رجب طیب اردوغان: اقوام متحدہ میں ترک صدر کی مسئلہ کشمیر پر بات اور انڈیا کا اظہار برہمی


ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے۔

گذشتہ روز پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے اجلاس میں کی گئی اپنی تقریر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے کو اٹھایا تھا۔

بعدازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر نے کہا کہ ’کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اب بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

صدر اردوغان کے کشمیر پر بیان پر انڈیا کی مذمت

اقوام متحدہ: کشمیر کے بارے میں اب تک کیا ہوا؟

ترکی انڈیا کا دوست ہے یا دشمن؟

انڈیا نے اردوغان کے اس بیان پر سخت اعتراض کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں انڈیا کے نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ ’مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے بارے میں ہم نے صدر اردوغان کے تبصرے کو دیکھا ہے۔ یہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور یہ انڈیا کے لیے مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے۔ ترکی کو کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔‘

https://twitter.com/ambtstirumurti/status/1308528506658263043

خیال رہے کہ ترکی کے صدر نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اپنی یہ بات ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام کے ذریعے کہی ہے۔ انڈیا نے گذشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور پوری ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

حالیہ دنوں میں ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی جموں کشمیر کے بارے میں اسی طرح کے تبصرے کیے تھے اور اُس وقت بھی انڈیا نے انھیں نامناسب قرار دیا تھا۔

رواں سال فروری میں ترک صدر اردوغان نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر ترکی کے عوام کے لیے اُتنا ہی اہم ہے جتنا یہ پاکستانیوں کے لیے ہے۔

عمران اور اردوغان

اردوغان نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ ’ہم مذاکرات، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی توقعات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کرنے کے حق میں ہیں۔‘

ترکی کے صدر نے یروشلم میں سفارت خانہ کھولنے کا ارادہ رکھنے والے ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اردوغان نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی تجویز اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ترکی کے صدر نے کہا کہ ایسا کرنے سے فلسطینیوں کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ گذشتہ سال بھی انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کا معاملہ اٹھایا تھا۔

اس وقت اردوغان نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام اور خوشحالی کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہنما مسعود خان نے اردوغان کے اس موقف کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترکی پاکستان کا ’اصل دوست‘ ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ایشان تھرور نے ٹوئٹر پر اردوغان کے اس موقف کے بارے میں لکھا کہ ’اردوغان فلسطین، کشمیر اور ناگورونو کاراباخ میں ہونے والی ناانصافیوں پر بیان بازی کر رہے ہیں، لیکن سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے بارے میں کوئی لفظ نہیں نکلا۔‘

https://twitter.com/ishaantharoor/status/1308412308218171396

یونان پر تیور نرم ہے

اردوغان نے یونان کے ساتھ بحیرہ روم میں کشیدگی کا بھی ذکر کیا۔ ترکی بحیرہ روم میں تیل اور توانائی کی تلاش کر رہا ہے۔ یونان نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ ترکی اپنے علاقے میں غیر قانونی مہم چلا رہا ہے۔

فرانس اور جرمنی بھی یونان کی حمایت میں سامنے آئے ہیں، اس کے بعد صدر اردوغان نے فرانس اور یونان کو دھمکی بھی دی تھی۔ لیکن منگل کو اردوغان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے پر نرم لہجے کے ساتھ نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم پورے تنازع کو ایمانداری کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تنازع کو بین الاقوامی قوانین اور برابری کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔‘

اردوغان نے فلسطین کے بارے میں بھی بات کی اور کہا: ‘اس مسئلے کا حل آزاد اور خودمختار ملک بننے کے بعد ہی ہو گا۔ جب اردوغان کی تقریر جاری تھی تو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان باہر چلے گئے۔ انھوں نے اردوغان کی تقریر کا بائیکاٹ کیا اور ان پر یہودی مخالف ہونے کا الزام عائد کیا۔

اردان نے کہا کہ ’اردوغان مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ یہودی مخالف بات کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو اردوغان کے دوہرے معیار کے بارے میں جان لینا چاہیے۔‘ اردوغان نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا الزام عائد کیا تھا۔ اردوغان نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطینیوں پر مظالم اور حملے انسانیت سوز ہیں۔

اردوغان اور مودی

مودی وزیر اعظم بننے کے بعد ترکی نہیں گئے

انڈیا اور ترکی کے مابین تعلقات مسلسل خراب ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی نے مشرق وسطی کے تقریبا تمام اہم ممالک کا دورہ کیا لیکن وہ ترکی نہیں گئے۔

پچھلے سال 20 اکتوبر کو انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ سنہ 2019 کے آخری مہینوں میں مودی ترکی جانے والے تھے لیکن انھوں نے پاکستان کے حق میں کشمیر پر اردوغان کے موقف کی وجہ سے اس سفر کو منسوخ کر دیا۔

اس وقت انڈیا میں ترکی کے سفیر شاکر اوزکان نے دی ہندو کو بتایا تھا کہ ’ہماری حکومت کو امید تھی کہ وزیر اعظم مودی انقرہ آئیں گے۔ یہ صرف امید نہیں تھی بلکہ حال ہی میں اس پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا تھا۔ اب ہم کسی اور تاریخ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں وزیر اعظم مودی کے وقت کے مطابق ایک نئی تاریخ طے ہونے کا انتظار ہے۔ انڈین حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے لیکن یقینی طور پر اس کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔‘

ترکی کے سفیر نے یہ بھی کہا کہ چین نے بھی کشمیر کے معاملے پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے انڈیا کا دورہ کیا تھا۔

دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والی تلخی کی بنیادی وجوہات میں کشمیر اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی حمایت شامل ہے۔ جب ترکی نے شمالی شام میں کردوں پر حملے شروع کیے تو انڈیا نے بھی ترکی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔

انڈیا نے ترکی کے انادولو شپ یارڈ سے انڈیا میں بحریہ کے ایک سپورٹ جہاز کی تعمیر کے معاہدے کو بھی منسوخ کردیا۔ انڈیا نے یہ اقدام کشمیر اور ایف اے ٹی ایف سے متعلق پاکستان کے ساتھ ترکی کے موقف کے جواب میں اٹھایا۔

ترکی کی پاکستان کے ساتھ گہری دوستی

انڈیا کے مقابلے میں ترکی کے پاکستان سے تعلقات بہت بہتر رہے ہیں۔ دونوں ممالک سنی اکثریتی ممالک ہیں۔ اردوغان کے ہمیشہ پاکستان سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔

جب جولائی 2016 میں اردوغان کے خلاف ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہو گئی تو پاکستان اردوغان کے حق میں کُھل کر سامنے آیا۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فون کر کے اردوغان کی حمایت کی تھی، اس کے بعد نواز شریف ترکی بھی گئے۔ اس وقت سے اردوغان اور پاکستان کے مابین تعلقات بہتر ہیں۔

سنہ 2017 سے ترکی نے پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ترکی پاکستان میں بہت سے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کو میٹروبس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مجوزہ فری ٹریڈ کے معاہدے پر ابھی بھی کام جاری ہے۔

اگر دونوں ممالک کے مابین یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو پھر باہمی تجارت 90 ملین ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں ترکی کی ایئر لائنز نے بھی بہت توسیع کی ہے۔ استنبول علاقائی ہوا بازی کا مرکز بن گیا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی ترکی کے راستے مغربی ممالک جاتے ہیں۔

تاہم پاکستانیوں کو ترکی جانے کے لیے ویزا درکار ہے۔ اگر فری ٹریڈ کا معاہدہ طے پا گیا تو دونوں ممالک کے مابین تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ حالیہ برسوں میں مغربی ممالک اور یورپ سے ترکی میں سیاحوں کی آمد میں کمی آئی ہے اس لیے ترکی اسلامی ممالک کے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے لیے ترکی ایک طویل عرصے سے اقتصادی اور سیاسی ماڈل رہا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا کے مداح رہے ہیں۔

مشرف پاشا کی سیکولر اصلاحات اور سخت حکمرانی کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان ترکی صدر اردوغان کی تعریف کرتے رہے ہیں۔

سنہ 2016 میں ترکی میں بغاوت ناکام ہونے کے بعد عمران خان نے اردوغان کو ’ہیرو‘ کہا تھا۔ یقینا عمران خان یہ بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت کے خلاف فوج کی بغاوت ہو، جس کا ہمیشہ پاکستان میں خوف رہتا ہے۔

اردوغان کا دورہ پاکستان

گذشتہ سال 14 فروری کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں پاک ترکی بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ترک صدر اردوغان پاکستان میں انتخابات لڑیں گے تو وہ جیت جائیں گے۔

جب عمران خان یہ کہہ رہے تھے تو اردوغان بھی وہیں موجود تھے۔ اردوغان پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے تھے۔ اس دورے میں اردوغان نے پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور ان کے خطاب کے دوران اراکین پارلیمنٹ نے خوب میز تھپتھپائی۔ پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران اردوغان نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کے لیے جتنا اہم ہے اتنا ہی ترکی کے لیے ہے۔

اسی خطاب کے حوالے سے عمران خان نے کہا تھا کہ ’میں دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر اردوغان نے اگلا الیکشن پاکستان میں لڑا تو وہ آرام سے جیت جائیں گے۔ میں نے پارلیمنٹ میں دیکھا کہ جب اردوغان تقریر کر رہے تھے تو حکمران جماعت سے لے کر حزب اختلاف تک کے اراکین پارلیمنٹ میز تھپتھپا رہے تھے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کے خطاب پر ایسا نہیں دیکھا کہ اس طرح سے پارلیمنٹ میں تالیاں بجی ہوں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے لوگ صدر اردوغان کو کس حد تک چاہتے ہیں۔‘

جب عمران خان یہ کہہ رہے تھے تو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان مسکرا رہے تھے۔ ان کے ہمراہ آنے والا وفد بھی مسکرا رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp