ایلان مسک جیسا اور کون؟


امریکہ میں پشتینی رئیس بہت تھوڑے ہیں۔ کل تئیس، اس میں بھی وینڈربلٹ گھرانہ سب سے پرانا ہے۔ نیویارک کا گرینڈ سینٹرل اسٹیشن جو آپ نے کئی فلموں میں دیکھا ہوگا ان ہی کا تعمیر کردہ ہے۔ امریکہ میں سب سے پہلے ڈینم جینز بھی انہیں لوگوں نے بنائی تھی گو ان کا اصل کاروبار ریلوے لائن اور ریل سروس کا تھا۔

دنیا کے ایک اور عظیم الشان اسٹورز کی چین کے مالکان والٹن فیملی ہے۔ آپ نے وال مارٹ کا نام تو سنا ہے نا۔ تیل کی تجارت سے سے جڑا ایک مشہور خاندان جارج بش کا ہے۔ اس کا شمار امریکہ کی اشرافیہ میں ہوتا ہے۔ اس گھرانے نے ایک سی آئی اے کا چیف، دو صدر ، دو گورنرز مملکت امریکہ کو عطا کیے اسی وجہ سے بش کی والدہ باربرہ بی بی سے۔ ایک صحافی نے جب ان سے پوچھا کہ “اتنے سارے طاقتور افراد کوآپ نے کیا کھاکر پیداکیا تھا؟”۔ ہمارے افسروں، مشیروں، وزیروں کی طرح غصہ ہونے کی بجائے مسکراکر کہنے لگیں “بہت کچھ۔ “۔

ایسا نہ تھا کہ وہ چاہتیں تو پاپا جونز کی طرح صحافی کو نوکری سے نکلوا سکتیں۔ کالے سفید ڈالے بھیج کر انہیں سی آئی اے کے ذریعے اٹھوا کر پہلے بٹ گرام ایر بیس اور وہاں سے گھر والوں کو بتائے بغیر شمالی علاقہ جات اس کی تازہ بیوہ کزن کے ساتھ تعطیلات پر بھجوا سکتی تھیں۔ ان کا جواب ان کے خاندانی ہونے کی دلیل اور اپنی طاقت پر یقین کا مظہر ہے ورنہ ہماری طرف تو سیاسی اولادوں کی انا اتنی نازک مزاج ہوتی ہے کہ سمجھانا پڑتا ہے کہ دشمنی سنگ سے اور بدن شیشے کا۔ نام کمانے کا شوق ہے تو خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیا کریں

ہمارا آج کا موضوع امریکہ کی اولڈ منی نہیں بلکہ ان2604 بلینئرز میں سے بھی صرف ایک کا ذکر کرنا ہے جو درحقیقت ہے تو ایک Visionary مگر کم بخت دولت مند بھی بہت ہے۔ نام ہے ایلن مسک۔

 ایسے اعلانیہ ارب پتی جو سینہ ٹھوک کر اترا کر کہتے ہوں “او اسی ارب پتی آں۔ دولت اسی محنت تے ذہانت نال کمائی ہے”۔ پاکستان کی اشرافیہ اور تجار، سرکار کے مال میں چوریاں کرکے دولت جمع کرتے ہیں۔ چھپ چھپا کر خرچ کرتے ہیں۔ لندن میں بھی آذان کا وقت ہوتے ہی ملاـ شلوار مزید موزوں سے اوپر کر کے دوپلی ٹوپی پہن کر نماز میں چوریاں معاف کرانے کے لیے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔

ایلن مسک کا تعارف کرانے سے پہلے برق رفتاری سے امریکہ کے اس معاشی انقلاب کے چند کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس سے ماحول بن جائے گا۔ ان کرداروں کا شمار ان ارب پتی افراد میں ہوتا ہے جو امریکہ کے پہلی نسل کے بلیئنرز کلب کے چھپن فیصد افراد میں شامل ہیں۔ ان افراد میں جن کی دولت خیرہ کر دیتی ہے وہ ارب پتی ٹیک بیلئنئرز کہلاتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہاں دوسروں کی دولت کا شمار کرکے اپنی کم مائیگی پر پردہ ڈالنا نہیں۔ امریکہ میں ایک وصف ہمیں حیران کرتا ہے وہ فرد سے لے کر گروہ یا کاروباری ادارے تک ایک آئیڈیا کو لے کر استقامت سے آگے بڑھنا اور اس پر عمل کرکے اپنی خوش حالی میں اضافہ کرنا ہے۔

پچھلے دس برسوں میں کمال یہ ہے کہ جو ادارہ مال کما کے دے رہا ہے اس کے پاس اپنی کوئی پراڈکٹ نہیں۔ مثلاً فیس بک کا اپنا کوئی مواد نہیں۔ ایمزون اپنی کوئی پراڈکٹ نہیں بیچ رہا۔ ایر بی اینڈ بی کا اپنا کوئی گھر نہیں۔ اوبر کی اپنی کوئی گاڑی نہیں۔ ان کی دولت، دہلی والوں کے محاورے میں، دادا جی کی ایک ایسی فاتحہ ہے جو حلوائی کی دکان پر پڑھی گئی اور بارگاہ الہی میں مقبولیت کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ گئی۔

امریکہ میں نیپولین ہل نامی ایک صحافی نے سن 1937 میں ایک کتاب لکھی تھی Think and Grow Rich۔ امریکہ میں یہ The Great Depression  کے معاشی بحران کا برس تھے۔  ہر امریکی اپنی کھوئی ہوئی دولت واپس کما کر مزید مالدار ہونا چاہتا تھا۔ مصنف کا کہنا تھا کہ وہ تمام افراد جو ارب پتی بننا چاہتے ہیں ان میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ پہلے خواب دیکھتے ہیں۔ پھر منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر دولت کمانے میں لگ جاتے ہیں۔

امریکہ کے موجودہ ارب پتی افراد جن کی اکثریت پہلی نسل کے رئیس ہیں جن کا اس فارمولے کی روشنی میں جائزہ لیں تو یہ بہت شیخ چلی انداز لگتا ہے۔ انگریزی میں ایسی منصوبہ سازی  کوPollyannaish   کہتے ہیں۔ ہمارے دیس میں وزارت خزانہ اس کی بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ ٹماٹر سترہ روپے میں بیچ کر خود گندم اور چینی کی طرح اسے سو روپے میں خریدتی ہے

امریکہ میں ایک کمپنی ہے Wealth-X  جو دنیا بھر میں اپنے کھوجیوں کے ذریعے اس دولت کا حساب رکھ رہی ہوتی ہے جو ارب پتی کما رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ریسرچرز اس راز تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے جیسے میمن ،فوج اور طوائفیں اور امریکہ کے ارب پتی اس حکمت عملی پر متفق ہیں کہ اعلی تعلیم پہلے ضمیر کا اور پھر فیصلوں کا بوجھ بن جاتی ہے۔ آگہی کی اس منزل پر جلد پہنچ جانے کی وجہ سے بہت کم ارب پتی کالج کی تعلیم مکمل کر پائے۔ ان سب کی اولین پسندیدہ ہارورڈ اور دوسرے نمبر پر اسٹینفورڈ کی جامعات ہیں۔ اسی طرح ان کی پہلی پسندیدہ ڈگری انجیئنئرنگ اور اس کے بعد بزنس ایڈمنسٹریشن ہے۔ ان میں یہودی النسل Carl Icahn کے پاس فلاسفی کی اور چینی ارب پتی علی بابا کے جیک ما کے پاس شنگھائی یونیورسٹی ڈگری ہے۔

ان دنوں امریکہ کے ان چار سینٹی ملینئیرز کے حامیوں میں ایسی ہی نوک جھونک چل رہی ہے جیسی کبھی اداکارہ میرا اور بھتیجی دشمن ایک طاقتور سیاست دان کے پلنگ کی پائنتی سے جڑی اداکارہ میں چلا کرتی تھی۔ گو یہ حامی انگریزی ویسی نہیں بولتے جیسے میرا بولتی تھی۔ کسی فتنہ پرور رپورٹر نے میرا کو چھیڑ دیا کہ” وہ ماں دیے موم بتئیے کہتی ہے کہ وہ نمبر ون ہے آپ نہیں” میرا غصے سے تلملا کر کہنے لگی  Forget her she is son of b—h۔

یہ چار ارب پتی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی مہربان ہو جائے تو پاکستان کا سارا قرضہ معاف ہوسکتا ہے۔ پاکستان چاہے تو ہانگ کانگ کی طرح اس جملہ قرضے کی ادائیگی کے عوض کراچی کو سو سال کی لیز پر ان میں سے کسی ایک کو دے سکتا ہے۔ سو سال قوموں کی زندگی میں کیا ہیں۔ ہانگ کانگ بھی تو چین کو واپس مل گیا۔ پی ٹی آئی کو یوں نہ برسات میں ندی نالے صاف کرانے ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر پی پی اور ایم کیو ایم سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ یہ چار ارب پتی، جیف بیزو، بل گیٹس ، مارک زوکربرگ اور ایلن مسک ہیں۔

جیف بیزو کا تعلق Amazon سے ہے۔ ان کے عروج کی ابتدا سنہ 1995 میں بطور ایک آن لائن بک اسٹور کے ہوا تھا۔ چار سال بعد چین کے جیک ما علی بابا والے ان کے مقابل آ گئے۔ اب علی بابا ان کو ایک مرتبہ ہرانے کے بعد پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس طرح بیزو کوecommerce  کا پہلا امام کہا جا سکتا ہے۔ اب صورتحال یہ کہ چالیس فیصد آن لائن تجارت امریکہ میں ایمزون کے اور ساٹھ فیصد ایسی ہی مارکیٹ چین میں علی بابا کے پاس ہے۔ مقدار اور نمبر کے حساب سے دیکھیں تو علی بابا بازی لے جاتا ہے۔

بل گیٹس ، مارک زوکربرگ کو پاکستانی ایسے ہی جانتے ہیں جیسےفیاض چوہان اور مراد سعید کو جانتے ہیں، سو ان پر وقت ضائع نہیں کرتے۔ بل گیٹس پر کورونا وائرس کے دنوں میں اس کے سازشی رول اور پولیو کے قطروں سے کے پی کے بارآور، زور آور مردوں میں پھیلائی ہوئی نامردی کے شبے میں اکثر پاکستانی انہیں یہودی سمجھتے ہیں۔ ویسے وہ کیتھولک عیسائی ہیں مگر ویسے ہی جیسے ملک ریاض اور رزاق دائود سنی مسلمان ہیں۔

آئیں ایلن مسک کی بات کریں۔

ایلن مسک نے دو ہجرتیں کیں پہلے جنوبی افریقہ سے کینیڈا آئے تھے وہاں سے امریکہ۔ سندھ میں ہوتے تو ڈومی سائل کی وجہ سے اور پولیس یا ریونیو کھاتے میںسرکاری نوکری ملنا مشکل ہوتا۔ کینیڈا میں ان کے دوست پاکستان کے نوید فاروق بنے رہے۔

ایلن مسک کا مقابلہ ان چار ارب پتی حضرات یعنی بل گیٹس ، وارن بفٹ، بیزو، لیری ایلسن کی دولت سے ضرور ہوتا ہے۔ وہ اس حساب سے جیف بیزو، بل گیٹس اور وال مارٹ والے وارن بفٹ سے چوتھے نمبر پر ہیں مگر ان باقی حضرات کو اس پائے کا Visionary  نہیں مانا جاتا۔ ان کی شہرت ایک آئیڈیا سے مال بنانے والے تاجر کی ہے۔

ایلن مسک کے مداح ان کی مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت اور سوچ میں کی وجہ سے انہیں آئن سٹائن اور سٹیو جاب والے پلڑے میں تولتے ہیں۔ اسٹیو جاب جنہوں نے ایپل قائم کی ان سے وابستہ کمیونکشن کی دنیا کا ایک بڑا نظام ہے۔ ایپل کمپنی جس کا مارکیٹ کیپٹل ایک ٹریلئین ڈالر سے زائد کا ہے دنیا کے 195 ممالک میں سے 181 ممالک سے بڑے جی ڈی پی کی کمپنی ہے۔

ایلن مسک جنہیں مائیکروسوفٹ کے بل گیٹس کی طرح کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔ یوں بہت عجیب ہیں کہ بارہ سال کی عمر سے اپنا کھانا خود بناتے تھے۔ اسی کھانا بنانے میں جنوبی افریقہ میں ویڈیو گیم کا پروگرام بھی بنا کر پانچ سو ڈالر میں بیچ دیا اسٹین فورڈ یونی ورسٹی میں جب energy physics. کے مضمون میں پی ایچ ڈی کے لیے چن لیے گئے تو انہوں نے دو دن بعد اس پروگرام سے یہ کہہ کر چھٹکارا لیا کہ پی ایچ ڈی ایک فضول تعلیمی بوجھ ہے۔ اس طرح کی ڈگریوں سے تخلیقی عمل میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ اسی دوران چونکہ انٹرنیٹ نے اپنا چہرہ کرا دیا تھا اس لیے انہوں نے ایکZip2 Corporation  بنائی۔ یہ شہر کی ڈیجٹیل گائیڈ تھی۔ اسے ان کے بھائی اور دوست کوری نے بنایا تھا اور کل لاگت چونتیس ہزار ڈالر تھی۔ اس کمپنی کو چار سال بعد 37 کروڑ ڈالر کا بیچ دیا۔ دونوں بھائیوں نے اس کے بعدPayPal  کمپنی بنائی اور ای۔ بے نامی کمپنی کو یہ سو کروڑ ڈالر میں بیچ دی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح وہ ایک خیال کو تجارتی ادارے میں ڈھال کر دوسرے تجارتی خیال کا سفر طے کرکے اس سے ناقابل یقین منافع کما لیتے ہیں۔

یہاں سے انہوں نے اگلا قدم خلائی سفر کی جانب رکھا۔ ناسا کے جو قیمتی راکٹ خلا میں جاتے تھے وہ واپسی پر سمندر میں گر کر برباد ہوجاتے تھے۔ ایک پرائیوٹ فرم SpaceX  نے امریکی خلائی ادارے ناسا سے تعاون کرکے ان کے خلائی اسٹیشنوں کو اپنے نظام سے سروس کرنے اور ایسے راکٹ بنا کر فراہم کرنا شروع کیے جو ہوائی جہاز کی طرح لینڈنگ پر برباد نہیں ہوتے۔

ایلن مسک کا ارادہ مریخ پر بستیاں بسانے کا ہے۔ خلا سے متعلق کام خود اتنا بڑا ہے کہ اس کو سنبھالنا آسان نہیں مگر اس سال انہوں نے ٹیسلا نامی کار بنا کر بھی دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ ٹیسلا ایک سریبن مہاجر تھے جو امریکہ کے شہر ی بن گئے تھے۔ وہ بھی کچھ ایسے ہی کام کیا کرتے تھے۔ اپنی کار اور بیٹری فیکٹری کا نام ٹیسلا رکھنے میں بہت سی مصلحتیں ہیں۔ ٹیسلا کاریں، مختلف نوعیت کی بیٹریاں اور شمسی پینلز بناتی ہے۔ بات یہاں رک جاتی تو بہت تھا مگر انہوں نے 2017 میں The Boring Companyبنا لی۔۔ یہ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے برق رفتار مسافت کا نظام ہے۔ اسے Hyperloop کا نام دیا گیا ہے

فوربز میگزین نے حالیہ اشاعت میں ایلن مسک کی ایک ایجاد Neuralink پر مضمون چھاپا ہے۔ یہ ان کی دماغ اور کمپیوٹر کے تال میل سے بننے والی پراڈکٹس کی کمپنی ہے وہ معذور افراد جن کا دماغ کا رابطہ ان کے بدن کے دیگر کسی حصہ سے منقطع ہوجانے کی وجہ سے معذوری آگئی ہو اس حصہ کو دماغ میں نصب ایک چپ کے ذریعے مطلوبہ حرکت کا پیغام رسانی کا نظام وضع کیا جائے گا۔ ریڑھ کی ہڈی اس حوالے سے ان کا پہلا ہدف ہے۔ یوں کئی افراد جلد ہی وہیل چیئر کی مصیبت سے نجات پالیں گے۔

ان ایجادات کے بعد ممکن ہے ایلن مسک کے مداح یہ کہہ کر بات لپیٹ دیں کہ زرداری اور نواز شریف دونوں کا آئندہ سیاست میں کوئی رول نہیں البتہ ہمارے ایلن مسک لیونارڈو ڈا ونچی کے برابر کے جینئیس اور بہت مالدار انسان ہیں۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 95 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan