مسئلہ عمران یا اس کی حکومت نہیں ہے۔۔۔


حکومتی وزرا اور مشیروں کی تمام تر موشگافیوں کے باوجود اے پی سی منعقد ہوگئی اور ایسی منعقد ہوئی کہ جس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ غیریقینی صورتحال اس لیے بھی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کسی واضح یقین دہانی کے بغیر اے پی سی میں شرکت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اس کانفرنس میں جے یو آئی کا وفد بھیجنے کا سوچ رہے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری ان سے ملے اور ان کو اے پی سی میں شرکت کے لیے راضی کیا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور اے پی سی کے میزبان بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کو بھی خطاب کے لیے راضی کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی اے پی سی کی کامیابی کے لیے کی گئی کوششوں نتیجہ یہ نکلا کہ 20 ستمبر کا دن ملک بھر میں موضوع بحث آل جماعتی کانفرنس ہی رہی۔

پاکستان میں سیاسی تحریکوں کا ریکارڈ بہت پرانا ہے۔ پاکستان بذات خود ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا۔ ستر کی دہائی کے آخر میں تحریک نظام مصطفیٰ ایک ایسی موثر تحریک تھی جس کے اثرات ایک مدت تک ملکی سیاست پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ضیا الحق کے مارشل لا کے بعد 1981 میں ایم آر ڈی کی تشکیل ہوئی۔ ایم آر ڈی تحریک ضیا الحق کے مکمل جیت اور سیاسی جماعتوں کی مکمل ہار کے درمیان حائل ہوگئی اور سیاسی تنہائی کا شکار ہوتی سیاسی جماعتوں کو ایک فورم مل گیا۔

سلسلہ یہاں پر رکا نہیں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کے بعد ایک بار پھر سیاسی قوتیں باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر بحالی جمہوریت کے لیے اکٹھی ہوئی اور ایک نیا اتحاد اے آر ڈی تشکیل دیا۔ اور حالیہ اے پی سی میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا موجود اتحاد ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کا تسلسل ہے اور موجودہ اتحاد کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا۔

20 ستمبر کواسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی میں ایک مدت بعد مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنی خاموشی کو توڑا اور ایسا بولے کہ ان کی اپنی جماعت کے اکابرین بھی جس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ میاں صاحب کے خطاب کے بعد ن لیگی رہنما ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ یہ تقریر کس نے لکھی ہے۔ اے پی سی کے بعد مریم نواز نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب کی تقریر نے سماں باندھ دیا۔ اور بالکل ایسا ہی ہے کہ میاں نواز شریف کی تقریر نے سماں باندھ دیا۔

مشترکہ اعلامیے کی شق نمبر 19 پر جس وضاحت کے ساتھ بولے اس پر معروف صحافی حامد میر نے ٹویٹ کیا کہ بات اے پی سی سے آگے نکل گئی ہے۔ اپنے خطاب کے آخر میں میاں نواز شریف کا یہ کہنا کہ جو اے پی سی کا جو متفقہ فیصلہ ہو گا اس کو تسلیم کیا جائے گا۔ اے پی سی کے منتظمین اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کی تسلی کے لیے کافی تھا۔

مولانا فضل الرحمن کا لب ولہجہ اے پی سی میں بھی جارحانہ رہا۔ وہ شرکا کو ایک نکتہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کے سبب موجودہ حکومت کو دو سال تک حکومت کرنے کا موقع مل گیا ہے اور اب مزید کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کے خلاف مل کر عملی طور پر جدوجہد کرنی ہوگی۔ ملک بھر میں ایک مدت سے فعال سیاسی اجتماعات منعقد کرنے والے مولانا فضل الرحمن لفاظی اور اعلامیے کی بجائے عملی اپوزیشن کرنے کی بات کرتے رہے۔

مولانا کی گزشتہ دوسال کی کارکردگی ایسی رہی ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت اے پی سی میں شریک کوئی بھی سیاسی جماعت ان سے انحراف یا ان کے بغیر اپوزیشن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار اے پی سی کا اعلامیہ ان ٹھوس نکات پر مبنی ہے جس کا تذکرہ باربار مولانا اپنی تقاریر میں کرتے رہے۔ اس لیے اس کا سہرا مولانا فضل الرحمن کے سر بھی جاتا ہے۔

میاں نواز شریف کا خطاب کے دوران یہ کہنا کہ ان کا مسئلہ عمران خان یا اس کی حکومت نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو عمران خان کو اقتدار میں لائے۔ اس ایک بات نے اے پی سی کا ماحول یکسر تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد جو گفتگو ہوئی وہ اسی تناظر میں ہوئی۔ اس لیے یہ بات اہم نہیں کہ اے پی سی میں کیا فیصلے ہوئے اہم بات یہ ہے کہ اس اے پی سی کے بعد جو طاقت کے سرچشمے ہیں ان میں کیا فیصلے ہوں گے۔ اس میں ارباب اختیار کو بھی سوچنا ہوگا کہ 2018 میں جو تجربہ کیا گیا، کیا وہ کامیاب ہوا ہے۔ میرے خیال میں اگر یہ تجربہ کامیاب ہوا ہوتا تو یہ اے پی سی کامیاب نا ہوپاتی۔ ملک بھر کی سیاسی جماعتیں ایک فورم پر اکٹھی نا ہوپاتیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو سیاسی جماعتیں حکومتی اتحاد میں شامل ہیں ان کے حالات بھی اطمینان بخش نہیں ہیں۔

میاں نواز شریف جن سے مخاطب تھے یقینی بات ہے وہ بھی ان باتوں پر غور کر رہے ہوں گے کہ حالات کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ احتساب کے نام پر صرف اپوزیشن کو ہی قید وبند کی صعوبتیں کیوں برداشت کرنی پڑرہی ہیں ایسا کچھ ہونا چاہیے کہ احتساب ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی اس عمل پر انگلی نا اٹھا سکے۔ رہی بات طرز حکومت کی اور حکومتی معاشی پالیسیوں کی تو اس سے متعلق رائے عوام سے لی جائے وہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر مطمئن ہیں۔

ویسے اس کے متعلق بھی ارباب اختیار کو کچھ نا کچھ تو اندازہ ہوچکا ہوگا۔ میرے دلچسپی اے پی سی کے اعلامیے کے نکتہ نمبر 25 میں زیادہ ہے جس میں ٹروتھ کمیشن بنانے کا کہا گیا ہے۔ جس کے تحت 1947 سے اب تک کی تاریخ کو دستاویزی شکل دینے کا کہا گیا ہے۔ اگر اس نکتے پر عمل ہوگیا تو قوم کے سامنے بہت کچھ عیاں ہو جائے گا۔ آخری بات یہ کہ عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کی حکمت عملی کے سبب سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوگئی ہیں یہ کریڈٹ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو فرینڈلی کا طعنہ دینے والے حکومتی وزرا کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم ہوگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).