا تھا۔ جبکہ میرا ماننا ہے کہ وہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں ؛ بھلا ایک انسان اسکول کو کیسے پسندیدہ کہہ سکتا ہے!

اتوار کے دن ہی دوستوں کے سب پلانز بنتے ہیں کہ ہم کس جگہ چلیں؟ موجودہ افرتفری کے دور میں سب سے مشکل کام پلان بنانا اور پھر اس پر عمل کرنا ہے۔ سب مجھ پر یہ ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔ پھر گاہے بگاہے میرے بنائے ہر پلان پر ”نہیں“ ، ”نہیں“ اور ”نہیں“ کی مہر لگا دیتے ہیں۔ میں احتجاج کرتا ہوں کہ یار آپ سب اگر انکار کرنا ہوتا ہے تو مجھ پر کیوں ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر پیچھلے اتوار پروگرام بنا کہ سب دوست کھانے پینے کے ایک پوائنٹ پر اکٹھے ہوں گے اور پھر گھومنے بھی چلیں گے۔ حسب دستور پلان بنانے کا عہدہ مجھے سونپا گیا۔ کہیں بھی چلنے کو وقت طے کرنا سب سے پہلا عمل ہوتا ہے۔ سو میں نے وقت طے کیا صبح دس بجے کا۔

پہلا دوست: یار! تب تو میں سو رہا ہوتا ہوں۔
میں : جب پتا ہو کہ کہیں جانا ہے، پروگرام کا دن ہے تو بندہ جلد اٹھ جاتا ہے۔
دوسر دوست: عبداللہ مگر دس بجے تو ریستوراں اور کیفے ٹھیک سے کھلے بھی نہیں ہوتے!

تیسرا دوست: (سوچتے ہوئے ) دس بجے ٹھیک نہیں رہے گا کیونکہ تب مجھے چھوٹے بھائی کو اکیڈمی ڈراپ کرنا ہوتا ہے۔

میں : اتوار والے دن کون سی اکیڈمی ہوتی ہے یار!
وہی دوست: اہو! ہاں سچی اتوار کو نہیں ہوتی بالکل۔ ۔ ۔

چوتھا دوست: بھائی لوگ! دس بجے نہیں کرتے، ساڑھے گیارہ کر لیتے ہیں تا کہ سب ٹھیک سے تیار ہو کر آرام سے آ سکیں۔ ۔ ۔ کیا بولتے ہو؟

سب کی ہاں! ہاں! یہ ٹھیک رہے گا کہ ساتھ یہ وقت طے ہو جاتا ہے۔
اب کیفے یا ریستوراں کو طے کرنے کو بھی سب میری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ جس جس کا نام میں لیا
وہ ”میرے سے کچھ زیادہ دور ہوتا ہے“
”ایک بار گیا تھا، مرچ بہت ڈال رکھی تھی جب کہ میں کہا بھی نہیں تھا“
”وہ کیفے تو نیا نیا بنا ہے نا! مزیدار اتنا نہیں ہو گا“

کہہ کر ریجیکٹ کر دیا۔ بالآخر جو کیفے سب کی رضامندی سے طے ہوا؛ وہ وہی کیفے تھا جہاں ہم سب بار بار جاتے رہے ہیں!

خیر۔ ۔ ۔ ہفتہ کا دن گزرا اور اتوار کے دن ہم خوب انجوائے کیا۔ عین خلاف پلانگز، پیچھلے پہر چار بجے سب قریبی چائے کے کھوکھے پر اکٹھا ہوئے۔ چائے بسکٹ اور اگلے اتوار کی پلانگز کے دوران اذان مغرب ہو گئی۔ مغرب کی نماز ”آئندہ لازمی پڑھیں گے“ کا سب ارادہ کیا اور قریبی گراؤنڈ ”فلڈ لائٹ“ میچ دیکھنے بیٹھ گئے۔ جب کہ یہ قصہ لکھ رہا ہوں، کل اتوار کا دن آ رہا ہے!

عبداللہ محمود
Latest posts by عبداللہ محمود (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).