امریکہ، چین کشیدگی: کیا دنیا ایک اور سرد جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے؟


Trump and Xi

اقوام متحدہ ایک ایسے وقت میں اپنی 75ویں سالگرہ منا رہا ہے جب اس کی وہ بنیادیں متزلزل ہیں جن کی بنا پر اس ادارے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس موقع پر کہا ہے ’کثیر الجہتی (یعنی تمام ممالک کا مل کر کام کرنے کا رجحان) انتشار کا شکار ہے۔‘

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کی پہلی خارجہ پالیسی نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے لے کر ایران جوہری معاہدے تک کئی معاہدوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جبکہ دوسری جانب چین بظاہر خود کو اقوام متحدہ کے نئے حمایتی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

لیکن چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی ایک قیمت ہے۔ اگر بیجنگ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں جیسا کہ عالمی ادارہ صحت کے لیے زیادہ فنڈز دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے عوض مزید کچھ چاہے گا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ جنھوں نے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی وہ اتحاد کی اہمیت کو جانتے ہیں کیونکہ انھوں نے جنگ اور اس سے قبل وبائی مرض کے دور سے گزرے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا چین اور امریکہ کبھی دوست بھی تھے؟

چین امریکہ تجارتی مذاکرات شروع ہونے پر اب کیا امیدیں ہیں

دس دن کی تاخیر کے بعد چین اور امریکہ کے درمیان ‘تعمیری’ مذاکرات

دیگر ممالک میں موجود عالمی رہنماؤں کے اس اجتماع میں امریکہ چین دشمنی کے عالمی استحکام پر اثرات سے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں۔

فرانس کے صدر ایمینوئیل میکرون کی آواز میں عجلت کوئی بناوٹ نہیں تھی جب انھوں نے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ ریمارکس میں کہا کہ ’آج کی دنیا کو چین اور امریکہ کی دشمنی کے درمیان نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

وہ دشمنی، جس میں دونوں ملکوں نے تجارت سے لے کر ٹیکنالوجی تک ہر چیز میں پنجہ آزمائی کی ہے، مزید تلخ ہوتی جا رہی ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات 40 سے بھی کم دن کی دوری پر ہیں اور بیجنگ کو نشانہ بنانا ٹرمپ کی انتخابی مہم کا مرکزی حصہ ہے۔

ٹرمپ

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے چین کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس وبا سے نمٹنے کے معاملے پر صدر پر ہونے والی تنقید کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کیا ایک دو قطبی دنیا، جس میں بالا دستی کے لیے امریکہ اور چین کا مقابلہ جاری ہے، ایک فوجی تنازع کو جنم دے سکتا ہے؟ واضح طور پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو اس بارے میں تشویش ہے کہ آگے کیا ہو گا، کیا یہ ایک اور ’سرد جنگ‘ کی وارننگ ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ’ہم ایک انتہائی خطرناک سمت کی جانب گامزن ہیں۔ ہماری دنیا ایک ایسے مستقبل کی متحمل نہیں ہو سکتی جہاں دنیا کی دو بڑی معیشتیں اپنے تجارتی اور مالی قواعد، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کی صلاحتیوں پر اسے ’گریٹ فریکچر‘ (بڑی توڑ پھوڑ) کے ساتھ تقسیم کرتی ہیں۔ ایک تکنیکی اور معاشی تقسیم کے خطرات سے جغرافیائی اور فوجی تقسیم ناگزیر ہے۔ ہمیں ہر قیمت پر اسے روکنا ہو گا۔‘

’گریٹ فریکچر‘ کے نتائج سے متعلق یہ کھلی بحث ظاہر کرتی ہیں کہ دنیا کس قدر تیزی سے بدل رہی ہے اور سفارتکار اسے برقرار رکھنے کے لیے کس قدر کوششیں کر رہے ہیں۔

چین کے صدر نے اس ورچوئل مباحثے کے دوران درحقیقت اعلان کیا کہ ’چین کسی بھی ملک کے ساتھ سرد جنگ یا باقاعدہ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘

یہ بیان کچھ بتا رہا تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ کشیدگی کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ اس بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔

ایک تجربہ کار سفارت کار نے مجھے بتایا کہ اقوام متحدہ میں عام بحث کو ہمیشہ تخلیقی انتشار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ عالمی رہنما ساتھ آئے، خوشی خوشی ملاقات کی اور نجی طور پر ملاقات کی تو حقیقی سفارت کاری ہو گئی۔ لیکن اب صرف افراتفری ہے کیونکہ اب کون سے رہنما ایسے ہیں جن کے دلوں میں محض ذاتی مفادات کے علاوہ کچھ نہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مشاہدہ ہے کہ وبا نے دنیا کی ناانصافیوں کا استحصال کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، ہمارا سیارہ جل رہا ہے اور ضرورت ہے کہ عالمی رہنما اسے ایک وارننگ سمجھتے ہوئے مستقبل کے چیلنجز کی تیاری کریں۔

تاہم سیکریٹری جنرل کا یکجہتی پر مبنی بیان سامنے آنے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ تمام عالمی رہنماؤں کو اُن کی مثال پر عمل کرنا چاہیے اور اپنے ملک کو اولین ترجیح پر رکھنا چاہیے۔

اگر ٹرمپ الیکشن جیت جاتے ہیں تو ان کا یکطرفہ نظام مزید واضح ہو جائے گا اور ممکنہ طور پر واشنگٹن اقوام متحدہ کو مزید غیر اہم گردانے گا۔

کیا نیٹو کے ساتھ امریکہ کی وابستگی بھی کمزور پڑ سکتی ہے؟ جو بائیڈن کے منتخب ہونے کی صورت میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی کم تو ہو سکتی ہے لیکن چین اور امریکہ کی بنیادی دشمنی برقرار رہ سکتی ہے۔

دنیا بدل رہی ہے اور اب سوال یہ ہے کہ پرانا کثیر الجہتی آرڈر کس طرح موافقت پذیر ہے اور کون اس کی رہنمائی کر سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp