کامیاب آل پارٹیز کانفرنس، پی ڈی ایم کا قیام اور حکومتی مستقبل۔۔۔


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اگر ایم اڑ ڈی جیسی تحریک چلانے میں کامیاب نہ بھی ہو جائے مگر مارچ 2021 تک سینیٹ کے الیکشن سے پہلے حکومت گرانے ختم کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ پی ڈی ایم اگر آگے چل کر تقسیم نہی ہوتی اور اسی طرح متحد و متفق ہوکر آگے بڑھتی ہے تو وزیراعظم اور اس کی کابینا کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ اے پی سی ختم ہوتے ہی جس طرح آرمی چیف صاحب اور ڈی جی آئی ایس آئی صاحب نے پارلیمانی وفد کو ملاقات میں واضح پیغام دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس نہ صرف کامیاب ہوئی ہے بلکہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ہے۔

20 ستمبر کو اسلام آباد میں پی پی کے میزبانی میں منعقد آل پارٹیز کانفرنس حکومت کے لئے ریفرنڈم ثابت ہوئی ہے۔ ظاہری طور پر کامیاب ہوچکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اور ن لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کا ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب اور مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین بلاول بھٹو زرداری، میاں شہباز شریف، مریم نواز شریف۔ محمود خان اچکزئی، و دیگر کی شرکت خطاب اور متفقہ طور پر جاری کردہ اعلامیہ نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اے پی سی میں تازہ منظور کردہ بل پر بحث کرتے ہوئے گیا کہ اگر بندوق کے زور پر کوئی بات نہیں منوائی جا سکتی تو بندوق کے زور پر اسمبلی میں سے بل بھی منظور نہیں کرانے چاہیں۔ ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے جس جرات مندی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام باتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اے پی سی میں موقف پیش کیا ہے۔ شاید کسی کو امید تک نہیں تھی کہ اس طرح میاں نواز شریف صاحب گرجنے کے ساتھ برسیں گے بھی۔ آصف علی زرداری نے اپنی مختصر تقریر مزاحیہ انداز میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس اے پی سی کے بعد پہلا میں شخص ہوں گا جو جیل جاؤں گا۔

لیکن مولانا آپ مجھ سے جیل میں ملاقات کرنے آنا۔ جبکہ میاں شہباز شریف نے نے اے پی سی کے اعلامیہ کے وقت ایک صحافی سوال کے موقع پر مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ہمیں اکیلا چھوڑ کر نہ جانا۔ جس پر قہقہ لگ گیا۔ سینئر صحافی حامد میر نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی پیچھے رہ گئی میاں نواز شریف کی تقریر آگے نکل گئی، میاں نواز شریف کی تقریر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی، بلکہ حکومت اور اس کو لانے والوں کے خلاف چارج شیٹ تھی۔

اے پی سی کا 26 نکاتی ایجنڈا ایسے لگ رہا تھا جیسے حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہو۔ مولانا فضل الرحمان نے ایک سے لے کر آخری نکتے تک خود پڑھا۔ لگ ایسے رہا تھا جیسے تمام نکات مولانا نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے خود ترتیب دیے تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے پہلے میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے استعفے کا مطالبہ رکھا تھا۔

آل پارٹیز کانفرنس سے میاں نواز شریف نے بلوچستان حکومت ختم کرنے کا الزام سابق ڈی جی آئی ایس آر عاصم غفور باجوہ پر عائد کیا۔ اور یہاں تک کہا کہ ملک میں جرنیل جمہوریت کو چلنے نہیں دیتے، عدالتیں آمریتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں سیپیک کے چیئرمین عاصم باوجوہ کے اثاثاجات کی تفتیش کرنے کے ساتھ اسے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ جبکہ اپوزیشن کے دو رہنماؤں پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ، ن لیگ کے حمزہ شہباز اور جیو نیوز کے میر شکیل الرحمان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ مسنگ پرسن عدالتوں میں پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کو جنوری تک مہلت دی گئی ہے وزیراعظم عمران احمد نیازی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے منعقد کیے جائیں گے جس سے تمام جماعتوں کے قائدین خطاب کریں گے۔ اپوزیشن کی اے پی سی میں جماعت اسلامی نے شرکت نہیں کہ جب کہ اختر مینگل طبیعت خراب ہونے کے باعث شریک نہ ہو سکے اس کے وفد نے نمائندگی کی۔

مولانا فضل الرحمن اب بھی ان باتوں پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ سینیٹ چیئرمین غیر قانونی سلیکٹڈ ہے، وہ اسے قبول نہیں کر رہے ہیں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے اپوزیشن کی جماعتوں کے ممبران مستعفی ہو جائیں، سندھ حکومت کو تحلیل کیا جائے۔ اسلام آباد میں جنوری میں لانگ مارچ کیا جائے یا دھرنا دیا جائے۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جو اے پی سی کے اعلامیہ میں مشترکہ کہی گئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم زبانی گفتگو پر اکتفا نہیں کرسکتے، کہ آپ ہمیں کہے کہ ہم لڑیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے، آپ بہت پیچھے ہٹ چکیں ہیں اور دو سالوں میں ان کے بقا کا سبب آپ بنے ہیں، اب باقاعدہ لکھ کرکرنا ہوگا۔

ہمیں ہر طرح کی سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، ہم اس حکومت کو نمائندہ حکومت ہی نہیں سمجھتے۔ کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی کی طرح اور ن لیگ ایک قدم آگے کے ساتھ دو قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری اور ن لیگ کے رہنما میاں شہباز شریف اتنے سخت فیصلوں کے قائل نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر مولانا ہمیں معاف کردو کہ کر خاموش ہو جائیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں ریاستی اداروں خاص طور پر سیکیورٹی ایجنسیز اور فوج کو براہ راست کہا گیا کہ وہ آئینی دستور قانون کے تحت مداخلت نہ کریں، اپنی حدود میں رہ کر اپنا کام کریں۔

آل پارٹیز کانفرنس کے دوسرے روز ہی پاکستان آرمی کے چیف قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی نے پارلیمانی ممبران کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا نام نہ لیا جائے، فوج غیر جانبدار ادارہ ہے۔ فوج کسی بھی معاملے میں مداخلت نہیں کر رہی۔ فی الحال ظاہر تو یہی ارہا ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم کی چھٹی کی گھڑی قریب اچکی ہے۔ جنوری تک اگر حکومت نہیں جاتی تو یقیناً بڑا تصادم ہونے کا خطرہ ہے۔

حکومت کی دو سالہ کارکردگی بھی اتنی خاص ٹھیک نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا جس طرح پارلیمنٹ جانے سے راستہ روکا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو ڈھیل دینے یا این آر او دینے کے تمام راستے بند کرتے ہوئے وزیر اعظم اور آس کی حکومت کابینا کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ آہستہ آہستہ پی ٹی آئی سی دوری اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کو گلے لگائے گی۔ پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت کبھی بھی ختم نہیں کرے گی نہ قومی و صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہوگی۔

مارچ 2021 میں سینیٹ کی الیکشن ہونے والی ہے۔ اگر اس مرتبہ حکومت برقرار رہنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پی ٹی آئی حکومت کی سینیٹ میں 6 سال تک اکثریت ہو جائے گی۔ جبکہ اپوزیشن کی جس طرح ابھی سینیٹ میں اکثریت ہے وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اپوزیشن یہ سمجھ رہی ہے کہ مارچ سے پہلے حکومت کو چلتا ہوا کرتے ہوئے نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے۔ لیکن حکومتی وزیروں نے اے پی سی ناکام قرار دیتے ہوئے انہیں ایف اے ٹی ایف کے تحت منی لانڈرنگ اور نیب کیسز میں جیل جانے کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوتی ہے یا حکومت اپوزیشن میں نفاق ڈال کر اپنی مدت پوری کرتی ہے۔ لیکن مولانا اپوزیشن اور حکومت کو چین سے چلنے نہیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).