میز، سیاستدان، جنرل صاحبان اور پاکستانی



کل پاکستان کے محترم صحافی، جناب طلعت حسین صاحب کی دو تین ٹویٹس تھیں جن میں خبریت سے کہیں زیادہ جذباتیت تھی۔ ان ٹویٹس کے سکرین شاٹس موجود ہیں۔ آپ بھی پڑھ لیجیے۔

پڑھیں گے تو اک امپریشن ایسا ملے گا کہ جناب جنرل باجوہ صاحب اور جناب جنرل فیض صاحب نے ہاتھ میں بید پکڑ رکھے تھے اور ساری کی ساری سیاسی لیڈرشپ کو کان پکڑوائے رکھے۔ اور مزید یہ کہ بہت ہی سخت افسوس کی بات ہے کہ اے پی سی کو پورا اک دن بیت گیا، اور عمران نیازی صاحب ابھی تک پرائم منسٹر ہیں۔ پھر یہ کہ سیاستدان بے چارے سرجھکائے ڈانٹ ڈپٹ سنتے رہے اور سزا کے خوف سے کانپتے ہوئے سب نے باجماعت یہ کہا: سر، ہم پرانی تنخواہ پر ہی کام کریں گے۔

میری تشریح کچھ ایسی ہی رہی۔ آپ اپنی تشریخ خود کر لیجیے۔

سیاستدان اپنے فہم، علم اور عقل میں ویسے ہوتے کہ جیسے بتائے جاتے ہیں تو نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب آج مشرف کی طرح غیر اہم اور غیر متعلقہ ہوتے۔ اور ان کی زندگی کا بہترین مصرف، ناچ گانا ہوتا۔

سیاستدان، ریاست کا ملازم نہیں ہوتا کہ جس کے پاس چند برس کا کوٹہ ہوتا ہے۔ وہ کوٹہ ختم ہو جائے تو آپ عوام کے ذہنوں سے ایسے اتر جاتے ہیں کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ یہ بھلے درست ہو کہ آپ ریٹائرڈ ہو کر بھی اپنی ادارہ جاتی قبائلیت کی بنا پر اہم اور متعلقہ رہیں، مگر پیزے بنانے کی فیکٹریاں اگر نکلتی ہیں تو لوگ اب مذاق اڑاتے ہیں، اور بھد بھی۔ شہریوں کو طاقت سے خاموش کروانے، یا ان کو ”مطیع اللہ جان“ والے ایکشن کے خوف سے ڈرا کر رکھنے کی طاقت موجود ہو تو بھی لوگ اب باتیں کرتے ہیں، اور خوب کرتے ہیں۔

ہم پاکستان کو بہتر سے بہترین دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور شعوری فیصلہ کیے بیٹھے ہیں کہ ہم نے یہیں رہنا ہے۔ کہیں نہیں جانا۔ ہمیں اداروں سے جڑی اور سماجی خوف کو بڑھاتی ان باتوں سے کسی قسم کی کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ انہی اداروں میں وطن کے بیٹے اور بیٹیاں ہی پاکستانی جھنڈوں والی وردیاں پہنے دشمن کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور ہمیں ان کا احترام اور ان سے پیار رہتا ہے۔ وردی والا کوئی بھی، کہیں بھی دشمن کی زد میں آ کر جان دے، ہمیں ایسا دکھ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اپنا پیارا بچھڑ گیا ہو۔

آپ مگر جب کھل کر سامنے آتے ہیں اور اک تکبر کا رویہ روا رکھتے ہوئے ہر شے کو روند کر، اپنے تجربے کی بھرپور ناکامی کے دو برس بعد سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں، تو اب لوگ ڈائگنلی ہنستے ہیں۔ آپ کا نام لیے بغیر، وہ آپ پر ہنس ہنس کر نڈھال ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ لطف اور مزے میں نہیں، اک تماشبین کی طرح ہنس رہے ہوتے ہیں۔

سیاستدانوں سے ہونے والی میٹنگ کے بعد، چلنے اور ابھرنے والی اک لہر نے جنرل صاحبان کے بارے میں جو امپریشن بنایا، وہ امپریشن کیوں بنایا؟ کیوں؟

اور بقول استاد بوتل، دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم کے باشندے بھی اس جذباتیت میں ایسے بہہ نکلے یہ دیکھے، جانے اور سنے بغیر کہ اسی میٹنگ میں میز کی دوسری جانب بیٹھے شرکا، یعنی سیاستدانوں، کا بیانیہ کیا ہے۔ آپ ذرا میز پر موجود طرفین کے بارے میں خیالات اور جذبات کا توازن تو دیکھ کر سمجھیے : جنرل صاحبان طاقتور اور ڈنڈے والے، سیاستدان بے چارے، مسکین اور نا اہل اور یتیم!

مکرر: ایسا امپریشن کیوں ہے؟

یہ پاپولر فہم ہے اور اس کی اندھی تائید کرنے کی بجائے، آپ کو اس سے گھن آنی چاہیے۔ ریاست میں طاقت کے نظام کے حوالے سے معاملات اور بات چیت ایسے ہوتی ہی نہیں۔ مجھے میز کے دونوں جانب بیٹھے افراد کا دلی احترام ہے۔ میں بطور اک پاکستانی مگر سیاستدانوں کو وہ سمجھنے اور ماننے سے انکاری ہوں جو جناب طلعت حسین کی ٹویٹس کہہ رہی ہیں یا پاکستان میں موجود، دنیا کی قابل ترین حکومت کے چند باجے اور ڈھول کہہ رہے ہیں۔ میں اک پاکستانی کی حیثیت سے جنرل صاحبان کو اگر وہ مانوں جو کل سے امپریشن ہے، تو یہ بھی کسی طور خوشی کی کوئی بات نہیں۔

سوچنے والے مگر سوچیں کہ یہ امپریشن مگر کیوں ہے؟ اور کیا یہ امپریشن محبت، احترام اور عزت میں اضافہ کرنے والا امپریشن ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).