قسمت کی دیوی کس پر مہربان ہوتی ہے؟


آئن سٹائن ریاضی میں پاس نہیں ہو پاتا تھا، نیوٹن کو مطالعہ انگلستان کی ٹیوشن رکھنی پڑی تھی اور نیل بوہر کا دینیات میں دل نہیں لگتا تھا۔ جینئس لوگوں کے بارے میں اس قسم کی کہانیاں سب نے سن رکھی ہیں۔ ان کہانیوں سے ہمیں ایک نا معلوم سی خوشی ملتی ہے کہ نالائق ہونا کوئی بری بات نہیں، جینئس لوگ بھی اپنے اسکول میں فیل ہوتے تھے، رسمی تعلیم میں ان کا دل نہیں لگتا تھا اور اکثر مرد مجہول تو اپنی نالائقیوں کے باعث کالج سے نکالے بھی گئے تھے۔ سو ہم بھی چھپے جینئیس ہیں، بس زمانہ ہماری قدر نہیں کر رہا ہے۔

جہاں تک آئن سٹائن کا تعلق ہے وہ ریاضی میں واقعی کمزور تھا۔ ایک مرتبہ نو سال کی بچی باربرا نے اسے خط لکھا کہ اسے ریاضی کا مضمون سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے، آئن سٹائن نے جواب دیا کہ میری بچی پریشان مت ہو، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارے مقابلے میں میری مشکل کہیں زیادہ ہے۔ خیر یہ بات تو یونہی بیچ میں آ گئی، سنانے والا اصل قصہ کچھ اور ہے۔

جن دنوں آئن سٹائن عمومی نظریہ اضافیت پر کام کر رہا تھا ان دنوں اس عظیم سائنس دان کا اپنے ایک ہم عصر ریاضی دان ’ڈیوڈ ہلبرٹ‘ سے خاموش مقابلہ شروع ہو گیا۔ ہلبرٹ نے آئن سٹائن کا ایک لکچر سنا تھا جس کے بعد اسے اندازہ ہو گیا کہ آئن سٹائن بہت جلد اپنی نئی دریافت سے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچانے والا ہے۔ ہلبرٹ نے بھی اپنی کوششیں تیز کر دیں کہ کسی طرح وہ آئن سٹائن سے پہلے یہ تھیوری پیش کردے۔ آئن سٹائن تب ہر ہفتے برلن میں اس موضوع پر لیکچر دیا کرتا تھا اور ہر مرتبہ وہ اس تھیوری کے متعلق ریاضی کی ایک نئی مساوات پیش کرتا جو غلط ثابت ہوتی، تاہم وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھا کہ ہلبرٹ بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔

بالآخر فقط چند دن کے فرق سے آئن سٹائن اپنی تھیوری کے لیے ریاضی کی درست مساوات پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا اور یوں تاریخ میں اس کا نام امر ہو گیا۔ آئن سٹائن کا خیال تھا کہ ہلبرٹ چونکہ اس سے کہیں زیادہ سینئر اور طاقتور ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ اس تھیوری کا سہرا اپنے سر باندھ لے مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ گو کہ ڈیوڈ ہلبرٹ بھی محض چند دن کے فرق سے اسی نتیجے پر پہنچا تھا جس پر آئن سٹائن پہنچا تھا مگر قسمت کی دیوی آئن سٹائن پر ذرا پہلے مہربان ہو گئی۔

عمومی نظریہ اضافیت آج آئن سٹائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ واقعہ میں نے جس کتاب سے لیا ہے وہ آج کل میرے زیر مطالعہ ہے، میں روزانہ اس کے بیس تیس صفحے پڑھتا ہوں اور ہر روز ایک عجیب دنیا مجھ پر آشکار ہوتی ہے، میں جب یہ کتاب ختم کر لوں گا تو انشا اللہ اس پر ایک علیحدہ کالم لکھ کر بتانے کی کوشش کروں گا کہ وہ کون سی دنیائیں ہیں جن کا ذکر اس کتاب میں ہے۔ فی الحال دیگ کے اسی دانے پر اکتفا کریں۔

ڈیوڈ ہلبرٹ اور آئن سٹائن دونوں ہی بلا کے ذہین تھے، دونوں جرمن تھے، کم و بیش ایک ہی قسم کے تعلیمی اداروں میں پڑھے تھے، شعبے بھی ایک سے تھے، دونوں کی عمر میں سترہ برس کا فرق تھا سو اس لحاظ سے زمانہ بھی ایک ہی تھا، دونوں ایک ہی تھیوری پر کام کر رہے تھے اور محض چند دن کے فرق سے دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے جو بیسویں صدی کی ایک عظیم دریافت ثابت ہوئی۔ اس کے باوجود جو شہرت، شناخت اور کامیابی آئن سٹائن کے حصے میں آئی ہلبرٹ کو شاید اس کا دسواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا۔

اسے مقدر کہتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے گھر بیٹھے نیٹ فلکس پر فلمیں دیکھتے رہیں اور اچانک ایک رات عمومی نظریہ اضافیت آپ پر الہامی صورت میں نازل ہو جائے۔ قسمت کی دیوی اسی پر مہربان ہوتی ہے جو اس دیوی کے آگے پیچھے پھرتا ہے۔ آئن سٹائن اور ڈیوڈ ہلبرٹ دونوں کی کامیابی کا امکان برابر تھا، دونوں نے اپنے اپنے حصے کا کام بھرپور طریقے سے کیا، اس کے بعد مقدر کا کھیل شروع ہوا جس میں جیت آئن سٹائن کی ہوئی۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ اچھے شاعر پر کلام نازل ہوتا ہے، اقبال کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان پر پوری پوری غزل اترتی تھی، غالب نے تو خود کہا کہ ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘ ۔ لیکن یاد رہے کہ غیب سے یہ مضامین اسی پر نازل ہوں گے جو اس کھیل میں شامل ہوگا۔ Nichomachean Ethics میں ارسطو کہتا ہے : ”اولمپک کے انعامات بہترین اور طاقتور لوگوں کو نہیں دیے جاتے بلکہ انہیں دیے جاتے ہیں جو ان مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ جیت انہی (مقابلہ کرنے والوں ) کو نصیب ہوتی ہے۔

زندگی کے بارے میں بھی یہی کلیہ کارفرما ہے۔ ضروری نہیں کہ زندگی میں بہترین اور اچھے لوگ ہی کامیاب ہوں، زندگی انہیں نوازتی ہے جو درست طرز عمل اپناتے ہیں۔“ دنیا میں لوگوں کی لاٹریاں بھی نکلتی ہیں اور وہ رات ارب پتی ہو جاتے ہیں، بیٹھے بٹھائے کسی کا انعامی بانڈ نکل آتا ہے اور اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس آپ نے ایسی ویڈیوز بھی دیکھی ہوں گی جن میں کوئی راہ چلتا بندہ خواہ مخواہ گاڑی کے نیچے آ کر کچلا جاتا ہے یا کسی کے سر پر اچانک کوئی چیز آ کر لگتی ہے اور وہ موقع پر ہلاک ہو جاتا ہے، کوئی گھر کے صحن میں پھسل کر ٹانگ تڑوا بیٹھتا ہے اور کسی کو محاذ جنگ پر بھی خراش نہیں آتی۔

ان واقعات میں کسی کا کوئی قصور یا کمال نہیں ہوتا، یہ محض خوش قسمتی یا بد قسمتی کی بات ہے کہ کوئی شخص کس موقع پر کہاں موجود تھا۔ مگر یہ مقدر کی ایک محدود شکل ہے۔ اسی طرح مقدر کی ایک شکل اور بھی ہے جس میں کسی انسان کے مقدر کا تعین اس کی پیدائش کے وقت ہی ہو جاتا ہے۔ کون، کہاں، کس کے گھر پیدا ہوتا ہے، یہی ایک بات بعض اوقات پوری زندگی پر حاوی ہو جاتی ہے۔ لیکن مقدر کی یہ تمام شکلیں وہ ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جن باتوں پر ہمارا اختیار ہے کیا ہم انہیں بھی مقدر کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن تو نہیں ہو جاتے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک امریکی عالم نے اس بات کا جواب ایک بہت خوبصورت دعا کی شکل میں دیا، دعا کچھ یوں ہے : ”خدایا، مجھے ان باتوں کو قبول کرنے کا حوصلہ دے جن پر میرا کوئی اختیار نہیں، اور ان مشکلات سے نمٹنے کی ہمت دے جن پر میرا اختیار ہے، اور ساتھ ہی مجھے ان دونوں باتوں کے درمیان فرق کرنے کا فہم بھی عطا کر ۔“

تمام دعاؤں کے باوجود اور قسمت سے متعلق تمام تھیوریاں سمجھنے کے بعد بھی بعض لوگوں کی زندگی میں آزمائش ختم نہیں ہوتی، بد قسمتی کسی صورت پیچھا نہیں چھوڑتی اور وہ اپنی پوری ہمت اور محنت کے باوجود گھن چکر سے نکل نہیں پاتے۔ اس معمے کا کوئی پڑھا لکھا حل تو نہیں مگر دنیا ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں لوگوں نے بد ترین حالات کا مقابلہ کر کے اور مقدر کو شکست دے کر اپنی زندگیاں بدلیں۔ یہ کام کرنے کے لیے دو باتوں کا ادراک ضروری ہے، ایک، ہر چیز کو مقدر کے کھاتے میں ڈال کر کسی معجزے کی امید نہیں کی جا سکتی، دوسرے، یہ دنیا نا انصافی پر کھڑی ہے، اس حقیقت کو جتنی جلدی ہو تسلیم کر کے زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے، اپنا وقت کڑھنے میں برباد کرنے کی بجائے اس کام میں لگانا چاہیے جہاں قسمت کی دیوی آپ کا نوٹس لینے پر مجبور ہو جائے، بالکل اسی طرح جیسے وہ ڈیوڈ ہلبرٹ اور آئن سٹائن میں سے کسی ایک کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada