اخلاقیات کی تعلیم کیوں ضروری ہے؟


ہمارے ہاں اخلاقیات کا فقدان ہے یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں غیر مسلموں کے لیے نصاب میں جو اختیاری مضمون شامل کیا گیا ہے۔ اس میں اخلاقیات سے متعلق کم اور دیگر مذاہب کی تعلیمات کے بارے میں توڑ مروڑ کر جو تشریح درج ہے اس میں بھی اسلامی رنگ غالب ہے۔ انتہا پسندانہ سوچ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے اور ہم نے طے کر رکھا ہے کہ پہلے تو بروقت معاملات کو طے نہیں کرنا اور نہ ہی حالات کے سدباب کے لئے درمیانہ رویہ اختیار نہیں کرنا اور جب معاملات ایک حد سے تجاوز کرتے نظر آئیں تو ”مار دو“ ، ”کاٹ دو“ ، ”سرعام پھانسی دے دو“ کے نعرے بلند کرو۔

اور تواور پارلیمان میں جس طرح کے بل قانون سازی کے لیے پیش کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں اس سے ہماری اخلاقیات کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ دنیا پاکستان کے بارے میں ایسا کیوں سوچتی ہے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کا نام ایسے ممالک کی لسٹ میں کیوں شامل کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں موٹر وے پر ہونے والے واقعے کے بعد جس طرح کا ردعمل عوام اور قانون بنانے والوں کی جانب سے سامنے آیا اس سے اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔

پھر یہاں ہر دوسرا شخص فلاسفر، محقق، سائنسدان اور کئی میرے جیسے تجزیہ نگار بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ کیا کیا رائے دیتے نظر آتے ہیں۔ بھلا ایک غیر اخلاقی حرکت یا درندگی کی سزا تجویز کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جرم کو ختم کرنے کے لئے اس سے بڑی درندگی تجویز کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ اس سے بڑھ کر اخلاقی گراوٹ کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کا وزیراعظم ریپ کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے یا کیمیائی طریقے سے ناکارہ بنا دینے کی تجویز دے رہا ہو۔

محترم وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی حکومت جلد ہی ایوان میں اس سے متعلق ایک بل لے کر آئے گی، جبکہ قانو ن میں پہلے سے ریپ کی سزا موت یا عمر قید موجود ہے۔ قانون میں قتل، چوری، ڈاکہ اور دیگر جرائم کی سزائیں موجود ہیں۔ آپ ان سزاؤں کو مزید سخت کردیں تو کیا جرائم رک جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ یہاں مسئلہ سزا کو سخت کرنے کا ہے ہی نہیں بلکہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کا ہے۔ حضور والا! جرائم کو روکنے کے لئے سزا ایک عنصر ہوتا ہے، اس کے علاوہ دیگر عناصر میں ملک کا نظام، معاشرے کی اقدار، انتظامی اور قانونی ڈھانچہ، تعلیم اور سب سے بڑھ کر عدالتی نظام ہے۔

خیر سے ہمارے ہاں تھانہ کلچر اتنا گندا ہے کہ بہت سی خواتین عصمت دری کے کیس درج کروانے اس وجہ سے تھانے نہیں جاتی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کسی بھی پولیس اسٹیشن میں داخل ہونے سے لے کر رپورٹ کے اندراج، تفتیشی کی ”تفتیش“ اور تھانیدار نے کیا سلوک کرنا ہے اور اگر کیس درج ہو بھی گیا تو اسے کس طرح سے ڈرانے دھمکانے اور پھر صلح کے لئے جو دباؤ اور پولیس کے ساتھ ”تعاون“ الگ سے کرنا پڑے گا۔ اور حقائق کو چھپانے، میڈیکل رپورٹس کو تبدیل کرنا (جس میں طب کے مقدس پیشے سے منسلک افراد شامل ہوتے ہیں) اور عدالتی نظام معاشرے کی جو تصویر کشی کرتا ہے، اس کا حال تو مختاراں مائی سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔ (خیر سے اس وقت بھی اقتدار پر قابض جنرل پرویز مشرف نے فرمایا تھا کہ بعض خواتین بیرون ملک جانے کے لئے ایسے کیس درج کرواتی ہیں۔ آج مختاراں مائی تو ملک میں موجود ہے جبکہ جنرل صاحب کا معلوم نہیں)

کون نہیں جانتا کہ پولیس کی سرپرستی میں کون کون سے جرائم ہوتے ہیں ان میں سے ایک جسم فروشی بھی ہے۔ جب بھی یہ خبر پڑھنے کو ملے کہ فلاں پولیس نے فلاں علاقے میں جسم فروشی کے اڈے پر چھاپہ مارا اور اتنے افراد کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر دیا تو سمجھ جاؤکہ اس علاقے کے پولیس والوں کو متعلقہ ٹھکانے سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہوئے تو یہ کارروائی کی گئی ہے۔ اور پھر ہمارے ہاں قانون بنانے والوں سے لے کر قانون کے رکھوالوں نے جو ملک اور عوام کا گزشتہ تہتر برس میں حشر کیا ہے اس کی ایک جھلک آپ نے گزشتہ دنوں ہم نے آل پارٹیز کانفرنس میں دیکھ لی ہوگی۔

یہ پہلی کانفرنس نہیں تھی بلکہ اس سے قبل بھی مشترکہ مفادات کے لئے ایسی کانفرنسز ہوتی رہی ہیں اور درپردہ اپنے اپنے مفادات حاصل ہونے کے بعد ایسے اتحاد ہوا میں تحلیل ہو جایا کرتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں مدت پوری نہیں کرنے دی گئی تو اگر یہ حکومت ختم ہوتی ہے (جس کے امکانات کم ہیں ) مجھے موجودہ حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں لیکن کل کو تحریک انصاف کو بھی یہ جواز مل سکتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ تو ان کے پاس کچھ کہنے کو ہے نہیں۔

ویسے اخلاقی طور پر اے پی سی میں موجود سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا مل بیٹھنے کا جواز بھی نہیں تھا لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی بلکہ مفادات اور ضروریات کی متقاضی ہوتی ہیں۔ نواز شریف کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد آرمی چیف کا ایک بیان سامنے آیا جس سے حقیقت کا اندازہ لگا لیں کہ ایسے بیان کا اخلاقی جواز کیا ہے؟ اب یہاں مولوی اور فوج پر تنقید کرنا منع ہے اور میرے جیسا بندہ تو ویسے بھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ شمالی علاقہ جات میں جانے کا کوئی شوق نہیں اور ان مخدوش حالات میں بچوں کا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتا۔ سچ پوچھیں تو جب تک پورا نظام تبدیل نہیں ہوتا اور ہر شخص یا ادارہ ذاتیات سے باہر نکل کر نہیں سوچتا اخلاقیات اور حالات یہی رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).