پاکستانی معاشرے کے عمومی تضادات


معاشرے میں تضادات کا تذکرہ جدلیاتی مادیت کے تناطر میں کیا جاتا ہے۔ عام آدمی کے لیے لفظ تضادات سمجھنا تو سادہ معاملہ ہے لیکن جدلیات اور مادیت کے معنی سمجھنا کسی حد تک دشوار ہو جاتا ہے۔ جدلیات، ویسے تو بحث کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی معاملے پر اختلاف طے کر لیا جاتا ہے لیکن لفظی معانی میں یہ استدلال کی لڑائی ہے، جس کی اس انداز سے دی گئی دلیلیں بھاری ہوں گی وہ دوسرے کو قائل کر لے گا۔ یہ طریقہ مباحثے سے مختلف ہوتا ہے، مباحثے میں جوش اور جیت کی خواہش دونوں ہی جھلکتی ہیں لیکن جدلیات میں منطق اور لفظوں کا درست استعمال کام میں لایا جاتا ہے یعنی یہ انداز استدلال عاقلانہ ہوتا ہے۔ رہی بات مادیت کی تو وہ ایک طرز فکر ہے کہ ہر چیز کی بنیاد مادے پر ہے تاحتٰی سوچ کی بھی کیونکہ سوچ مغز سے پیدا ہوتی ہے جو خود مادے سے بنا ہے۔ اس طرز فکر یعنی جدلیاتی مادیت میں تضادات کو آنکا جاتا ہے جو دو یا دو سے زیادہ نکات یا معاملات میں کڑے اختلافات کو کہتے ہیں۔

مگر ہمارا ان سب سے اصطلاحات سے کوئی مطلب نہیں ہے نہ جدلیات سے نہ مادیت سے اور نہ ہی جدلیاتی مادیت سے۔ ہماری گفتگو تضادات سے متعلق ہے۔ معاشرے میں موجود تضادات کو اگر دور نہ کیا جائے یا کم از کم ان کی شدت کو کم نہ کیا جائے یا تضاد میں اعتدال کے عنصر کا نفوذ رک جائے تو نہ صرف یہ کہ معاشرہ ذہنی، سماجی اور معاشی دوسرے معانی میں منطقی و سائنسی طور پر آگے نہیں بڑھ سکتا بلکہ جہاں تک پہنچا ہوتا ہے وہیں پر رک جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو ترقی معکوس کرنے لگتا ہے یعنی ابتذال کا شکار ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں ابتذال کے آثار ایک عرصے سے دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن صاحبان علم و نظر موجود ہیں جو اندھیرے آسمان میں روشنی کی تھگلیاں لگانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ابتذال کو روکا نہیں جا سکتا اور اسے پیشرفت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا یا رکے ہوئے معاشرے کو متحرک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے البتہ ضروری ہوتا ہے کہ تضادات کا مطالعہ کیا جائے اور تضادات کو پاٹنے کی خاطر علمی اور عملی کاوشیں کی جائیں۔ نشاۃ ثانیہ کے عہد میں نہ ہیگل کا فلسفہ جدلیات وجود رکھتا تھا اور نہ ہی روایتی مادیت کا شہرہ تھا لیکن پھر بھی روسو اور دیگر دانشوروں نے تضادات کو اپنے زور قلم اور علم و عمل سے نمایاں اور ننگا کیا اور بالآخر ان کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک معاشرے کو کلیسا کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئی۔

پاکستان میں جاگیر دار اور سرمایہ دار کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ان دونوں کا پاکستان میں کلاسیکل شکل میں وجود باقی نہیں رہا۔ جاگیردار بڑا زمیندار اور آدھا سرمایہ دار بن چکا ہے جبکہ پاکستان کا سرمایہ دار عالمی سرمایہ داری کا بھاڑے کا ٹٹو بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں اصل جھگڑا عام آدمی اور صارفین کو فروغ دینے والے کارپوریٹ کلچر کے درمیان ہے جسے سمجھنے کی نہ تو کوشش کی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے خلاف کوئی سرگرمی بھی نہیں ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عالمگیریت کے خلاف عمومی طور پر تضاد نہیں بنتا اور یہ کہ اس کے ساتھ تضاد کا اظہار محض ایک رو یا ایک فیشن ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو جسے ہم سامراج یا استعمار کہتے ہیں اس کی جو شکل آج ہر جگہ موجود ہے وہ عالمگیریت کے کوڑے سے صارفین کے معاشرے کو آگے اور مزید آگے لے جانا ہے، تاکہ باثروت اقلیت اور نادار اکثریت میں معاشی خلیج بڑھتی چلی جائے۔ ایک نچلا درمیانہ طبقہ پیدا ہو جو اس معاشی طور پر اور بیشتر اوقات سیاسی طور پر مقتدر اقلیت کا اجرت کے عوض بنایا ہوا جدید دور کا غلام ہو اور کمتر تعداد میں ایک حقیقی درمیانہ طبقہ ہو جو مزید آگے جانے کی خواہش اور کوشش میں ان کے اس عمل کو آگے بڑھانے میں ان کا معاون و مددگار رہے۔

اکثریت کو یا تو خوشحالی کے فریب میں رکھا جائے جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں کریڈٹ کارڈز اور مارگیج کے ذریعے یا دوسری صورت میں جہاں ترقی ابھی ابتدائی مراحل میں ہو، رکی ہوئی ہو یا سست رفتاری سے آگے بڑھتی ہو وہاں کی اکثریت اشیائے صرف خریدنے کی خواہش میں ہر غیر قانونی انداز اختیار کرکے معاشرے کو اتھل پتھل کیے رکھے جس پر قابو پانے کے لیے بھی اس کے اپنے ہی پروردہ سیاستدان، افسر اور غیر سیاسی قوتیں ہوں۔ چنانچہ پاکستان کا پہلا تضاد عمومی بین الاقوامی تضاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

دوسرا بڑا تضاد مذہب سے وابستگی اور صارفین کے سماج کا فعال حصہ بنے رہنے میں ہے۔ ہم یہ نہ سمجھیں کہ جو لوگ مذہب کے ساتھ زیادہ وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب دنیاداری میں دو قدم آگے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں وہ کوئی بہت زیادہ مطمئن لوگ ہیں۔ ان کے اپنے اندر کا تضاد انہیں نفسیاتی طور پر ہٹ دھرمی کی جانب لے جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کمانے کے لیے چاہے جو بھی دنیاوی طریقے اختیار کر لیے جائیں لیکن اللہ کی راہ میں خیرات کرنے سے، اللہ کے نظام کے ”نفاذ“ کی خاطر کام کرنے والوں بشمول شدت پرستوں کو مالی اعانت دینے سے ان کے گناہ دھل جاتے ہیں۔

ان کے اندر کے تضاد کے علاوہ اس اکثریت کا اس اقلیت کے ساتھ بیرونی تضاد بنتا ہے جو زندگی کے معاملات کو عقل، منطق، رواداری، برابری اور جمہوری اقدار کے پیمانوں سے آنکتی ہے اور مذہب کو کسی بھی انسان کا ذاتی عمل خیال کرتی ہے، چاہتی ہے کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو یعنی معاشرہ اور معاشرے پر قابو رکھنے والی ریاست اور ریاست کو چلانے والی حکومت سیکیولر ہو۔

اس تضاد کی وجہ سے معاشرے میں صف بندی کا عمل ہو رہا ہے جو ایک حد تک پختہ ہونے کے نزدیک ہے۔ اس تضاد سے وہ قوتیں جن کی پاکستان میں جغرافیائی سیاسی دلچسپیاں ہیں، فائدہ اٹھاتی ہیں اس لیے اس تضاد کو گہرا اور مزید گہرا کرنے کی خاطر مالی امداد بھی دیتی ہیں اور تکنیکی معاونت بھی۔ یہ قوتیں اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ چونکہ ریاست اور حکومت دونوں ہی سیکیولر نہیں ہیں، اس لیے ان ہر دو کے ساتھ ایسے افراد اور بعض اوقات خفیہ طور پر ایسی تنظیمیں وابستہ ہوتے ہیں جو اس عمل کو پیچیدہ اور قوی بنانے میں معاون ہوتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں تیسرا تضاد غربت اور امارت کا ہے۔ کیونکہ ملک کی تقریباً چوتھائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور دو تہائی خط غربت کے آس پاس اور باقی ایک چوتھائی میں امراء کے علاوہ وہ درمیانہ طبقہ ہوتا ہے جو اپنے پیشوں کے حوالے سے معدودے چند امراء کا ہی حواری ہوتا ہے لیکن اس میں شامل لوگ غریبوں کے ساتھ اپنی ہمدردیوں کا اظہار کرنے سے بھی نہیں رہ سکتے جیسے صحافی، اینکر حضرات، کامیاب ڈاکٹر، نجی تعلیمی اداروں کے مالکان وغیرہ وغیرہ۔ تاجر ان کے سوا ہیں جن کا کام ہر طرح سے پیسہ کمانا ہے۔ ان کے کام کو جاری رکھنے میں جو بھی ممد ہوتا ہے وہ اسے رضامندی یا بے دلی سے چندہ یا مدد دیتے رہتے ہیں۔

چوتھا بڑا تضاد نظام تعلیم میں تفاوت ہے۔ ان دنوں نجی تعلیمی اداروں کی مالی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے جس کا حکومت نے نوٹس بھی لیا ہے اور وزیر اعظم نے حکم جاری کیا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے خاص طور پر اسکول اس سال اپنی فیسوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچے ملک کی ایک چوتھائی خوشحال یا سفید پوش آبادی میں سے ہیں۔ ان سکولوں میں سہولیات کی کمی، اخراجات کی زیادتی اور تعلیم کے معیار کے بارے میں اگر شکوے کیے جا سکتے ہیں تو ملک کی تین چوتھائی آبادی کے بچوں اور نوجوان لوگوں کو جو مدرسے، سکول اور تعلیمی ادارے دستیاب ہیں (اگر وہ ان کی بھی استطاعت رکھتے ہیں تو) ان کی حالت زار اور ان میں تعلیم کے معیار کی تو بات ہی کیا کرنی۔ تعلیم کے معیار اور نصاب کا تضاد سماجی تفاوت کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان متنوع اداروں میں وجود پانے والے ”مائنڈ سیٹ“ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

پانچواں سنجیدہ تضاد دنیا میں تبدیل ہوتے ہوئے رابطہ جاتی حالات، جن میں انٹرنیٹ اور خاص طور پر سماجی روابط کے وسائل آتے ہیں کی وجہ سے نئی اور پرانی نسل میں شدید اختلاف پیدا ہونا ہے۔ ایک جانب دنیا انہیں دوسری طرح کی نظر آتی ہے، چاہے وہ جدید ترقی یافتہ شکل میں دکھائی دیتی ہو یا انتہاپسندی پر مبنی متشدد لیکن مذہبی شکل میں، دوسری جانب پرانی نسل ان کو اسی اخلاقیات اور اقدار کا درس دینے پر تلی ہوتی ہے جن کو اپنانا نئی نسل کے خیال میں نہ تو اتنا ضروری ہے اور نہ ہی مادی طور پر سود مند ( یہ تضاد ایک تفصیلی بحث کا محتاج ہے ) چنانچہ سماج کی پرانی ساخت ٹوٹ رہی ہے ایک اور تکنیک پر مبنی ساخت بن رہی ہے جس میں نوجوانوں کی توجہ موبائل اور ٹیبلٹس پر ہے جبکہ ان کے والدین اکیلے ٹی وی کے سامنے بیٹھے تنہائی کا شکار ہونے لگے ہیں۔

ان تضادات کو اپنے خاص مقاصد کی تکمیل کی خاطر استعمال بھی کیا جا سکتا ہے اور ان تضادات کو دور کرنے کے لیے جدوجہد بھی کی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں ہر ایک کا نکتہ نظر اپنا اپنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).