لوڈشیڈنگ: ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے میں پاکستان کو کیا نقصان ہے؟


پاکستان

PA Media
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے، تاہم گھریلو اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کے علاوہ باقی بچ جانے والی بجلی کے استعمال نہ ہونے کے باوجود حکومت اس فاضل بجلی کی قیمت ادا کرتی ہے جو نا صرف حکومتی خزانے پر بوجھ ہے بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اس کے علاوہ ایک طرف اضافی بجلی کی گنجائش اور دوسری طرف اس کی لوڈ شیڈنگ ایک بڑے تضاد کے طور پر سامنے آتا ہے۔

حکومت پاکستان کے جاری کردہ اکنامک سروے آف پاکستان برائے مالی سال 20-2019 کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 35000 میگاواٹ سے زائد ہے۔ تاہم پاکستان میں بجلی کی کھپت دس ہزار سے چوبیس ہزار میگاواٹ کے درمیان رہتی ہے جس کی طلب موسم اور دوسری وجوہات سے منسلک ہے۔

بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے پیدا کی جانے والی ضرورت سے زائد بجلی کا استعمال نہ ہونے کے باوجود حکومت ان بجلی کمپنیوں کو ادائیگی کی پابند ہے تو دوسری جانب تیل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اگر بجلی پیدا نہیں بھی کرتیں تو پھر بھی حکومت کی جانب سے انھیں ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق رقم فراہم کی جاتی ہے۔

تیل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے ان کارخانوں کو بجلی استمعال نہ کرنے کے باوجود ادائیگی پاکستان کے حکومتی خزانے اور عوام پر بوجھ ہے۔ ملک میں سستے ذرائع پانی، ہوا ، کوئلے وغیرہ سے پیدا ہونے والی بجلی کا صارفین کو خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ تیل سے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی کی خریداری اور اس کا استعمال نہ ہونے کے باوجود ادائیگی بجلی کے نرخوں میں کمی نہیں لا رہے۔

یہ بھی پڑھیے

بجلی بچائیے سے بجلی جلائیے تک۔۔۔

کراچی کالا ناگ سے کراچی الیکٹرک

بجلی سے ہلاکتوں کے مقدمات میں کے الیکٹرک کے سی ای او کا نام ڈالا جائے: سپریم کورٹ

بجلی کے کھپت نہ ہونے کے باوجود اس کی قیمت ادا کرنے کے خسارے سے بچنے کے لیے موجودہ حکومت نے حال ہی میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر کے ان شرائط کو بدلنے کا اقدام اٹھایا ہے۔

توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد پر حکومت کی جانب سے ادائیگی توانائی کے شعبے میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی استعداد پر ادائیگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے قرضے کی مالیت ایک ٹریلین روپے تک پہنچ چکی ہے جو ملک کے توانائی کے شعبے پر بہت بڑا بوجھ ہے۔

پاکستان

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار میں تو اضافہ ہوا تاہم اس کے مقابلے میں طلب میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان میں بجلی کا استعمال تجارتی اور گھریلو مقاصد کے لیے زیادہ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے انرجی مکس میں پانی، فرنس آئل، کوئلے، گیس، جوہری تونائی اور ہوا اور سورج سے پیدا ہونے والی بجلی شامل ہے۔

بجلی پیدا کرنے کی استعداد پر ادائیگی کیا ہے؟

بجلی پیدا کرنے کی استعداد پر ادائیگی ایک پاور پلانٹ کی بجلی پیدا کرنے کی پوری استعداد پر حکومت کی جانب سے ادائیگی ہے، چاہے اس پاور پلانٹ کہ جانب سے پیدا کی جانے والی بجلی حکومت خرید رہی ہو یا نہیں۔ اس میں دو طرح کی ادائیگی ہوتی ہے ایک ’فکسڈ کاسٹ‘ ہے تو دوسری ’ویری ایبل کاسٹ‘ ہوتی ہے۔

پاکستان میں پلاننگ کمیشن کے سابقہ ممبر انرجی اور توانائی کے امور کے ماہر سید اختر علی نے بتایا کہ پاکستان میں پاور پلانٹس کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کے مطابق ایک پلانٹ لگا ہوا ہے لیکن طلب نہ ہونے کے باوجود حکومت کو اسے بجلی پیدا کرنے کی استعداد کی ادائیگی یعنی ’کپیسیٹی پیمنٹ‘ ادا کرنی ہے۔

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنی اینگرو انرجی لمیٹڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2025 تک پاکستان میں طلب سے 3500 میگا واٹ بجلی زیادہ ہو گی۔

ملک میں بجلی پیدا کرنے والی ایک کمپنی حب پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر خالد منصور نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ حکومت کو ہاور پلانٹس کی استعداد کے مطابق ادائیگی کرنی ہوتی ہے ۔

ان کے مطابق حکومت کو ادائیگی کرنا اس لیے لازم ہے کہ یہ شرائط میں شامل ہے کہ پاور پلانٹس کی جانب سے پیدا کی جانے والی بجلی کی اسے ضرورت ہے یا نہیں، حکومت اس کی ادائیگی کی پابند ہے۔

پاور پلانٹ

رینٹل پاور پلانٹ (فائل فوٹو)

ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی خریدار صرف حکومت ہے اور وہ کسی اور کو خریدنے نہیں دیتی۔ اس لیے پاور پلانٹس پر جو بھی بجلی پیدا ہوتی ہے اس کی ادائیگی حکومت کے ذمہ ہے۔

معاشی امور کے ماہر فرحان محمود نے اس سلسے میں بتایا کہ نوے کی دہائی میں جب بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگائے گئے تھے تو اس وقت یہ شرائط میں شامل تھا کہ بجلی نہ خریدنے کی صوت میں بھی حکومت ان کمپنیوں کو ادائیگی کا پابند ہو گی۔

’اُس وقت بجلی کی سپلائی کم تھی اور ڈیمانڈ زیادہ۔ اس لیے یہ مسئلہ کھڑا نہیں ہوا۔ تاہم جب ملک میں گیس اور کوئلے کے بجلی کارخانے لگنا شروع ہوئے اور طلب سے زیادہ سپلائی شروع ہوئی تو یہ ایک مسئلہ بننا شروع ہوا۔ حکومت سستی بجلی کی فراہمی کے باوجود تیل سے بننے والی مہنگی بجلی بھی خریدنے کی پابند ہے۔ اگر یہ کارخانے بجلی نہیں بھی بنا رہے تو پھر بھی ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنا بھی اس پر لازم ہے۔‘

بجلی کی پیداواری استعداد کیوں بڑھی؟

پاکستان کچھ سال پہلے بجلی کے سنگین بحران سے دوچار رہا لیکن چند سالوں میں لگنے والے نئے پاور پلانٹس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

حکومت پاکستان کے جاری کردہ گزشتہ اکنامک سروے کے مطابق ملک میں بجلی پیدا ہونے کی استعداد 35000 میگا واٹ سے زائد ہے جو سنہ 2013 میں 22000 میگا واٹ تھی۔ سات سال میں پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں 64 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

سردیوں میں اس کی طلب دس ہزار اور اس سے بھی کم ہو جاتی ہے جب کہ گرمیوں میں اس کی طلب چوبیس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔

سید اختر علی نے اس سلسلے میں کہا کہ کچھ سال قبل بجلی کی پیداوار میں کمی نے ملک کو بحران کو شکار کیا تھا تو طلب پوری کرنے کے لیے نئے پاور پلانٹس لگائے گئے۔ ان پلانٹس کو لگانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بجلی کی تجارتی اور گھریلو طلب بڑھ رہی تھی اور اس کمی کو فوری طور پر پاور پلانٹس لگا کر دور کیا جا سکتا تھا۔

اینگرو انرجی لمیٹڈ کی رپورٹ میں نئے پلانٹس کے لگنے کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی وجہ سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا لیکن اس کی طلب میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

پاکستان

بجلی کی طلب کیوں نہ بڑھ سکی؟

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم اس کی مقابلے میں طلب میں اس طرح اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس صورتحال میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اپنی استعداد کے مطابق ادائیگیاں تو وصول کر رہی ہیں تاہم ان کی پیدا کردہ بجلی کی کھپت نہیں ہے۔

بجلی کی طلب نہ بڑھنے کے سلسلے میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی فاضل استعداد تو پیدا ہو گئی لیکن اس کی طلب میں اضافہ اس رفتار سے دیکھنے میں نہیں آیا جس رفتار سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

انھوں نے پاکستان میں معیشت کے شرحِ نمو میں کم اضافے کو اس کی وجہ قرار دیا جس کی وجہ کاروبار اور معیشت میں سست روی کا عنصر تھا۔ ان کے مطابق پچھلے دو سال میں تو یہ اضافہ اور بھی کم ہو گیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی اقتصادی شرح نمو منفی زون میں چلی گئی تھی جس کی ایک بڑی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کو قرار دیا گیا تھا۔

حب پاور کمپنی کے خالد منصور نے بھی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سست روی کو اس کی وجہ قرار دیا ہے ۔ اُن کے مطابق پاکستان کا مینوفیکچرنگ کا شعبہ زیادہ گروتھ نہیں دکھا سکا جس کی وجہ سے اس شعبے میں ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

تاہم انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی طلب میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان کے مطابق گرمیوں میں بجلی کی طلب 23، 24 ہزار میگاواٹ تک چلی جاتی ہے جو بجلی کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے پوری ہو رہی ہے۔

پاکستان

کیابجلی کی اضافی پیداواری استعداد پر ادائیگی ٹھیک ہے؟

پاکستان میں بجلی کی پیداواری استعداد میں اضافے پر حکومت سے اس بجلی کی ادائیگی وصول کرنا جو وہ پیداواری کمپنیوں سے خرید نہیں رہی ہے کے بارے میں بات کرتے ہوئے حب پاور کمپنی کے خالد منصور نے کہا کہ ملک میں بجلی کی واحد خریدار حکومت ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی بجلی خرید نہیں سکتا۔

ان کے مطابق جب ایک کمپنی اپنا پلانٹ لگاتی ہے تو اس پر لگائے گئے سرمائے سے منافع کمانا اس کا بزنس ہے۔ ’اگر حکومت آج آزاد منڈی میں ہمیں بجلی فروخت کرنے کی اجازت دے دے تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا لیکن وہ اگر خود ہی واحد خریدار ہے تو اسے پیداوار استعداد پر ادائیگی یعنی کپیسیٹی پیمنٹ کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔‘

سید اختر علی نے اس سلسلے میں کہا کہ اس پلانٹس کو لگاتے وقت کچھ غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے خیال میں پاور کے شعبے میں ضرورت سے زیادہ سرمایہ کاری کر دی گئی جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انھوں نے کہا امریکہ میں لاکھوں میگا واٹ اضافی بجلی بھی پیدا ہو جائے اور اس پر ادائیگی کی جائے تو وہ یہ افورڈ کر سکتا ہے تاہم پاکستان جیسے ملک میں ایک دو ہزار میگا واٹ اضافی بجلی جس کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے اس کی ادائیگی پاکستان جیسے وسائل کی کمی کے شکار ملک کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا کہ اب یہ اضافی پیداواری صلاحیت تو پاکستان میں موجود ہے جو فی الوقت ضرورت نہ ہو تاہم اگلے دس پندرہ سالوں میں یہ بجلی کی طلب پوری کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چار پانچ سال پاکستان میں بجلی کا بحران بہت سنگین تھا تاہم اس پلانٹس کے آنے سے فی الحال کسی بحران کو خطرہ نہیں ہے۔

آئی پی پیز سے ڈیل، کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟

پاکستان میں موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی پی پیز سے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق حکومت ان آئی پی پیز کی اس بجلی پر ادائیگی نہیں کرے گی جس کی کھپت نہیں ہے۔

اس سلسلے میں سید اختر علی کے کہا کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے جس کے ذریعے اس شعبے میں استعداد صلاحیت پر ادائیگی کی وجہ سے مالی بوجھ پر قابو پایا جا سکے گا۔

ایک انگریزی اخبار سے وابستہ توانائی کے شعبے پر کام کرنے والے رپورٹر احمد احمدانی کے مطابق آئی پی پیز سے حکومت نے ابھی تک صرف مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جسے معاہدے کی شکل دینے تک حکومت یہ ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔ ان کے مطابق فی الحال یہ معاہدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کہ وجہ وہ مالی مفادات ہیں جو اس شعبے سے وابستہ ہیں ۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بھی آئی پی پیز سے ڈیل کو ایک مثبت قدم قرار دیا جو اس شعبے میں کپیسٹی پیمنٹ کے ایشو کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ تاہم انھوں نے کہا اس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں ہونے والے نقصانات ہیں جو اس شعبے میں گردشی قرضوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

پاکستان میں بجلی اور ترسیل کے نظام میں خرابی کی وجہ سے گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ بجلی ترسیل اور تقسیم کے مرحلے میں ضائع ہو جاتی ہے جس کی ادائیگی بھی حکومت کو کرنا پڑتی ہے۔

اگر بجلی اضافی ہے تو لوڈشیڈنگ کیوں؟

پاکستان

پاکستان میں اضافی بجلی ہونے کے باوجود اس کی لوڈ شیڈنگ سے باہر نہیں نکل سکا۔ ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ تقسیم اور ترسیل میں ضائع ہونے والی بجلی ہے۔ پاور پلانٹس میں پیدا ہونے والی بجلی کو ملک بھر میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذریعے تقسیم اور ترسیل کیا جاتا ہے تاہم یہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں تقسیم اور ترسیل کے عمل میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرتی ہیں۔

اس سلسلے میں پاور کے شعبے کے ریگیولیٹر نیپرا نے ان ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو سنہ 2019 کی ’اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ‘ میں بجلی کے ہائی لاسز علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی پالیسی کے بارے میں خبردار کر چکا ہے۔

بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں ضائع ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے سی پیک کے منصوبوں میں ایک بڑا منصوبہ نئی ٹرانسمشن لائن بچھانے کا بھی ہے تاکہ بجلی کی تقسیم و ترسیل کے نظام کو بہتر بنا کر بجلی کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp