راضی نامہ یا صلح نامہ


ہماری حکومت زیادتی کے مجرموں کی آختہ کاری کا قانون سازی کرنے جا رہی ہے۔ بہت اچھی بات ہے خدا کرے یہ قانون بن جائے اور خدا کرے اس قانون کے تحت خواتین کی فلمیں اور قابل اعتراض تصویریں بنا کر انہیں بلیک میل کرنے والے بھی اسی لسٹ میں شامل ہوں۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے جرائم لوگوں کے سامنے نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انصاف مانگنا ایک بہت اذیت ناک عمل ہے۔ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہمارا تھانہ کچہری کا نظام ہے۔ صلح کے لیے مدعی کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ کبھی جان سے مار دینے کی کبھی ماں بہن بیٹی کی عزت برباد کرنے کی۔ راضی نامہ کے لیے مجرمین کے ساتھ دباؤ ڈالنے میں پولیس بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ متاثرہ خاندان شریف ہوتا ہے اپنی عزت کی خاطر خاموش ہونا ہی غنیمت جانتا ہے۔ جبکہ مجرم کو نہ ہی کسی کی عزت کا خیال ہوتا ہے نہ ہی اس کی اپنی کوئی عزت ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں جرائم میں ملوث لوگوں کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔ اگر ایک گروپ پکڑا جائے تو دوسرا گروپ اسے چھڑانے میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ وہ مدعی پر صلح کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کرتا ہے اور اس کام میں پولیس اس کی بھرپور معاونت کرتی ہے۔ پولیس والے عموماً یہ کہتے ہیں کہ بڑے ڈاڈے لوگ ہیں ہم ہر وقت آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے اچھا ہے آپ صلح کر لیں۔ مدعی کو اس حد تک مجبور کر دیا جاتا ہے کہ اسے ہتھیار ڈالتے ہی بنتی ہے۔

اب اگر یہاں چند واقعات پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مجرم کے لیے تو آسانی ہی آسانی ہے مشکل ہے تو مظلوم کے لیے۔ جن مقدمات میں دباؤ کے تحت صلح ہوئی وہ سارے اخبارات میں آ گئی اور سب لوگوں تک پہنچ گئی مگر یہ بات ہماری پولیس اور عدالت تک نہ پہنچی۔ شبنم ڈکیتی کیس میں جو کچھ ہوا سب کو معلوم ہے۔ زور زبردستی سے راضی نامہ کروایا گیا اس کے بچے کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ شبنم مجبور ہو گئی اور روتے روتے معافی نامے پر دستخط کر دیے۔ اب یہ اللہ جانے کہ کون سے قانون میں زنا بالجبر کی معافی ہو جاتی ہے۔

شاہ رخ جتوئی بھی قتل کر کے دیدہ دلیری غنڈہ گردی اور بے غیرتی کی مثال بن گیا۔ مقتول کے متاثرہ خاندان نے عوام کی مدد سے بہت لمبے عرصے تک دباؤ برداشت کیا مگر یہ دباؤ بڑھتا گیا۔ یہ دباؤ ڈالنے میں جتوئی خاندان کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سیاسی لوگ سرکاری اداروں کے سربراہ اور شہر کے غنڈہ عناصر شامل تھے۔ متاثرہ خاندان ہرروز مرتا تھا۔ یہ خاندان مسلسل ذہنی اذیت کا شکار رہا اور اب تک ہو گا۔

مصطفیٰ کانجو نے دن دیہاڑے ایک ماں کی گود اجاڑ دی مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ نہ صرف کانجو خاندان بلکہ یہاں کے بہت سے بڑے بڑے سیاسی زمینداروں اور پولیس نے مدعی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ مدعی کے لیے یہ دباؤ برداشت کرنا بس سے باہر تھا۔ اس نے معافی نامے پے دستخط کر دیے مگر یہ کہتے ہوئے کہ میری جوان بچیاں ہیں میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ آواز میڈیا پر تو آ گئی مگر ہمارے ارباب اختیار اور ادارے بہرے تھے۔

موجودہ واقعے کے حوالے سے دیکھیں تو عابد علی اور اس کے ساتھیوں نے 2013 میں ایک ماں اور بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنایا اور بہیمانہ تشدد کیا لوٹ مار کی۔ مگر اس تمام درندگی کے باوجود آزاد ہو گئے۔ اس آزادی کے لیے متاثرہ خاندان کوایک دفعہ پھر ذہنی درندگی کا نشانہ بنایا اور مسلسل دھونس اور دھمکی کی زد میں رکھا اور صلح کے لیے مجبور کیا۔ اگر اس وقت ان کو سزا ہو جاتی تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ 2013 ء سے 2020 ء تک نہ جانے انہوں نے اور کتنے گھر اجاڑے ہوں گے مگر وہ اپنی عزت کی وجہ سے خاموش ہوں گے اس قسم کے دو چار واقعات ہی ہوتے ہیں جو سامنے آتے ہیں۔ باقی سب اپنی باقی ماندہ عزت بچانے کے چکر میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

ہمارے یہاں جس قسم کا ماحول اور نظام ہے سب جانتے ہیں کہ معافی نامہ یا صلح نامہ کیسے ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ دباؤ کسی متاثرہ خاندان کے لیے کتنا مشکل اور اذیت ناک ہوتا ہے۔ میری ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ مدعی سے معافی کا اختیار واپس لے لیا جائے۔ اس کے معافی یا راضی نامے کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو۔ کسی بھی جرم کو کسی فرد یا خاندان نہیں بلکہ سٹیٹ کے خلاف جرم تصور کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).