تبدیلی کب آئے گی؟


گزشتہ تہتر سالوں میں وطن عزیز کے اندر شاید ہی کوئی ایسی سیاسی یامذہبی حزب وجود میں آئی ہو جس نے نظام کی تبدیلی کا نعرہ نہ لگایا ہو اور اسی وطن عزیز کا شاید ہی کوئی ایسا باشندہ ہو جو اس نعرے کے جھانسے میں نہ آیا ہو۔ یہ عمل سالہا سال سے دوہرایا جا رہا ہے اور عوام اسی ایک نعرے کے دھوکے میں آکرسالہاسال سے کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان گنت سیاسی و مذہبی داؤ پیچ آزمانے کے بعد بھی ملکی تقدیر تبدیل نہیں ہوئی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک پہلے سے زیادہ ابتری کا شکار ہو رہا ہے۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیونکہ ہمارامعاشرہ نظام کی تبدیلی تو چاہتا ہے لیکن یہ نہیں جاننا چاہتا کہ نظام ہوتا کیا ہے؟ نظام کے ارکان کیا ہوتے ہیں؟ ان ارکان کا آپس میں تعلق کیا ہوتا ہے؟ اس تعلق کی ترکیب و ترتیب کیا ہوتی ہے؟ ان ارکان کا ایک دوسرے پر اثر کیا ہوتا ہے؟ ان بنیادی ترین سوالات کا جواب جانے اور سمجھے بغیر کوئی بھی معاشرہ آسانی سے بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جا سکتا ہے اور بد قسمتی سے ہمارے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔

ہم بحیثیت معاشرہ برسوں سے اس حالت کو نہ فقط قبول کیے ہوئے ہیں بلکہ اگر کوئی ان موضوعات کی طرف توجہ دلانا بھی چاہے تو اسے غیر ضروری سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ جب تک ان بنیادی سوالات کا جواب نہ مل جائے اور اس جواب کی روشنی میں نظا م بدلنے کی تدبیر نہ کیا جائے تو اس قوم کو کبھی بھی ترقی و خوشحالی کا چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوگا۔

کسی بھی معاشرے کی اکائی گھرانے کو سمجھا جاتا ہے، مثال کے طور پرایک گھر میں رہنے والے افراد کی تعداد پانچ ہے تو وہاں ایک چھٹا موجود بھی وجود رکھتا ہے جس کا نام گھرانہ ہے اور وہ گھر کے دیگر افراد کی طرح زندہ حقیقت ہے۔ گھرانے کے وجود کے لیے شرط ہے کے اس کے ارکان کے درمیان ایک مخصوص رابطہ موجود ہو، اس رابطے کی بنیا د بھی واضح ہو اور اس رابطے کے اثرات بھی نمایاں طور پر مشاہدہ کیے جا سکتے ہوں۔ ان بنیادی خصوصیات کے بغیر ایک عمارت میں رہنے والے افراد چاہے خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، گھرانہ نہیں کہلا سکتے۔

بالکل اسی طرز پر کسی بھی معاشرے کا سیاسی و اجتماعی نظام وجود میں آتا ہے اور نظام بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام کے اندر بنیادی ترین ساخت کو نئی ساخت کے ساتھ تبدیل کیا جائے۔ یعنی ایک مشترک ہدف کے حصول کے لیے، مختلف امور کی انجام دہی میں مختلف افراد کے مابین رابطے کا اصول، اس معاشرے کی ساخت کہلاتا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت ہمارے معاشرے میں لوگوں کے درمیان روابط کی بنیاد کیا ہے؟ ذات پات ہے؟ لسانی بنیاد وں پر مربوط ہیں؟

یا کسی نظریے نے ان کو آپس میں جوڑ رکھا ہے؟ یہ بنیادی ساخت کن اصولوں اور معیارات کے تحت وجود میں آئی ہے؟ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں روابط کی بنیاد خرافات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ خرافات مذہب نے دی ہوں یا ثقافت نے، بہ ہر حال ہم خرافات میں ڈوبا ہوا حقیقت سے غافل معاشرہ ہیں۔ جبکہ نظام کی تبدیلی کے لیے لازمی ہے کہ اسی بنیادی ساخت اور ڈھانچہ جس پر یہ نظام قائم ہے، کو تبدیل کیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اصول و معیارات کہاں سے ملیں گے؟ ہماری رسومات ہمیں یہ اصول فراہم کریں گی یا ہماری ثقافت؟ جی نہیں، یہ اصول و معیارات صرف آیئڈیالوجی سے ملیں گے۔

آیئڈیالوجی کا کام ریلیاں نکالنا نہیں ہے، جلسے جلوس کروانا نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے روابط کے بنیادی اصول متعارف کروانا ہے، ان اصولو ں کی مدد سے نظام کے مختلف ارکان کے مابین روابط قائم کرنا تا کہ یہ مربوط ارکان مل کر ایک ساخت کو جنم دیں جس پر نظام کھڑا کیا جاسکے۔

معاشرے کے سیاسی، عدالتی، تعلیمی، ثقافتی یا دیگر تمام ارکان کو مندرجہ بالا قانون کے تحت تبدیل کرنا نظام کی تبدیلی کہلاتا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے جس معاشرے میں انقلاب برپا کیا وہاں پہلے سے ایک معاشرتی ساخت موجود تھی، آپﷺ نے وہ پورا سٹرکچر تبدیل کیا۔ جہاں روابط کی بنیاد قبائلی نظام تھا وہاں روابط کی بنیاد دین کو بنا دیا۔ لہذا آج بھی کوئی اگر نظام تبدیل کرنے کا خواہاں ہے تو اس کو ان بنیادی ترین نکات سے تبدیلی کا آغاز کرنا ہوگا۔

اگر بالفرض اسلامی نظام چاہتے ہیں تو الف سے لے کر یے تک تمام مراحل میں اسلامی آیئڈیالوجی کارفرما ہوگی، اسلامی اصولوں کی بنیاد پر روابط اور ساخت بنائی جائے گی جس پر اسلامی نظام قائم ہوگا۔ مختلف نظریات کا چربہ بنا کر انقلاب نہیں لایا جا سکتا، کیونکہ انقلاب کا اصلی مقصد حکومت پر قبضہ نہیں ہے بلکہ انقلاب کا حقیقی ہدف معاشرے کے اندر تمام اہم ترین شعبہ جات (عدالتی، اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی) کے اندر پرانے اور فرسودہ نظام کی جگہ نئے نظام کا نفاذ ہے۔ ممکن ہے ایک انقلابی تحریک حکومت تو جلدی حاصل کر لے لیکن اپنے حقیقی اھداف کے حصول میں اندرونی و بیرونی مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے طویل عرصے کی تگ دو اور دشواریوں کے بعد کامیاب ہو۔

پاکستان میں آج تک نظام کیوں نہیں تبدیل ہو سکا؟ کیونکہ ہم نے انقلاب کے بنیادی اصولوں کو چھوڑ کر متضاد راستوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اسی فرسودہ نظام کی اصلاحات کے نام پر کی جانے والی پچی کاری کو قبول کر لیتے ہیں۔ ریاضی کا قانون ہے کہ جمع اور نفی مل کر منفی ہی پیدا کرتے ہیں، لیکن ہم اس قانون کو جاننے کے باوجود متضاد راستوں پر سفر کر رہے ہیں اورمتضاد راستوں پر چلنے کو عین دین سمجھتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے مخالف سمت جانے والے راستوں پر چل کر کوئی نظام تبدیل کر لیا جائے؟

متضاد راستوں کو اکٹھا کر کے ہم در حقیقت عقلی اور علمی قوانین کو پائما ل کر رہے ہیں، مومن اور فاسق کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ عالم اور جاہل کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ جمہوریت میں یہ سب برابر ہیں کیونکہ ان کی حیثیت ایک ووٹ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے لیکن جہاں نظریات کی بنیاد پر نظام تبدیل کرنے کی بات آتی ہے وہاں آغاز سے انجام تک ایک ہی نظریہ اور آیئڈیالوجی کی مدد سے سیاسی و اجتماعی تبدیلی لائی جاتی ہے۔ نظام تبدیل کر کے خارجہ پالیسیاں کسی استعماری طاقت کے زیر سایہ نہیں بنتیں بلکہ انقلاب کا سب سے پہلا ہدف ہی تمام عالمی طاقتوں سے آزاد ہو کر مستقل حیثیت اختیار کرنا ہوتاہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).