نائٹ موونگ سروسز: جاپانی کمپنیاں جو لوگوں کی ’غائب‘ ہونے میں مدد کرتی ہیں


پوری دنیا میں جرمنی سے لے کر برطانیہ تک، کچھ لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ بہت ہو گیا، اب بغیر کوئی نشان چھوڑے اپنی زندگیوں سے ہی غائب ہو جایا جائے۔ وہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر، نوکریاں اور خاندانوں کو چھوڑ ایک نئی زندگی شروع کرنے نکل جاتے ہیں، اور اکثر وہ کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔

جاپان میں ان لوگوں کو ’جوہاٹسو‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جاپانی زبان میں عملِ تبخیر یا بخارات بن کر اڑ جانے کو کہتے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو جان بوجھ کر غائب ہو جاتے ہیں اور اپنے بارے میں چھپاتے رہتے ہیں، کبھی کبھار تو برسوں بلکہ درجنوں برسوں تک۔

42 سالہ سوگیموٹو کہتے ہیں کہ ’میں انسانی رشتوں سے تنگ آ گیا تھا۔ میں نے ایک چھوٹا سا سوٹ کیس اٹھایا اور غائب ہو گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کے آبائی شہر میں ہر کوئی، ان کے خاندان اور مشہور مقامی کاروبار کی وجہ سے، ان کے متعلق جانتا تھا، جو کہ سوگیموٹو سمجھتے ہیں کہ تمام عمر جاری رہنا تھا۔ لیکن اس خاندان اور جان پہچان کی چھاپ نے ان میں اتنا اضطراب پیدا کیا کہ انھوں نے اچانک ہمیشہ کے لیے شہر کو چھوڑا اور کسی کو نہیں بتایا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔

ناگزیر قرضے سے لے کر محبت کے بغیر شادی تک، وہ محرکات جن کی وجہ سے ’جوہاٹسو‘ غائب ہو جاتے ہیں، بدلتی رہتے ہیں۔ ان کی وجوہات کچھ بھی ہوں وہ ایسی کمپنیوں کا رخ کرتے ہیں جو ایسا کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ان کارروائیوں کو ’نائٹ موونگ‘ سروسز کہا جاتا ہے، جو کہ جوہاٹسو بننے کی خفیہ نوعیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔

وہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو چوری چھپے غائب ہونا چاہتے ہیں، اپنی موجودہ زندگیوں اور شناخت سے دور جانا چاہتے ہیں، اور وہ کمپنیاں ان کے نئے خفیہ ٹھکانوں میں ان کے لیے رہنے کا انتظام کرتی ہیں۔

شو ہاتوری نے 90 کی دہائی میں، جب جاپان کا اقتصادی بلبلہ پھٹ رہا تھا، ایک ’نائٹ موونگ‘ کمپنی بنائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر، منتقل ہونے کی وجہ کچھ مثبت ہوتی ہے، جیسے یونیورسٹی میں داخلہ لینا، نئی نوکری حاصل کرنا یا شادی کرنا۔ لیکن ایک دکھی ’موونگ‘ بھی ہوتی ہے، جیسا کہ مثال کے طور پر یونیورسٹی چھوڑ دینا، نوکری کھو دینا یا سٹاکر (پیچھے کرنے والا) سے فرار ہونا۔‘

پہلے تو شو کا خیال تھا کہ معاشی بربادی ہی وہ چیز ہے جو لوگوں کو اپنی پریشان کن زندگیوں سے بھاگنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن انھیں جلد ہی پتہ چلا کہ اس کی ’معاشرتی وجوہات‘ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’جو لوگ دوسری زندگی شروع کرنا چاہتے تھے، ہم نے ان کی مدد کی۔‘

ماہر عمرانیات ہیروکی ناکاموری ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جوہاٹسو پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘جوہاٹسو’ کی اصطلاح سب سے پہلے ایسے لوگوں کے لیے استعمال کی گئی جنھوں نے 60 کی دہائی میں ’لاپتہ‘ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

جاپان میں طلاق کی شرح پہلے بھی (اور بھی) بہت کم ہے، لہذا کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ طلاق کی باقاعدہ اور رسمی کارروائی کے بجائے اپنے جیون ساتھی کو اس طرح چھوڑنا زیادہ آسان ہے۔

ناکاموری کہتے ہیں کہ جاپان میں ’بخارات بن جانا‘ بہت آسان ہے۔ یہاں پرائیوسی کا انتہائی تحفظ کیا جاتا ہے: لاپتہ افراد بغیر کسی شور شرابے کے اے ٹی ایم سے آزادانہ طور پر رقم نکال سکتے ہیں، اور ان کے کنبہ کے افراد ان سکیورٹی ویڈیوز تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے جن میں وہ گھر سے بھاگنے کے بعد نظر آ سکتے ہیں۔

’پولیس اس وقت تک مداخلت نہیں کرے گی جب تک کہ کوئی اور وجہ نہ ہو جیسا کہ جرم یا حادثہ۔ خاندان بس یہ کر سکتا ہے کہ کسی نجی جاسوس کو بہت زیادہ رقم دے یا پھر انتظار کرے۔ بس اتنا ہی۔‘

’مجھے بڑا صدمہ پہنچا‘

ان پیاروں کے لیے جو پیچھے رہ جاتے ہیں، اچانک چھوڑ دیا جانا اور پھر اس کے بعد جوہاٹسو کی تلاش کی جستجو کافی ناقابل برداشت ہو سکتی ہے۔

ایک خاتون جو اپنا نام بتانا نہیں چاہتیں، ان کا 22 سالہ بیٹا بنا کچھ بتائے غائب ہو گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا، وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بہت صدمہ پہنچا۔‘

’وہ دو مرتبہ اپنی ملازمت چھوڑنے کے بعد ناکام رہا۔ اس نے یقیناً اپنی ناکامی پر بہت دکھ محسوس کیا ہو گا۔‘

وہ اس جگہ گئیں جہاں وہ رہا کرتا تھا، احاطے کی تلاشی لی اور پھر کئی دن اپنی کار میں اس جگہ کی نگرانی کرتی رہیں کہ شاید وہ آ جائے۔ لیکن وہ کبھی نہیں آیا۔

وہ کہتی ہیں کہ پولیس مددگار ثابت نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پولیس نے ان کو بتایا کہ وہ صرف اس وقت ملوث ہو سکتے ہیں جب انھیں لگے کہ یہ مشتبہ خود کشی ہے۔ لیکن چونکہ کوئی نوٹ نہیں تھا، لہذا وہ مدد نہیں کریں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ سٹاکرز موجود ہیں، معلومات کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہ ایک ضروری قانون ہے۔ لیکن مجرم، سٹاکرز اور والدین جو اپنے ہی بچوں کی تلاش نہیں کرسکتے ہیں؟ سبھی کے ساتھ حفاظت کی وجہ سے ایک سا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ کیا ہے؟‘

’موجودہ قانون کے ساتھ، بغیر پیسے کے، میں صرف اتنا چیک کر سکتی ہوں کہ یہ میت میرے بیٹے کی ہے۔ یہ واحد چیز میری دسترس میں ہے۔‘

جو غائب ہو گئے

خود جوہاٹسو کے لیے، دکھ اور پچھتاوے کا احساس پچھلی زندگیوں کو چھوڑنے کے بعد بھی بہت سے عرصے تک ساتھ رہتا ہے۔

سوگیموٹو جنھوں نے اپنی بیوی اور بچے ایک چھوٹے شہر میں چھوڑ دیے تھے، کہتے ہیں کہ ’مجھے مسلسل یہ احساس رہتا ہے کہ میں نے کچھ غلط کیا ہے۔ میں نے ایک سال سے اپنے بچے نہیں دیکھے۔ میں نے انھیں بتایا تھا کہ میں ایک کاروباری دورے پر ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کا واحد پچھتاوا ان (بچوں) کو چھوڑنا ہے۔

سوگیموٹو اس وقت ٹوکیو کے رہائشی ڈسٹرکٹ میں رہ رہے ہیں۔ ’نائٹ موونگ‘ کمپنی جس نے ان کی رہائش کا انتظام کیا ہے وہ سیئتا نام کی ایک خاتون چلاتی ہیں۔ انھوں نے صرف اپنا خاندانی نام بتایا تاکہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو۔

وہ خاتون خود ایک جوہاٹسو تھیں، جو 17 سال قبل غائب ہو گئی تھیں۔ وہ ایک بہت برے رشتے کے بعد غائب ہوئیں جس میں ان پر جسمانی تشدد کیا جاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طرح سے میں اب بھی ایک لاپتہ شخص ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے کئی طرح کے کلائنٹس (موکل) ہیں۔ ’ایسے لوگ ہیں جو سنگین گھریلو تشدد یا انا اور ذاتی فائدے کی وجہ سے بھاگتے ہیں۔ میں انھیں جج نہیں کرتی۔ میں کبھی نہیں کہتی کہ آپ کا معاملہ اتنا سنجیدہ نہیں ہے۔ ہر ایک کی انفرادی جدوجہد ہوتی ہے۔‘

ان کی کمپنی سوگیموٹو جیسے لوگوں کے لیے مشکلات سے نمٹنے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن اگرچہ وہ غائب ہونے میں کامیاب ہو گئے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کی پرانی زندگی کے آثار باقی نہیں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’صرف میرے پہلے بیٹے کو حقیقت معلوم ہے۔ اس کی عمر 13 سال ہے۔‘

’جو الفاظ میں بھول نہیں سکتا وہ یہ ہیں کہ جو فیصلہ والد نے کیا وہ والد کی زندگی ہے، اور میں اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ اپنے سے زیادہ میچیور (سمجھدار) لگتا ہے، ہے نا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp