اپوزیشن اتحاد کا ٹارگٹ کون؟ کپتان یا سر جی ؟


آصف زرداری نے اوپننگ ریمارکس دیے، گراؤنڈ بنا کر مائک نواز شریف کے حوالے کر دیا۔ نواز شریف نے ایک تاریخی تقریر کھڑکا دی۔ اس تقریر میں وہ لڑکھڑائے بغیر، غصہ کیے بغیر، سیدھی بات کرتے رہے۔ جس کو ہٹ کرنا تھا اسے ہٹ کرتے رہے۔ ان کی یہ ہٹنگ کافی ہارڈ رہی۔

تقریر جس نے دیکھنی ہے دیکھ لے گا۔ اپنے لیے اس کی ٹائمنگ ہی اہم ہے۔ نواز شریف کو دو لفظوں میں ڈیفائن کرنا ہو تو وہ ٹائمنگ اور پریشر کے استاد ہیں۔ اپنی مرضی کا وقت منتخب کرتے ہیں پھر پریشر بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا تب تک کرتے ہیں جب تک اگلے کے گوڈے لگوا نہیں دیتے۔ سیاستدان ہیں تو بے مقصد ہر وقت نہیں بولتے۔ آصف زرداری تو اپنے خلاف پھیلی تنقید افواہوں اندازوں کا جواب تک دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

یہ اے پی سی اچانک نہیں ہوئی۔ اتنا اکٹھ اور ایسی باتیں ایسے ہی نہیں ہو گئیں۔ بلاول نے دو فون کیے اور کام لگ گیا۔ سب بولنے لگے۔ سب کہہ دیا، کوئی دید لحاظ نہیں رکھا۔ اک رات پہلے تک کی مظلوم پارٹیاں جو حکومتی پریشر کی دہائیاں دے رہی تھیں۔ سارا پریشر ہوا میں اڑاتی دکھائی دیں۔

نواز شریف آصف زرداری عام لوگ نہیں ہیں۔ یہ کپتان تو بالکل نہیں ہیں جس کے پاس دو سو بندوں کی ٹیم تھی۔ جس نے دو سو ارب ڈالر لا کر جانے کس کس کے منہ پر مارنے تھے۔ جس کو بارلے پاکستانیوں نے ڈالروں کی بارش میں ڈبو دینا تھا۔ جس نے قرضہ مانگنے سے پہلے خود کشی کر لینی تھی۔ جس نے گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانی تھیں۔ جسے وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانی تھی۔ جو مانگے کے جہاز پر امریکہ چلا جاتا ہے۔ واپسی کے آدھے سفر پر اتارا جاتا ہے۔

جن کا جہاز تھا انہی کی کباڑ کی طرح پھینکی ایکسرسائز مشینوں پر دوڑیں لگاتا جان بناتا رہتا ہے۔

نواز شریف آصف زرداری، دونوں ہی کی مجبوری ہے کہ وہ ہوائی باتیں نہ کریں۔ دونوں ہی گیلی جگہ پیر نہیں رکھتے۔ دونوں جب حکومت سنبھالیں گے تو انہیں پتہ ہے کہ انہیں کسے ریلیف دینا ہے۔ کہاں سے پیسہ لانا ہے۔ کدھر خرچنا، بقول کپتان کن کرپٹوں کا منہ کالا کرنا ہے اور کیسے کن کو مال بنانے کا موقع دینا ہے کہ ووٹ منہ اٹھائے پیچھے ٹرا رہے۔

تو یہ جان لیں کے نون لیگ جب حکومت ہٹانے کے لیے نکلے گی تو یہ انتظام کر کے چلے گی کہ حکومت مل گئی تو چلانی کیسے ہیں۔ اس کے لیے درکار فنڈ کون دے گا۔ کن شرائط پر ملیں گے۔ کون سی آپشن ہیں، کون سی آپشن لینی ہے اور کسے شکریہ کہنا ہے۔ نواز شریف نے دو ملکوں کا نام لیا ہے۔ اپنی تقریر میں یہ چین اور سعودی عرب ہیں۔ دونوں کے حوالے سے بہت دل سے اظہار کیا ہے۔ ٹچ بٹنوں کی جوڑی والی فیلنگ دی ہے۔

ٹھیک ہو گیا دے دی یہ فیلنگ۔ امریکی کدھر گئے پھر۔ وہ امریکی جو مسلم لیگ نون اور پی پی دونوں کے لیڈروں کو اک سی جگتیں مارتے ہیں۔ اک سے طعنے دیتے ہیں کہ بنا لیا سی پیک، بن گئے ایشین ٹائیگر، بن گیا گوادر۔ دونوں پارٹیاں اس صورتحال کو ادھر ادھر دیکھ کر گزارا کرتی تھیں۔ اب اچانک سے یہ اتنی دلیری کیسے؟ وہ پلیٹ لیٹس کمی ابھی پوری ہونے کی اطلاع تک نہیں آئی اور میاں صاحب ایکشن میں آ گئے۔

بات یہ ہے کہ امریکی الیکشن میں مصروف ہیں۔ جو بائیڈن کی لیڈ ہے اور ٹرمپ صدر ہے۔ دونوں کے لیے صدارتی الیکشن زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اور الیکشن ہے کے پھنس چکا ہے۔ خارجہ امور سب کچھ بھول بھال گئے ہیں۔ باقی سب تو چھوڑیں دلی والی گرل فرینڈ چین سے چپیڑیں کھانے کو اکیلی ہی منہ نشانے پر دیے کھڑی ہے۔ امریکی اس کو بھی بچا نہیں رہے، بس دیکھ ہی رہے ہیں کہہ رہے ہیں ”اخے ہم مصروف ہیں“۔

بے خبر ذرائع کا اصرار ہے کہ کشمیر کا طوق کسی کے گلے میں ڈالا جائے گا، جب تک ایسا ہوتا نہیں کپتان حکومت نہیں جاتی۔

اے پی سی کا اجلاس جاری تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی خبریں سامنے آنے لگیں۔ وہاں الیکشن ہونے والے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت ابھی حال ہی میں وہاں اپنی مدت پوری کر کے گئی ہے۔ اس حکومت کی اک کامیابی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کے ان کے پورے دور میں گلگت بلتستان جیسی حساس جگہ پر فرقہ واریت کا ایک واقعہ نہیں ہوا، خیر۔

کہانی یہ سنائی جا رہی ہے کہ کشمیر کا جیسے ہے جس کا ہے کی بنیاد پر حل کرانے کی تیاریاں ہیں۔ لوگ ابھی بھولے نہیں ہیں کہ کیسے مودی نے کشمیر کو زور زبردستی سے اپنا حصہ بنایا۔ اس حوالے سے مزید کوئی پیشرفت حکومت اور سر جی دونوں کے گلے ہی پڑے گی۔

اگر اس حوالے سے بات کسی طرف بڑھتی ہے تو پاکستان میں ہم تیزرفتاری سے واقعات رونما ہوتے دیکھیں گے۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ کپتان اور سر جی دونوں میں سے راستہ کسے مل جاتا ہے۔ یہ رہتے ہیں یا پھر نیازی کے بعد اب باجوے بھی ویسے ہی بدنامیوں سے لتھڑی مشہوریاں سمیٹیں گے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب امریکی اپنے اندرونی معاملات میں مصروف ہوں گے اور پاکستان تو چھوڑیں افغان امن عمل سے ان کی دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi