ایف اے ٹی ایف: حکومت کا قانون سازی کا دفاع، اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کل ہو گی


پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق بلز کی پارلیمنٹ کی جانب سے حال ہی میں دی گئی متفقہ منظوری ملک کو ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے بے حد اہم ہے تاہم حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں الجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد میں حزب مخالف کی آل پارٹیز کانفرنس کل منعقد ہو گی جس میں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔

پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی قانون سازی کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ یہ قانون سازی صرف ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ حکومت مخالف لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایف اے ٹی ایف: پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کیا کر رہا ہے؟

ایف اے ٹی ایف: وہ شعبے جن میں بہتری کی ضرورت ہے

ایف اے ٹی ایف: امریکہ پاکستان کی کیا مدد کر سکتا ہے؟

سنیچر کو وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کہ ہمراہ مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس سے خطاب میں بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق بلز کی پارلیمنٹ کی جانب سے حال ہی میں دی گئی متفقہ منظوری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مالی امور کے اندر ایسی شقوں کی ضرورت تھی کہ جس کے ذریعے مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کو روکا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ تھا اور ہمارے پاس دو راستے تھیں کہ ’اس سے نکل جائیں یا بلیک لسٹ میں چلے جائیں اور ہمیں یہ دیکھنا تھا کہ ان میں سے کیا بہتر ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کی یہ کوشش تھی کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے لیڈرز کے لیے کیا اہم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ سینیٹ میں ہماری اکثریت نہیں ہے اور حکومت نے کوشش کی کہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس سال کے دوران گذشتہ مہینوں میں تیزی آئی اور اپوزیشن نے اس میں 34 ترامیم تجویز کیں۔ لیکن عوامی دباؤ کی وجہ سے ان کا یہ مطالبہ ختم ہو گیا۔‘

شہزاد اکبر نے بتایا کہ مذاکرات میں اپوزیشن کی سوئی اینٹی منی لانڈرنگ بل پر آ کر اٹک گئی۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن رہنما اپنے کیسز بند کروانا چاہتے تھے۔ ’حکومت نے ایک ڈرافٹ تیار کیا، اسے مذاکرات کے لیے اپوزیشن سے شیئر کیا گیا اور ان تمام مذاکرات کے دوران ان کی نیت واضح ہو گئی۔‘

اے پی سی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ اس میں اپوزیشن مطالبہ کرے گی کہ ملک میں احتساب کا عمل روک دیا جائے، 19 ویں ترمیم میں تبدیلی کی جائے۔

حکمراں جماعت تحریک انصاف کے وزرا اور وزیراعظم کے مشیروں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ اے پی سی کے ذریعے اپوزیشن جماعتیں عوام کو کنفیوژن میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں۔

اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ شاید پاکستانی میڈیا پر نواز شریف کا خطاب نشر نہ ہونے دیا جائے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور شہباز گِل نے عدالتی فیصلے اور قانونی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ’نواز شریف جیسے مجرم آزاد شہری جیسا حق نہیں رکھتے۔‘

اپوزیشن جماعتوں کی جانب یہ کانفرنس اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس میں کل گیارہ سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں جس کی میزبانی پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔

پی پی پی کے رہنما قمر الزمان کائرہ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرس کی اور کہا کہ مشترکہ حکمت عملی کے تحت ساری جماعتیں اکھٹی ہو کر اس حکومت سے نجات کا راستہ تلاش کریں گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف اس کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے کانفرنس کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات اور دیگر اہم جماعتوں کے ارکین سے ٹیلی فون پر رابطے کیے۔

https://twitter.com/NawazSharifMNS/status/1307332935050301441?s=20

بلاول بھٹو زردای نے ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ آصف علی زرداری ویڈیو لنگ کے ذریعے کانفرنس میں شریک ہوں گے جبکہ مریم نواز نے ٹوئٹر پر ایک صارف کے جواب میں تصدیق کی کہ نواز شریف کا پیغام سوشل میڈیا پر لائیو سٹریم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اس کے بعد میاں نواز شریف کی جانب سے آج ہی بنائے گئے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ بھی کی گئی جس میں پیغام تھا ’ووٹ کو عزت دو۔‘

رضا ربانی

رضا ربانی: ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کا بل منظور کیا گیا ہے

اپوزیشن کے تحفظات کیا ہیں ؟

گذشتہ دنوں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھا کہ درحقیقت ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کا بل منظور کیا گیا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ اس بل کی بعض شقوں پر تو حکومت نے حزب مخالف کی جماعتوں سے کسی حد تک مشاورت کی لیکن زیادہ تر ترامیم کو تو پارلیمنٹ، بلخصوص سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے سپرد ہی نہیں کیا گیا۔

رضا ربانی کا کہنا تھا حکومت کا یہ اقدام پارلیمان پر عدم اعتماد کا مظہر ہے اور ایسے اقدامات سے پارلیمنٹ کمزور تر ہو رہی ہے۔

اُن سے یہ پوچھا گیا کہ مشترکہ اجلاس کی صورت میں حزبِ مخالف کی جماعتوں کو عددی برتری ہونی چاہیے تھی تو یہ بل کیسے منظور ہو گئے؟ سینیٹر ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت کے علم میں تھا کہ وہ کس روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے گی تاہم حزب اختلاف کو اس اجلاس کے انعقاد کا سمن اجلاس سے چند گھنٹے پہلے جاری کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ اتنے کم عرصے میں بھی حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت نے اپنے ارکان کی حاضری یقنی بنانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ نہیں آ سکے جس سے مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کی عددی برتری متاثر ہوئی۔

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل ) گروپ نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حکومت کا ساتھ نہیں بلکہ اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد بی این پی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہلی مرتبہ حکومت کی مخالفت کی ہے۔

پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر جاوید عباسی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے حزبِ مخالف کی جماعتیں قانون سازی کرنے کے لیے تیار تھیں لیکن حکومت نے اس کی آڑ میں ایسی قانون سازی بھی کر دی ہے جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں سے تعاون مانگا تو ان جماعتوں نے ملکی مفاد کے پیش نظر یہ سب کیا لیکن وزیر اعظم کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ حزب مخالف کی جماعتیں ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے جو ترامیم پیش کی گئیں ان سب کو مسترد کر دیا گیا۔

سینیٹر جاوید عباسی جو کہ وزارت قانون اور انصاف سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق جو قانون سازی کی گئی اس کا مسودہ تک متعقلہ قائمہ کمیٹی کو نہیں بھجوایا گیا جس سے حکومت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp