آگے آگ کا دریا ہے


میاں نواز شریف کا اے پی سی خطاب غیر متوقع، ہوش رہا اور بعض حلقوں کے نزدیک مجنونامہ مگر جرات مندانہ تھا۔ بادی النظر میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ نواز شریف نے بے حد حساس معاملات کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق کے ہاتھوں اپنی برطرفی سے قبل انہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر نے ایوان صدر کے مقدس مقام کو سازشوں کے ذریعے ناپاک بنا دیا ہے۔ 2017ء میں عدالت کے ہاتھوں کے بعد انہوں نے ”مجھے کیوں نکالا“ کی تحریک چلائی تھی۔ اگلے سال عام انتخابات میں شکست کے بعد انہوں نے ایک تحریک ”ووٹ کو عزت دو“ کے عنوان سے بھی شروع کی تھی لیکن مقتدرہ کی شدید گرفت اور عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی تھی۔

اگرچہ اس بار نواز شریف نے نہایت واضح لفظوں میں مقتدرہ کو چیلنج کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں سے ہے۔ بے نظیر کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے وقت بھی انہوں نے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا لیکن وطن واپسی اور عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر یوٹرن لیا اور اقتدار کے حصول کے لئے مقتدرہ سے مل گئے بلکہ میمو اسکینڈل کے مدعی بن کر کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پیش ہوئے۔ اگرچہ ان کوششوں کے نتیجے میں انہیں تیسری بار اقتدار ملا لیکن لانے والوں کے ساتھ ان کی بنی نہیں جس کے نتیجے میں انہیں کرپٹ نا اہل اور بے ایمان قرار دے کر رسوا کن انجام سے دوچار کیا گیا۔

اے پی سی سے خطاب کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف ہمیشہ کے لئے تائب ہو گئے ہیں۔ ضیاء الحق کی روح ان کے قفس عنصری سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی ہے۔ وہ پاکستان کے نظریاتی اور جمہوری سمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے کرنا چاہتے ہیں۔ لندن میں تقریباً ایک سال کی جلاوطنی کے دوران انہوں نے بہت غوروفکر کیا ہے۔ کئی دانا لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمانی اساس کو بچایا جائے۔ 1973ء کے آئین اور 18ویں ترمیم کو برقرار رکھا جائے۔ انہوں نے براہ راست مشورہ دیا ہے کہ فوج خود کو سیاست سے الگ رکھے اور عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرے۔ نواز شریف نے 55 منٹ کے خطاب میں کسی بھی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ان کے خطاب میں بلا کی روانی، ربط اور مقاصد واضح تھے اگر عرفان صدیقی نے یہ خطاب لکھا ہے تو انہوں نے کمال کیا ہے لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف نے جو بڑی جنگ چھیڑ دی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟

نواز شریف نے جو مقاصد بیان کیے ہیں وہ وقتی تحریکوں سے حاصل ہونے والے نہیں کیونکہ 73 برس سے اس ملک میں کبھی جمہوریت نہیں آئی۔ چار بار براہ راست مارشل لا لگے اور 1988ء سے اب تک جو منتخب حکومتیں آئیں وہ اصل میں منتخب نہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا۔ ہر وزیراعظم کو رسوا کر کے اقتدار سے باہر کیا گیا۔ نوازشریف اور زرداری نے ملکر پی ڈی ایم کے نام سے گیارہ جماعتوں کا جو الائنس بنایا ہے یہ ملک کی تاریخ کا پہلا اتحاد نہیں ہے۔ نئے پی ڈی ایم میں ایسا کیا نیا ہوگا جو گزشتہ اتحادوں میں نہیں تھا؟ یہ کوئی نہیں جانتا لیکن نئے اتحاد خطرات سے دوچار رہے گا کیونکہ مد مقابل کوئی اناڑی نہیں ہے اس کے پاس طاقت اور تقسیم کرنے کا ہنر بھی ہے

مثال کے طور پر اے پی سی کے پورے سیشن میں میاں شہباز شریف کی شکل دیکھنے والی تھی وہ بڑے بھائی کے ہر جملے کے بعد ایک نئے کرب کا شکار دکھائی دیتے تھے بڑے بھائی نے ایک طرح سے چھوٹے بھائی اور اس کی سیاست پر خود کش حملہ کیا ہے کیونکہ شہباز شریف صلح کل ہیں۔ وہ مقتدرہ سے محاذ آرائی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر اکتوبر میں تحریک کی نوبت آئی تو میاں شہباز شریف اس سے پہلے علیل ہو جائیں گے اور قرنطینہ میں چلے جائیں گے۔ ان کی بھی کوشش ہو گی کہ وہ علاج کے بہانے لندن جائیں جیلوں اور حراستوں سے باہر نکلنے کا یہ گر شریف خاندان کا خاص ہنر ہے جسے یقینا شہباز شریف بھی آزمانے کی کوشش کریں گے۔ حکومت کے لئے ان کا جانا اچھا ہوگا تاکہ پیچھے مسلم لیگ (ن) جم نہ سکے۔

البتہ اگر ان کی جگہ مریم بی بی نے تحریک کی قیادت کی تو حکومت کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مریم بی بی اس وقت سب سے مقبول ترین سیاسی شخصیت ہیں انہیں دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ سکتے ہیں جس سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو گا ان کے بعد بلاول کافی مقبول ہیں اگر ان کا ایکتا قائم رہا تو وکلاء جیسی تحریک چل سکتی ہے اسی طرح مولانا کے پاس عوامی اجتماعات اور ریلیوں کے لئے افرادی قوت بہت ہے تحریک شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں اس میں دراڑیں پڑنے کا امکان بھی ہے مخالف قوتیں چاہیں گی کہ شخصی ٹکراؤ پیدا ہو مولانا نے پہلے ہی کہا ہے کہ استعفوں کا آپشن استعمال کیا جائے اس کے لئے تمام پارٹیاں اپنے اراکین سے استعفے لے کر ان کے پاس رکھ دیں تاکہ دونوں جماعتیں اپنے وعدوں سے پھر نہ جائیں۔

مولانا کا خیال ہے بلکہ تین بڑوں کا خیال ہے کہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کو صرف اجتماعی استعفوں سے روکا جا سکتا ہے ورنہ حکومت کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہو جائے گی جس سے پارلیمان میں اس کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ نواز شریف کے خطاب سے ظاہر ہے کہ انہوں نے کشتیاں جلا دی ہیں لیکن کشتیاں دریائے راوی کے کنارے جلانا پڑیں گی۔ دریائے ٹیمز کے کنارے کشتیاں جلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اے پی سی کا 26 نکاتی ایجنڈا طے کر کے آصف علی زرداری نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے اس کے نتیجے میں انہیں جلد جیل جانا پڑ سکتا ہے اور سندھ حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔

یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر میاں صاحب نے بیچ منجدھار میں ساتھ چھوڑ دیا تو زرداری کی نیا ہمیشہ کے لئے ڈوب جائے گی یہی وجہ ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے طویل مشاورت کی ہے اور ایک دوسرے سے یقین دہانیاں حاصل کر لی ہیں۔ اس سلسلے میں بعض دوستوں نے اور سفارتی ذرائع نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے جو شوشے چھوڑے ہیں ان میں وہ یہ دور کی کوڑی بھی لائے ہیں کہ چین سی پیک کی وجہ سے ناراض ہے اور اسے سی پیک کے سربراہ کی تقرری پر اعتراض ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں جب چین کے سفیر نے آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے انہیں سی پیک کا بانی قرار دیا اور چین میں آ کر علاج کی پیشکش کی وہ اس ناراضگی کا مظہر تھی۔

سوشل میڈیا نے یہ افواہ بھی چلائی ہے کہ گزشتہ ماہ ایک عرب سربراہ نے دو بار میاں نواز شریف سے رابطہ قائم کیا تھا جس کے بعد نواز شریف نے طویل چپ توڑ دی اور حکومت گرانے کے لئے عملی میدان میں آنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان افواہوں میں کوئی حقیقت ہے کہ نہیں، یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن کوئی ایسی وجہ ضرور ہے کہ اچانک نواز شریف نے نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ پورے مقتدرہ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح زرداری نے آج تک گھاٹے کا کوئی سودا نہیں کیا ہے البتہ بلوچستان حکومت گرانا اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں سرکاری امیدوار کو سپورٹ کرنا ان کی سنگین غلطی تھی۔ ماضی میں یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو نیچھا دکھانے کے لئے مقتدرہ کا سہارا لیتی رہی ہیں لیکن اب کی بات اور ہے۔ یہ ان کی بقا کی جنگ ہے اگر وہ وقت کا دھارا نہ بدل سکے تو ہمیشہ کے لئے سیاسی میدان سے معدوم ہو جائیں گی لہذا انہیں آگ کے دریا میں کودنا پڑے گا۔

جو نیا میثاق ہونے جا رہا ہے وہ ملک کا طرز حکمرانی طے کرنے کے لئے ہوگا تاکہ سیاست میں طاقتور حلقوں کا عمل دخل ختم ہو جائے۔ یہ ایک دیرینہ خواہش ہے بلکہ خواب ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے لیکن یہ بات طے ہے کہ آئندہ سال مارچ تک ملک میں سیاسی طلاطم اور طوفان عروج پر ہوں گے۔ ایک نئی جنگ اور اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز ہو گا اس سے حکومت کو بڑا دھچکہ لگے گا کیونکہ معیشت پہلے سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ سیکورٹی کی دگرگوں صورتحال اور سیاسی عدم استحکام سے حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ حکومت کو مالی اعتبار سے ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ادائیگیوں کا توازن بگڑ جائے گا ٹیکس کم جمع ہوں گے اور قرضوں کی اقساط ادا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔

نواز شریف نے حمود الرحمان کمیشن کی سفارشات کا جو ذکر کیا ہے وہ دراصل ایک دھمکی ہے اسی طرح 1947 ء سے اب تک کے حالات سانحات اور المیوں کو منظر عام پر لانے کے لئے ٹروتھ کمیشن بنانے کی جو تجویز پیش کی ہے وہ ایک اور دھمکی ہے تاکہ پتہ چلے کہ ملک کی پسماندگی اور عوام کی بدحالی کے ذمہ دار کونسے عناصر ہیں۔ نواز شریف نے جو کہا ہے اور جو وہ تحریک چلانا چاہتے ہیں اس کا مقصد یہی ہے کہ ایک ہی دفعہ طے ہو جائے کہ حکومت کرنے کا حق منتخب نمائندوں کو ہے یا کسی اور کو۔ اسی طرح آئین اور پارلیمان بالادست ادارے ہیں یا ان سے بالا اداروں کو فوقیت حاصل ہے۔ جب تک یہ طے نہیں ہو گا پاکستان قوموں کی برادری میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکتا اور تیسری دنیا کا ایک پسماندہ ملک ہی رہے گا تاوقتیکہ اس کے مسائل ناقابل حل ہو جائیں جس کے نتیجے میں ریاستی ڈھانچہ شدید حادثات اور سانحات کا شکار ہو جائے کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ 3 ء برسوں میں جتنے بھی تجربات کیے گئے وہ ناکامی سے دوچار ہوئے اگر نہ ہوتے تو پاکستان اتنا پیچھے نہ رہتا ایسے تجربات کی مسقتبل میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).