کرونا، سماجی فاصلے اور سکول


کرونا چائنہ میں پیدائش کے بعد پوری آب و تاب کے ساتھ تمام دنیا پہ چھایا تو کوئی بھی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کے یہ پوری دنیا کو مفلوج کر سکتا تھا۔ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہا تھا کے چائنہ میں سچ مچ کوئی بیماری آئی ہے۔ پھر جب اس نے زور پکڑا تو سب حیرانی کے ساتھ خوف میں مبتلا ہو گئے اور پھر جو ملک اس کے راستے میں آیا اسے یہ اپنے جوہر دکھاتا گیا۔ طاقتور اور مضبوط معیشت کی حامل قومیں جو یہ دعوی کرتی تھیں ہمیں کوئی خوفزدہ نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو گیں۔

یہ چلا تو پاکستان کے ہمسایہ ملک سے تھا لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ وہاں سے نہ آ سکا کیونکہ چائنہ سے پاکستان میں داخل ہونے والے اکیس کے اکیس راستے بند کیے جا چکے تھے۔ پھر اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ یہ یہاں ایران اور یورپ سے ہوتا پہنچا۔ اور لوگوں کے روزگار اور ملکی تجارت پہ حملہ آور ہوا۔ اس کے آتے جو خوف پاکستانی عوام میں پیدا ہو رہا تھا۔ وہ ابتدائی لاک ڈاؤن کی صورت میں ظاہر ہو گیا۔ اس نے ہر طرح کے قانونی، غیر قانونی کاروبار اور ہر طرح کی پبلک پلیسز بند کرا دیں۔

پوری دنیا کی طرح پاکستانی لوگ بھی دو حصوں میں بٹ چکے تھے۔ زیادہ لوگ وہ تھے جو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ یہ بس چند دن کا کھیل تماشا ہے اور انسان ایک دن اس مشکل کا حل نکال لے گا اور زندگی واپس لوٹ آئے گی۔ لیکن ایسا بھی نہ ہوا اور یہ رک گیا اور اس کا قیام لمبا ہونے لگا۔ لوگ اس پہ بات کرنے لگے سرچنگ کرنے لگے اور اس کو تسلیم کر لیا اور بس تھک گئے۔ اسے یہ نہیں پتا تھا وہ ایک جنونی قوم تک پہنچ چکا ہے جو زیادہ دیر panic نہیں کرتی اور ہوا بھی ایسے ہی۔

ایک مہینے میں ہی اس قوم کا صفائی اور کوارنٹائن رہنے کا جنوں ختم ہو گیا۔ پاکستانی عوام تنگ ہو گئی، سب سے پہلے انہوں نے اپنے خوف سے خود ہی چھٹکارا حاصل کیا اور رمضان میں عوام کا سمندر سڑکوں پہ امڈ آیا۔ پھر لوگوں نے سارے sop ’s ہوا میں اچھال دیے اور کرونا کے خوف و ہیبت سے آزاد ہو گئے۔ لوگ اس وبا سے خود کو محفوظ سمجھنے لگے۔ اور گورنمنٹ بھی تھوڑی ریلیکس ہو گئی کیونکہ لاک ڈاؤن کے سنگین نتائج سے ڈرتی تھی۔

بہت سی جگہیں کھلتی چلی گیں اور لوگوں کہ ڈر ختم ہوتا گیا۔ لیکن اسکول بدستور بند رہے اور مسلسل چھ ماہ بند رہے کیونکہ حکومت طلبہ کے معاملے میں رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔ حکومت وقت کے مطابق یہ سب سے احسن قدم تھا، ان کے مطابق جو بچے گھر میں ہیں وہ سارا دن گلیوں میں نہیں گھومتے، نہ وہ اکٹھے ہوتے ہیں، وہ دوستوں سے تو بالکل بھی نہیں ملتے نہ پھیری والے سے کچھ لے کر کھاتے ہیں، وہ محفوظ ہیں۔

مسلسل اسکول بند رہنے کی وجہ سے پرائیویٹ اسکول مالکان عدم تحفظ کہ شکار ہو گئے کیونکہ انھیں اپنی انرولمنٹ کم ہونے کا خطرہ لا حق ہو چکا تھا۔ وہ اپنے اساتذہ کو تنخواہ نہیں دے رہے تھے اور آخر کار والدین نے بھی فیسز دینا بند کر دیں۔ اس ساری صورت حال کے دوران پرائیویٹ اسکول مالکان کے مطالبات بھی کافی آئے اور بے سود رہے لیکن گورنمنٹ نے جب اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تھا اسی پہ عمل پیرا ہو کر اسکول کھولنے کہ اعلان کر دیا۔

اب ڈینگی جیسی بیماری سے لڑنے والی مخلوق کرونا جیسے وبائی مرض سے لڑنے کے لئے میدان میں اتری اور مکمل طور پہ نئی سنگین صورت حال میں داخل ہو گئی۔ سب سے پہلا مرحلہ جو تھا وہ صفائی طے پایا۔ اب وہ پرائمری اسکول ہو یا سیکنڈری، ہائی ہو یا ہائر سیکنڈری سب میں صفائی پہ زور ہوا۔ جہاں چھ ماہ سے استاد کے علاوہ کوئی مخلوق داخل نہیں ہوئی اس جگہ کو کرونا فری عزم لئے صاف کیا جانے لگا کہ یہاں سے آج بھی طلبہ کو خطرہ ہے۔

sop ’s کی ا ایک لمبی فہرست جاری کی گئی اور اساتذہ کے حوالے کر دی گئی۔ اب اسکول انتظامیہ اور اساتذہ اس لسٹ کو لئے سکول آ کر بیٹھے ہیں اور سوچ میں مبتلا ہیں کے چھوٹے بچے اس پہ کیسے عمل کر پائیں گے۔ وہ بچے جن کو یہ نہیں پتا کے صفائی رکھی کیسے جاتی ہے۔ اتنے سخت اقدامات کرنے کے لئے ذہنی طور پہ اساتذہ تیار نہیں تو بچے کیسے کر پائیں گے۔ اتنی سنگین صورت حال لگتی نہیں تھی، جتنی نظر آ رہی ہے۔ آج جب اسکول میں sop‘ s پہ عمل کرتے طلبہ و طالبات اسکول سے تھوڑے فاصلے پہ ملے تو sop ’s کا جنازہ نکالتے ملے۔

اسکول میں سارا دن ماسک پہن کے رکھنے سے ان کو آکسیجن کی جو کمی ہوئی تھی وہ اسکول سے دور ہوتے ہی اکٹھے کندھا سے کندھا ملا کر چلنے سے پوری ہوئی۔ بچوں کو جو لیکچر کرونا کے نام سے دیا گیا تھا اس کا اطلاق صرف اسکولز میں ہوا، گھروں میں اس کی ضرورت پیش نہ آئی۔ مختلف اسکولوں کے مختلف گروپس میں آنے والے بچے گلیوں محلوں میں ایک ہی گروپ میں کھیلتے کرونا سے بچے رہے۔

میں نے جب بچوں سے چھ ماہ کی چھٹیوں میں ہونے والے ان کے تجربات کے بارے میں پوچھا تو مختلف جوابات آئے۔

ایک بچہ جو کے ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا کہنے لگا ”ٹیچر میں تو تین مہینے سے باجی کے گھر ہوتا ہوں۔ باجی کا بیٹا ہوا ہے وہ کام نہیں کر سکتیں۔ میں ان کی صفائی برتن اور باہر کے سارے کام کرتا ہوں۔ جمعہ کے دن یہاں آیا تو آپ سے ملنے چلا آیا۔“

پوچھنے پہ کہنے لگا مس جی ابو کہتے ہیں اسکول جا کر کیا کرنا ہے۔ اسکول تو ویسے بھی بند ہیں تمہیں کام سکھانا ہے۔ اگر کسی وجہ سے مجھے کام نہ ملا تو تم تو کچھ سیکھ جاؤ۔ ”

ایک دوسرا بچہ کہنے لگا ٹیچر جی میں ابو کے ساتھ جاتا ہوں اور ہم دن کے 5000 پیالے لگاتے ہیں۔
”پوچھنے پہ کہنے لگا ٹیچر جی پڑھنے کو پہلے بھی دل نہیں کرتا تھا۔ اب بہت خوش ہوں۔“

ایک بہت لائق اور پڑھنے والا بچہ کہنے لگا ٹیچر جی اسکول لگنے کی ذرا خوشی نہیں ہو رہی۔ میں پوچھا کیوں تو کہنے لگا اب لگتا ہی نہیں کہ ہم یہاں پڑھتے تھے۔ بہت عجیب لگ رہا ہے۔ ”

میں نے کہا اسکول لگ گئے ہیں دل بھی لگ جائے گا۔ تو ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی میں یقین نہیں تھا۔
ایک بچی کہنے لگی۔ ”ٹیچر جی سچ میں اسکول لگ رہے ہیں۔

بے یقینی کی جو لہر سکولز کے حوالے سے اٹھی تھی وہ ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ اسے جلد سے جلد توڑنا پڑے گا۔ اور ہمیں حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے ان پہ عمل پیرا بھی کروانا ہے۔ اور بچوں کو تعلیم کی دوبارہ سے لگن لگانی ہے۔ جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ لیکن میری دعا ہے کے جیسا تمام پبلک پلیسز اس خطرے سے محفوظ ہیں یہ اسکولز میں بھی داخل ہونے کی کوشش نہیں کرے گا ورنہ بچوں کا مستقبل کسی ورکشاپ میں یا کارخانے میں جا کر سو جائے گا۔ اسکول سے باہر بچے جیسے بھی ہوں ہمیں بچوں کو پیار اور محبت سے اس طرف مائل کرنا ہے۔ کیونکہ اس وقت سختی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).