شیخ چلی نے کھانا کھایا (سینہ بہ سینہ کہانی)۔


شیخ چلی کا نام سب نے سنا ہو گا۔ ایک دن اس کے ہمسائیوں نے ایک پیالے میں سالن ڈال کر ان کے گھر بھیجا۔ یہ سالن شیخ چلی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے ماں سے پوچھا ”یہ کیا ہے“

ماں نے جواب دیا ”اسے بڑیاں کہتے ہیں“
شیخ چلی نے گول گول تیرتے ٹکڑوں میں سے ایک کو اٹھایا اور پھر پوچھا ”یہ کیا ہے“
ماں نے مختصر جواب دیا ”بڑی“
شیخ چلی نے خوب پیٹ بھر کھایا۔ اسے یہ کھانا بہت پسند آیا۔ ”یہ تو بہت مزیدار ہے“

اگلے ہفتے شیخ چلی ماں سے ضد کرنے لگا ”ماں میں تو وہی کھانا کھاؤں گا جو ساتھ والوں کے گھر سے آیا تھا“

ماں نے کہا ”اس میں بہت محنت اور وقت لگتا ہے۔ نہ تو میرے اندر دال پیسنے کی ہمت ہے نہ ہی طاقت۔ اگر تو اتنا ہی اتاولا (بے چین) ہو رہا ہے تو بہو کو لانے کے بہانے اپنے سسرال چلا جا۔ وہی تیرے نخرے اٹھائیں گے۔ ان سے فرمائش کر لینا“

شیخ چلی خوش ہو گیا ماں سے پوچھا ”اس سالن کا کیا نام تھا“
ماں نے کہا ”بڑیاں کہہ دینا یا بڑی کہہ دینا وہ سمجھ جائیں گے“

شیخ چلی جانے کی تیاری کرنے لگا۔ جب تیار ہوا تو پھر سالن کا نام بھول گیا اور اپنی ماں سے پوچھا ”ماں میں اس کا نام بھول گیا پھر سے بتانا“

ماں پھر بتایا ”بڑیاں“
شیخ چلی نے کہا ”اگر میں وہاں جا کر بھول گیا تو کون یاد دلائے گا“
ماں نے کہا تو اس طرح کر کہ سارے راستے بڑیاں بڑیاں کہتے چلے جانا ”
شیخ چلی روانہ ہوا وہ کہتا جاتا تھا ”بڑیاں۔ بڑیاں۔ بڑیاں۔“

راستے میں چڑی ماروں نے جال لگایا تھا جب انہوں نے سنا بڑیاں (بڑنا یعنی داخل ہونا گھس جانا، بڑیاں یعنی داخل ہو گئیں) وہ سمجھے چڑیاں جال میں آ گئی ہیں۔ انہوں نے جال کھینچ لیا مگر وہ تو خالی تھا۔ انہوں نے شیخ چلی کو خوب پیٹا۔

شیخ چلی نے پوچھا ”مجھے کیوں مارتے ہو“
وہ کہنے لگے ”تو جو کہہ رہا تھا بڑیاں بڑیاں“
شیخ چلی نے پوچھا ”تو پھر کیا کہوں“
انہوں نے کہا ”تو کہہ آتے جاؤ پھنستے جاؤ“

اب شیخ چلی کہتا روانہ ہوا ”آتے جاؤ پھنستے جاؤ۔ آتے جاؤ پھنستے جاؤ۔“

آگے جنگل میں کچھ چور اپنی چوری کا مال دبا رہے تھے انہوں نے جب سنا ”آتے جاؤ پھنستے جاؤ“ وہ ڈر گئے کہ کوئی سنتری ہے اس نے دیکھ لیا ہے۔ وہ ڈر کر ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے مگر جب دیکھا کہ ایک منحنی سا شخص اپنی ہی دھن میں بولے جا رہا ہے تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب پیٹا۔

شیخ چلی نے پوچھا ”مجھے کیوں مارتے ہو“
انہوں نے کہا ”تو جو کہتا ہے آتے جاؤ پھنستے جاؤ“
شیخ چلی نے پوچھا ”پھر کیا کہوں“
انہوں کہا ”تو کہہ لاتے جاؤ دباتے جاؤ“

اب شیخ چلی کہتا روانہ ہوا ”لاتے جاؤ دباتے جاؤ۔ لاتے جاؤ دباتے جاؤ۔“

آگے ایک جنازہ آ رہا تھا۔ جب انہوں نے سنا کہ لاتے جاؤ دباتے جاؤ۔ انہوں شیخ چلی کو پکڑ لیا اور خوب پیٹا۔ ”ہمارا جوان بچہ مر گیا اور تو کہہ رہا ہے کہ لاتے جاؤ دباتے جاؤ“

شیخ چلی نے روتے ہوئے پوچھا ”پھر میں کیا کہوں“
”تو کہہ ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے“ شیخ چلی کو جواب ملا۔
شیخ چلی کہتا روانہ ہوا ”ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے۔ ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے۔“

شیخ چلی کو راستے میں ایک بارات ملی انہوں نے جو شیخ چلی کی گردان سنی تو اسے بہت پیٹا۔
شیخ چلی نے پوچھا ”مجھے کیوں مارتے ہو“
انہوں نے جواب دیا ”ہمارا خوشی کا موقع ہے اور تو کہتا ہے ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے“
شیخ چلی نے پوچھا ”پھر کیا کہوں“
انہوں نے کہا ”کہنا کیا ہے چپ چاپ چلا جا“

چیخ چلی روانہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے سسرال پہنچ گیا۔ وہاں اس کا بہت زوردار استقبال ہوا۔ اس کے آگے انواع و اقسام کے کھانے رکھے گئے۔ مگر شیخ چلی نے کسی کھانے کو ہاتھ نہ لگایا۔ سسرال والے پریشان ہو گئے۔

انہوں نے پوچھا ”کیا کھانا پسند نہیں آیا۔ آپ بتائیں کیا کھائیں گے“
شیخ چلی کھانے کا نام بھول چکا تھا بولا ”ہم تو وہی کھانا کھائیں گے“
انہوں نے پوچھا ”کون سا کھانا“
شیخ چلی بولا ”ہم تو وہی کھانا کھائیں گے“

اب انہوں نے مختلف کھانوں کے نام لینے شروع کر دیے۔ مگر شیخ چلی کا ہر دفعہ وہی جواب ہوتا ”ہم تو وہی کھانا کھائیں گے“

سسرال والے تنگ آ گئے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ رات کو شیخ چلی کو بھوک لگی تو سب سو چکے تھے۔ وہ چپکے چپکے باورچی خانے میں گیا اور چیزیں ٹٹولنے لگا۔ اس کے ہاتھ میں ایک انڈا آیا۔ ابھی وہ اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک ڈبہ دھڑ سے نیچے گرا۔ گھر والے سمجھے بلی آئی ہے وہ باورچی خانے کی طرف دوڑے۔ شیخ چکی کو انڈا چھپانے کی کوئی جگہ نہ ملی اس نے جھٹ انڈا منہ میں رکھ لیا۔

ساس نے آ کر دیکھا داماد کہ منہ میں پھوڑا نکلا ہے۔ ”ہائے ہائے اس کے منہ میں پھوڑا نکلا ہے اسی لیے رات بھی کھانا نہ کھایا“

آدھی رات کو حکیم صاحب کو جگا کر گھر بلایا گیا حکیم صاحب نے آ کر معائنہ کیا۔ جب انہوں نے شیخ چلی کا گال ایک طرف سے دبایا تو اس نے انڈا دوسری طرف کر لیا اب حکیم صاحب جس طرف سے گال دباتے شیخ چلی انڈا دوسری طرف کر لیتا۔ کافی دیر یہ عمل جاری رہا۔

آخر حکیم صاحب تھک کر بولے ”یہ تو بڑی خطرناک بیماری ہے“

جونہی شیخ چلی نے بڑی کا لفظ سنا اسے یاد آ گیا منہ سے انڈا نکال کر چلانے لگا ”ہم تو بڑی کھانا کھائیں گے ہم تو بڑی کھانا کھائیں گے“
شیخ چلی کی مشکل آسان ہوئی اور اس کے سسرال والوں کی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).