پانچ دریاؤں کے سنگم پر رومان نگر کا قصہ


برصغیر میں تاریخی۔ روحانی اور تہذیبی حیثیت کے حامل شہر اوچ شریف سے شمال کی جانب 12 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیڈ پنجند وہ تفریحی مقام ہے جہاں پانچ دریا چناب، ستلج، بیاس، جہلم اور راوی مل کر حسین سنگم بناتے ہیں، پنجند کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہا بھارت کے قصے کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے جو ”پنجا ندا“ کے حوالے سے ہے۔

پنجاب کی تاریخ کا پنجند سے گہرا تعلق ہے، مسلمانوں کی آمد سے پہلے پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی کی دیواروں تک تھا اور اسے سپت سندھو ست دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا تھا۔ جب دریائے سندھ اور اٹک کے علاقے اس سے علیحدہ ہوئے تو اس کا نام پنج ند ہو گیا۔ جب کابل کے راستے مسلمان پنجاب میں آئے تو انہوں نے اس کا نام پنج ند کی بجائے پنجاب یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین رکھ دیا اور یہ نام سب کے دلوں میں گھر کر گیا۔

1922 ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت اس دریا پر ہیڈ ورکس کی تعمیر شروع ہوئی جو 1932 ء میں ایک کروڑ 92 لاکھ 79 ہزار 93 روپے کی لاگت سے پایہ تکمیل کو پہنچا، اس منصوبے کے تحت ہیڈ پنجند سے دو بڑی نہریں عباسیہ اور پنجند کینال اور بعد ازاں 1980 ء کی دہائی میں نیو عباسیہ لنک کینال نکالی گئیں جو پنجاب اور سندھ کے وسیع علاقہ کو سیراب کرتی ہیں۔ ریاست بہاول پور کے مالی تعاون سے قائم ہونے والا پنجند ہیڈ ورکس جغرافیائی اور انتظامی طور پر ضلع بہاول پور میں شامل تھا جسے بعدازاں ضلع مظفر گڑھ کی حدود میں شامل کر دیا گیا۔

کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اور اس کے تاریخی مقامات اس ملک کی شناخت ہوتے ہیں جنہیں آنے والی نسلیں ”ثقافتی ورثے“ کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔ پنجند تاریخی اعتبار سے رومانیت کی حامل سرزمین رہی ہے جسے بابا بلھے شاہ، مخدوم سید شمس الدین سادس گیلانی، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور استاد ابراہیم ذوق جیسے صوفی شعراء نے موضوع سخن بنایا، پانچ دریاؤں کے ملاپ کا تصور ہی انسانی ذہن کے لیے دلچسپی کا حامل ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے دور دراز علاقوں سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹورازم کی سرکاری ویب سائٹ پر ہیڈ پنجند جیسے تاریخی اور تکنیکی لحاظ سے اہمیت کے حامل مقام کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی یہاں روز مرہ زندگی کے لیے بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ پانچ دریاؤں کے سنگم پر کھڑے ہو کر بھی سیاحوں کو اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کے ہر گھونٹ کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، یہاں مارکیٹ کے نام پر چند مچھلی تلنے کی دکانیں ہیں جہاں بجلی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے چند لمحے گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔

دریا کے کنارے پنجاب اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کا تشہیری بورڈ عوام کی توجہ حاصل کر رہا ہوتا ہے، ہیڈ پنجند کے تعمیراتی عمل کے دوران بنائی جانے والی تعمیرات کا ایک کمرہ ہیڈ پنجند کی تاریخی اشیاء اور دستاویزات کے لیے مخصوص ہے لیکن ظلم یہ کہ طلبہ اور سیاحوں کے لیے بھی یہ کمرہ نہیں کھولا جاتا۔ شنید ہے کہ اس کمرے میں موجود اکثر قیمتی اشیاء، ہیڈ پنجند کے تعمیراتی عمل کی نایاب تصاویر اور نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان عباسی خامس کی طرف سے ہیڈ پنجند کے سنگ بنیاد اور افتتاح کی تختیوں کو غائب کر دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ دور دراز سے آئے سیاحوں کی راہنمائی کے لیے یہاں کسی گائیڈ کا تصور بھی موجود نہیں۔

پنجاب کی زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے مقام پر دہشت گردی یا ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں۔ ہر سال کئی من چلے دریا کی بے رحم لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں لیکن تاحال اس کے سدباب کے لیے سیفٹی اینڈ سکیورٹی کا کوئی نظام وضع نہیں کیا جا سکا۔

دنیا بھر میں سیاحت صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے، کئی ممالک ایسے ہیں جن کی معیشت کا مکمل دار و مدار سیاحت پر ہے۔ ہمارے ملک میں سیاحوں کے لیے قدرتی حسن اور تاریخی اہمیت کے حامل سینکڑوں مقامات موجود ہیں مگر ان غیر ترقی یافتہ علاقوں میں زندگی کی سہولیات کی عدم دستیابی نے ان کا حسن گہنا دیا ہے۔

پنجند ہیڈ ورکس پر ملک کے پانچ دریاؤں کا باہم مل جل کر بہنا قوم کو محبت، اخوت اور یگانگت کا درس دیتا ہے۔ اس مقام کو حکومتی سرپرستی سے اہم سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے جس سے مقامی ترقی کے علاوہ کثیر زرمبادلہ کمانے کے مواقع دستیاب ہوں گے۔ یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم پاکستان کے چہرے پر سے دہشت گردی، جہالت اور عالمی گداگر جیسی متعصب دھند کو صاف کر کے اس کے خوبصورت چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).