طبقاتی سماج کے باغی گوتم بدھ اور مہا ویر کے پیروکار


ہم جیسے راندہ درگاہ مردود حرم جو جوانی میں جدلیاتی مادیت، مارکسیزم اور اشتراکیت سے متاثر ہوئے شاید کبھی روحانیات اور مذہبیات پر غور نہ کرتے مگر بھلے شاہ، شاہ عنایت، گرو نانک، روی داس، کبیر اور دیگر بھگتوں کے طفیل باطینت اور وحدت الوجود کی لطیف فکر سے آشنائی کی بھی توفیق ہوئی۔ مشقت طالب علمی اور لذت طلب علمی کے ساتھ کتابوں میں پڑھے الفاظ اور افکار کو ذاتی تجربے میں عملی طور پر دیکھنے کا سواد بھی محسوس کیا۔

برصغیر یا جس کو تاریخ میں ہندوستان کہا گیا یہاں آریاؤں کی آمد سے قبل نہ کوئی ایک ریاست تھی، نہ کوئی ملک اور نہ ہی یہاں کوئی مذہب۔ آریاؤں کے لائے دھرم سے پہلے ہندوستان عقائد کی بندھنوں سے آزاد تھا۔ عقیدے میں لوگ اس قدر آزاد تھے کہ یہاں اس کے بارے میں غلط اور صحیح کا تصور بھی نہیں تھا۔ لاتعداد معبود تھے جن کی تعداد قدیم ویدوں میں 33 کروڑ تک بتائی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے ہندوستان میں انسانی آبادی اتنی زیادہ نہ ہو اور ہر فرد کے ایک سے زیادہ معبود ہوں۔ عابد اور معبود دونوں آزاد تھے۔

آریاؤں نے اپنے لائے عقیدے کو (سناتھن) دھرم کہا جس کا ماننا سب کے لئے لازم قرار پایا۔ اس دھرم کے مطابق انسان چار طبقات مں تقسیم تھے جن میں سب سے اوپر وید لکھنے والے برہمنوں نے خود کو رکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد جنگجو کھشتری تھے جن کا کام امور مملکت تھا، تیسری سطح پر تاجر ویش تھے اورباقی سب لوگ شودرکہلاتے تھے جو کام کاج کرتے تھے۔ مقامی لوگوں کو اچھوت قرار دے کر ان کا آریاؤں کے سامنے آنے، ان کی بات سننے اور ان کی جیسی حرکت کرنے پر بھی سزائیں مقرر تھیں۔

ہندوستان کے ذاتوں اور طبقات میں بری طرح جھکڑے سماج کی معاشرتی ناہمواری پر سوال اٹھانے والوں کی سرکوبی کی جاتی تھی۔ مہا بھارت اور دیگر اساطیر میں طبقاتی معاشرت کی کہانی گھڑنے والوں کو ہی مرکزیت حاصل ہے جو کہانی کاروں کا کمال فن داستان طرازی کا کرشمہ لگتا ہے۔

بالا دست طبقات کے ہاتھوں یرغمال بنے سیاسی جبر اور سماجی گھٹن کے ماحول میں اساطیر کی مذہبی حیثیت پر جن لوگوں نے سوال اٹھایا ان میں 500 قبل مسیح میں پیدا ہوئے سدھارتھ گوتم بدھ اور مہا ویر نمایاں ہیں جن کی تعلیمات نے آنے والی پیڑیوں کو متاثر کیا اور پوری دنیا پر گہرے اثرات چھوڑے۔

مہا ویر اور سدھارتھ گوتم بدھ کا اس معاشرے کے اونچے طبقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی میں مخالفت نہ ہوئی مگر ان کے بعد ان کی تعلیمات کی ہر سطح پر نفی کی گئی۔ مہا ویر کی مساوات پر مبنی تعلیمات سے متشکل جین مت کے پیروکار ایک سمجھوتہ کے تحت ہندوستان میں رہنے میں کامیاب تو ہوگئے مگران کی تعداد سکڑ کر چند لاکھ لوگوں تک محدود ہوگئی۔ گوتم بدھ کے پیروکاروں نے ایسا سمجھوتہ نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کی نسل کشی ہوئی اور ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے جس کے نتیجے میں وہ اپنی تعلیمات سمیت پورے ایشیاء میں پھیل گئے۔

مہاویر اور گوتم بدھ ایک ہی دور میں ایک ہی سرزمین پر آئے تھے۔ ان کی تعلیمات میں بھی کافی مماثلت ہے۔ دونوں حکمران خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے ہی طبقے کے خلاف میدان میں اترے تھے۔ ایک مہا ویر (سب سے بڑا سورما) اور دوسرا بدھا (پہنچا ہوا) کہلایا۔ ۔ بدھ مت کے ماننے والے جو ہندوستان نہ چھوڑ سکے اچھوتوں کی زندگی گزارنے لگے اور بدھ مت کی تعلیمات میں مردہ جانور کے گوشت کھانے کی اجازت کی بنا پر زیادہ تر چمڑے کا کام کرنے لگے اور چمارکہلائے۔ مہاویر کے پیرو کاروں میں سے کئی ایک نے بعد میں سکھ مت، مسحیت اور اسلام قبول کیا جانور کاگوشت کھانے کی ممانعت کی وجہ سے جولاہا کا کام کیا۔ مسلمان ہونے والوں نے خود کو انصاری بھی کہلانا شروع کیا کیونکہ بعض روایات کے مطابق صحابی رسول اللہ ﷺحضرت ایوب انصاری پیشے کے لحاظ سے جولاہا تھے۔

1450 ء میں اتر پردیش کے چماروں کے گھرانے میں ایک بھگت پیدا ہوئے جس کا نام روی داس تھا جو طبقاتی ناہمواری کے خلاف تھا۔ ہندوستان کا طبقاتی سماج روی داس کو اس کی نچلی ذات کی وجہ سے نظر انداز کرتا اگر وہ برہمن گرو رام انند کے شاگرد اور خود راجستھان کی راجپوت میرا بائی کے گرو نہ ہوتے۔ روی داس ان بھگتوں میں شامل ہیں جن کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا حصہ ہے۔ روی داس کے گرو رام انند کا کہنا تھا کہ کسی سادھو سے اس کی ذات کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے علم کے بارے میں پوچھو۔ جب اس پیمانے پر پرکھا گیا تو روی داس کا مقام بہت اونچا تھا۔ آج بھی روی داس کے پیرو کاروں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان کے علاوہ یورپ میں بھی بستی ہے جو خود کو سناتھن دھرم اور سکھ مت سے الگ سمجھتے ہیں۔

1450 ء میں پیدا ہونے والے بھگت کبیر بھی صرف پیدائشی طور پر مسلمان ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق بھی ہریجن سماج کے جولاہوں سے تھا جو نچلی ذات کا ہی ایک پیشہ ہے۔ کبیر بھی رام انند کے شاگردوں میں سے تھا اور ان کا کلام بھی سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا حصہ ہے جس کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ بھگت کبیر کی ہندو، سکھ اور مسلمان صوفیاء کی روایت میں یکساں طور پر تقلید کی جاتی ہے۔

ہندوستان کا سماج صرف ذات پات کی بنیاد پر ہی متعصب نہیں بلکہ صنفی تعصب سے بھی بھرا ہوا تھا۔ دھرم میں عورت کی جگہ کسی مندر کی دیوداسی سے زیادہ نہیں تھی۔ شوہر مر جائے تو بیوی کو بھی اس کے ساتھ زندہ جلا دینا عام رواج تھا۔ ایسے میں 1450 ء میں ہی راجستھان کے راجپوت گھرانے میں میرابائی پیدا ہوئی جس نے مردوں کے سماج میں بطور بھگت تاریخ میں اپنا نام چھوڑا۔ میرا بائی کا کلام بھی سکھوں کی مقدس کتابوں کا حصہ بن گیا۔

سدھارتھ گوتم بدھ کے پیرو کاروں کا جسمانی طور پر تو ہندوستان سے صفایا کر دیا گیا مگر ان کی تعلیمات نے سینہ بہ سینہ پھیل کر نہ صرف برصغیر کے اندر لوگوں کی فکر کو تبدیل کر دیا جس کے نتیجے میں بھگتی جیسی تحریک کی ابتدا ہوئی بلکہ پورے ایشیاء میں پھیل کر وحدت الوجود کے تصور کی بنیاد بھی رکھی۔

جب بغداد میں عباسی خلیفہ مامون الرشید نے بیت الحکمۃ اور قاہرہ میں فاطمی خلیفہ حاکم بامراللہ نے داراحکمۃ قائم کیا تو جہاں یونان کے سائنس، فلسفہ اور طب کے تراجم نے اہل عرب کو متاثر کیا تو نہ صرف اخوان الصفاء جیسی تحریک کی بنیاد پڑ گئی بلکہ خراسان کے راستے پہنچے مشرق کے وحدت الوجود کے تصورات نے علم الکلام کے رنگ میں ڈھل کراسلامی تصوف کو بھی ایک نئی سمت دی۔

پندرہویں صدی تک وحدت الوجود کا تصور اسلامی تصوف میں ڈھل کر ہندوستان میں واپس آیا تو یہاں بگھت کبیر، گرو نانک اور بابا فرید جیسے صوفیاء نے وحدت الشہود اور وحدت الوجود دونوں تصورات کا ایک حسین امتزاج دیا جس سے اسلامی تصوف کی شکل میں روحانیت کی نئی جہتیں سامنے آئیں۔

ہندوستانی روحانیت اور تصوف کے بارے میں ایک بات بالکل عیاں ہے کہ مہا ویر اور گوتم بدھ سے، بھگت کبیر، روی داس بھلے شاہ، شاہ عنایت تک ہر ایک نے مذہب پر طبقاتی، نسلی اور علمی اجارہ داری سے چھٹکارہ کو ہی نجات قرار دیا ہے۔ تمام صوفیا اور سنت اس بات کی بھی ترویج کرتے نظر آتے ہیں کہ روحانیت ایک انفرادی تجربہ ہے جس کا کسی گروہی مذہب، اجتماعی عقیدہ یا نظریہ سے کوئی تعلق نہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan