علم نفسیات پڑھنے کے چند فوائد


زندگی میں تجسس کا عمل دخل اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ہے جو انسان کی فکری صلاحیتوں کو نئے زاویے عطا کرتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کوئی نئی ایجاد کر لیں اور وہی تجسس کی تکمیل کے زمرے میں آئے، اگر آپ کسی نئے لفظ کو سننے کے بعد اس کو لغت سے تلاش کرتے ہیں تو یہ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ ہر ایک کی طرح مجھے بھی اپنی ذاتی زندگی میں ہمیشہ سے انسان کو جاننے بارے تجسس رہا۔ مگر اس جذبے کی تکمیل میں سطحی علم اور بے وثوق نظریات نے شہر فکر کے داخلی راستوں پر دیڑے دال لئے تھے۔

آپ تصور کریں کہ کسی چمن میں داخل ہونے سے پہلے آپ کا استقبال مرجھائے ہوئے پھول کریں تو آپ کو یا تو چمن ساز کی دلچسپی پر تعجب ہو گا یا خود کو خزاں سالی میں عہد بہار ڈھونڈنے پر افسوس۔ بس کچھ ایسی ہی کشمکش میں ایک دن جذبات کی رو میں بہہ نکلا اور علم نفسیات میں رسمی تعلیم حاصل کرنے کی ٹھان لئی۔ پچھلی ایک دہائی سے کمپیوٹر سائنس کا طالب علم رہا ہوں اور مشینوں کی دنیا کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ لیکن جو مشین قدرت نے بنائی ہے، جو کہ بلا شبہ احسن التقویم ہے، اس بارے آگہی بہت کم تھی۔ اور پھر آپ لوگ یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ انسان نے علم دریافت کیا ہے قدرت کے وضع شدہ قوانین کے مطابق، لہذا انسانی علم اور اس کے نتیجے میں وجود پزیز ہونے والی ٹیکنالوجی انہی قوانین کے گرد نمو پاتی رہے گی۔ چنانچہ انسان بارے پڑھنا جو پہلے سے اس علم کی معراج اور بھی ناگزیر ہے۔

آپ یقین کریں کہ آفس کی مصروفیات کے بعد جب رات میں چائے کا ایک کپ لے کر علم نفسیات کے اصول پڑھنے لگتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے باطن میں کسی نے ہزار واٹ کا بلب نصب کر دیا ہو۔ اپنی پچھلی زندگی کو سوچ کر محو حیرت ہوتا ہوں کہ اتنا بیش بہا سرمایہ میری نظر سے دور رہا۔ یہ بات ملحوظ خاطر ریے کہ میری یہ جہد خالصتا حصول علم کی جسجتجو ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں تعلیم رسمی ہونے کے باوجود لطف اندوز ہو رہا ہوں ورنہ یہ بھی دیگر علوم کی طرح بہت سوں کے لئے بے معنی ہی رہتی ہے۔

اس کالم کو لکھنے کا مقصد نئے اور بالخصوص ینگ قارئین کو علم نفسیات سے تھوڑی سی آشنائی کروانا ہے۔ سائیکولوجی بنیادی طور پر انسانوں اور جانوروں کی سوچ اور طرز عمل کو سمجنھے اور تبدیل کرنے کا علم ہے جس کے احاطے میں سوچ، عمل، رویے، یاداشت، سماجی معاملات، ذہنی انتشار، جذبات، محرومیاں، اور حضرت انسان کو لاحق دیگر جملہ ذہنی عوارض اور محسوسات ہیں۔ اس میں انسان کی فطرت اور ذہانت کو ماپنے کا سامان موجود ہے اور ساتھ ہی ذہن کے پوشیدہ خانوں میں دفن ان کہی خواہشات کو ڈھونڈ نکالنے کا بھی۔

آپ کو یہ ادراک بھی ہوتا ہے کہ محبت کے ایکو سسٹم میں رکاوٹیں کس نوعیت کی حائل ہوتی ہیں اور ان کو دور کیسے کیا جائے۔ یہ بھی سیکھنے کو ملتا ہے کہ انسانی ارتقا میں سوچ اور رویوں سے متعلق مختلف نظریات کیا ریے ہیں۔ آپ کسی شخص کے اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے سے ہی اس کی شخصیت بارے اہم سراغ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سب چیدہ چیدہ چیزیں ہیں جن سے آپ کو بہر حال اس علم میں پہلے سے زیادہ دلچسپی ضرور ہوئی ہو گی۔ مگر میں ذاتی طور پر اس کا سب سے اہم مصرف یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی سوچ میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، آپ اپنے اطراف لوگوں کی ذہنی کیفیات کا بہتر اندازہ کر سکتے ہیں نتیجتاً آپ کا رد عمل بہتر ہو جاتا ہے اور آپ کے باہمی تعلقات کو ایک نئی تعمیری جہت ملتی ہے۔

علاوہ ازیں، سماجی مشکلات اور اندرونی انتشار میں گھرے گھٹن زدہ معاشرے میں سائیکالوجی کا علم آپ کو بہت لوگوں کو پھر سے خوش وخرم زندگی گزارنے میں مدد دینے کا موقع فراہم کرتا ہے جو کہ بذات خود صدقہ جاریہ ہے۔ آپ کی ذاتی زندگی میں افعال کی تکمیل میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے اور آپ انسانوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).