حزب اختلاف کی اے پی سی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟


کیا حزب اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس او راس کا 26 نکاتی مشترکہ اعلامیہ واقعی حکومت کے لیے خطرہ کی گھنٹی کو بجاتا ہے او رکیا واقعی اس حکومت کا طبل جنگ بجنے والا ہے؟ بظاہر تو حزب اختلاف کے بڑے راہنماؤں نے کچھ ایسے ہی خیال پیش کیا تھا کہ یہ اے پی سی نہ صرف فیصلہ کن ہوگی بلکہ حکومت کا جانا ٹھرجائے گا۔ دلیل یہ دی گئی تھی کہ ایک دو نکات کو بنیاد بنا کر یہ کانفرنس حکومت کی رخصتی کا عملی طور پرنکتہ آغاز ثابت ہوگی۔

لیکن 26 نکات پر مبنی لمبے چوڑے اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ فوری طور پر کچھ تبدیل نہیں ہونے والا او رنہ ہی اس کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ یا اکتوبر سے جنوری تک کی تحریک کے عمل سے حکومت کو کوئی بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ جہاں اسے اچھی طرز کی حکمرانی کے بحران کا سامنا ہے ہے وہیں اسے ایک اچھی حزب اختلاف کے نہ ہونے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کسی بھی حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک 26 نکاتی ایجنڈے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک یا دو نکاتی ایجنڈے کی بنیاد پر چلتی ہے اور بنیادی طور پر مقاصد میں حکومت کی تبدیلی یا نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ محض حکومت یا وزیر اعظم سے مستعفی ہونے یا نئے انتخابات کا مطالبہ یا پی ڈی ایم یعنی ”پاکستان جمہوری تحریک“ کے نام کو بنیاد بنا کر نئے سیاسی اتحاد کی تشکیل میں بظاہر کوئی سیاسی دم نظر نہیں آتا۔ ان ہی دونوں جماعتوں نے عملی طو رپر ماضی میں جو سلوک بطور اتحاد میثاق جمہوریت سے کیا وہ بھی تجزیاتی پہلوؤں کا تقاضا کرتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اپنے اقتدار میں کیسے میثاق جمہوریت او رجمہوری نظام کو اسٹیبلیشمنٹ یا ذاتی مفاد کی بنیاد پر نقصان پہنچایا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ فوری طور پروزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے، اسمبلیوں سے فوری مستعفی ہونے کی بجائے معاملات کو الجھانے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی عملی طور پر کیونکہ سندھ حکومت کا حصہ ہے وہ کبھی بھی ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی جس سے اس کی اپنی سندھ حکومت کا مستقبل مخدوش ہو۔ فضل الرحمن اس کانفرنس میں بھی وہ کچھ حاصل نہیں کرسکے جو وہ چاہتے تھے کہ دونوں بڑی جماعتیں فیصلہ کن اعلانات کرسکیں۔ کچھ دن قبل مولانا فضل الرحمن کے بقول یہ دونوں جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن اس حکومت کی سہولت کار کا فریضہ انجام دے رہی تھیں، اب مولانا ان دونوں جماعتوں کے بارے میں کیا کہیں گے یہ بھی جلد سننے کو ملے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے دو برسوں میں تین ایسے مواقع سامنے آئے جہاں مشترکہ حزب اختلاف حکومت کو شکست دے سکتی تھی۔ اول سینٹ کے چیرمین اور ڈپٹی چیرمین کے انتخابات، دوئم چیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور سوئم ایف اے ٹی ایف سے جڑے اٹھ بل پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی جیت واضح کرتی ہے کہ حزب اختلاف خود تقسیم ہے او راس کا اپنے ہی لوگوں پر اعتماد نہیں یا پس پردہ قیادتوں نے وہی کچھ اسٹیبلیشمنٹ کے ایما پر کیا جو ان کو کام سونپا گیا تھا۔

اسی کھیل میں حزب اختلاف کے ہاتھوں مرحوم حاصل بزنجو کو بھی ان لوگوں نے سیاسی طور پر رسوا کیا۔ اب اکتوبر سے جنوری تک جلسوں، ریلیوں، دھرنا، لانگ مارچ، وزیر اعظم و اسپیکر کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی تحریکیں ظاہر کرتی ہیں کہ حزب اختلاف کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر کہاں کھڑے ہیں او ران میں کس حد تک سیاسی طاقت ہے کہ وہ تن تنہا حکومت کو گراسکیں یا تبدیل کرسکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کا مطالبہ سیلکٹرزیعنی فوجی اسٹیبلیشمنٹ سے ہے کہ وہ خود ہی عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج دے او رمتبادل کے طور پر ان کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کرلے کیونکہ ہم عمران خان کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارگر ہوسکتے ہیں۔ یعنی حزب اختلاف کی پاس بھی سیاسی دوائی عوام کی نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ ہی کی ہے او ران ہی سے اپنے لیے علاج تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر ہی اس کانفرنس کی بڑی تقریر تھی۔ ان کا سیاسی بیانیہ اہمیت رکھتاہے۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ لڑائی پاکستان میں نہیں بلکہ لندن میں بیٹھ کر لڑنا چاہتے ہیں۔ ان کی تقریر کا ایک بڑا تضاد یہ بھی ہے کہ خود ان کے چھوٹے بھائی اور پارٹی کے صدر شہباز شریف مسلسل اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اپنی سیاسی پینگیں بڑھارہے ہیں، لیکن نواز شریف کو شہباز شریف کے کردار پر کوئی پریشانی نہیں اور نہ ہی وہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ پس پردہ رابطوں یا سازشوں کے اس کھیل میں شہباز شریف کی کوئی باز پرس کرتے ہیں جو خود ایک تضاد ہے، جو نواز شریف کے بیانیہ کے برعکس بھی ہے۔

البتہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کانفرنس سے نواز شریف کی اہمیت بڑھی ہے او رانہوں نے خود کو سیاسی اور قانونی محاذ پر اور زیادہ مشکل میں ڈال دیا ہے۔ شہباز شریف بھی ان حالات میں کوئی زیادہ خوش نہیں اور ویسے بھی مسلم لیگ ن کا مجموعی کردار نواز شریف کے سیاسی بیانیہ کا نہیں بلکہ وہ اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کرکے ہی سیاسی میدان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے خاص طور پر مسلم لیگ ن کے ارکان وہ نہیں سوچ رہے جو نواز شریف یا مریم سوچتی ہیں۔

حزب اختلاف اس نکتہ کو بھول جاتا ہے کہ اگر واقعی اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور سول بالادستی کی جنگ کو لڑنا ہے تو وہ موجودہ سیاسی قیادت کے طرز عمل، کمزور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام، قیادت کے تضادات، کارکنوں سے لاتعلقی، پس پردہ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کچھ لو او رکچھ دو کی بنیاد پر کھیلے جانے والا عمل سمیت ایک متبادل نظام کی درست تصویر کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ جو 26 نکاتی اعلامیہ ہے تو ایک سوال تو بنتا ہے کہ یہ دونوں بڑ ی سیاسی جماعتیں بار بار اقتدا ر کی سیاست کا حصہ رہیں تو ان کی اپنی کیا ایسی کوششیں تھیں کہ انہوں نے ان نکات کو بنیاد بنا کر واقعی کوئی بڑی سیاسی محاذ پر آئین، جمہوریت اور سیاست کی خدمت کی تو جواب نفی میں ملے گا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں یہ سیاست، جمہوریت، قانون کی بالادستی، شفاف حکمرانی کی باتیں ہمیشہ حزب اختلاف کی سیاست میں بالادست نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ ہی جماعتوں کو جیسے ہی اقتدار ملتا ہے تو ان کے سیاسی تیور بھی بدل جاتے ہیں اور ترجیحات بھی۔

اس وقت حزب اختلاف کی سیاست کا بنیادی نکتہ اسٹیبلیشمنٹ کے فیصلوں کے گرد ہی گھومتا ہے او ران کی کوشش رہی ہے اور اب بھی ہے کہ کسی طرح سے حکومت، وزیر اعظم اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ پیدا کیا جائے۔ کیونکہ حزب اختلاف جانتی ہے کہ اس ٹکراؤ کو پیدا کیے بغیر عمران خان کی حکومت کو بھیجنا ممکن نہیں۔ نواز شریف نے یہ تو کہہ دیا کہ اسٹیبلیشمنٹ انتخابات سے قبل یہ طے کرلیتی ہے کہ کس کو انتخا ب جتانا ہے او رکس کو ہرانا ہے، کاش وہ یہ بھی کھل کر تسلیم کرتے کہ وہ خود بھی ماضی میں اسی کھیل کا حصہ رہے ہیں۔ فی الحال ایسے ہی لگتا ہے کہ حزب اختلاف سیاست کے اس کھیل میں پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتی رہے گی اور کوئی بڑی سیاسی تبدیلی فوری طور ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).