فکر اپنی اپنی، خطرہ سب کو


میرے ایک رہبر ہیں انہوں نے مجھ سے سوال کیا۔ نہیں سوال نہیں بلکہ ایک نکتہ اٹھایا کہ برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں نے تقریباً سو سال حکومت کی۔ انگریز پہلے پہل ایک کمپنی کی شکل میں وارد ہوئے۔ اس کمپنی میں ملے جلے لوگ شامل تھے۔ انہوں نے اس کمپنی کی سرپرست مادر ملکہ کو بنایا۔ برصغیر میں آنے والے گورے کاروباری تجارتی لوگ، بدمعاش اور معالج قسم کے تھے اور وہ لوگ ایک نئی دنیا فتح کرنے نکلے تھے۔ ان سب کو اپنے دیس میں آرام و آسائش میسر نہ تھا۔ بلاشبہ پہلے پچاس سال تو قبضہ کرنے اور اپنے آپ کو منوانے میں لگ گئے۔ پھر کمپنی کو خیال آیا کہ ان محکموں کے لیے بھی کچھ کیا جائے تاکہ ان کو قابو میں رکھنا آسان ہو پھر تمام ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ پولیس کی چوکیاں بنائی گئیں۔ ہسپتال بنائے گئے اور تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی اور عجائب خانے اور چڑیا گھر بھی بنائے گئے۔ برصغیر میں فوج مقامی لوگوں کی تیار کی گئی اور برطانیہ کی ایک نوآبادی قائم کی گئی۔

بازار اور منڈی کے لیے اصول اور قواعد تیار کیے گئے۔ ریل کا اہم ادارہ ملک کے طول و عرض میں رابطے کے لیے بنایا گیا اور انہوں نے اپنے آرام اور عوام کی بہبود کے لیے خاصے کام شروع کیے۔ ایک زمانہ میں جب ملکہ برطانیہ کا عروج تھا ان کی سرکار کا سورج چوبیس گھنٹے دنیا میں طلوع رہتا تھا۔ لوگوں کو روزگار ملنے لگا اور برطانیہ کی نے سارے ملک میں ایک سرکار کی بنیاد رکھی۔ برطانیہ نے برصغیر پر جو پیسہ لگایا وہ سب اس زمین سے لوٹا گیا تھا۔ آج کا اہم سیاسی محاورہ ”جو کھاتا ہے وہ لگاتا بھی ہے“ یہ برطانیہ اور ملکہ کی وجہ سے مقبول ہوا۔ انہوں نے خوب کھایا اور خوب لگایا بھی ۔ انہوں نے برصغیر کی دنیا بھر میں شناخت بنائی اور اپنی حیثیت منوائی اور دولت کی اتنی فراوانی تھی کہ اس کی بنیاد پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی لڑی گئیں اور اپنے ملک برطانیہ کو جدت بھی دی۔

میرے محترم رہبر کا ایک سوال یہ بھی تھا اور ہے کہ برطانیہ نے برصغیر کو ایک بڑا ملک بنایا اور قانون اور اصول کی بنیاد بھی رکھی اور ان قوانین اور اصولوں کی وجہ سے برصغیر کی دولت سے اپنے ملک میں لوگوں کو آرام اور آسائش مہیا کی گئی اور ملکہ نے مشاورت سے اپنے ہاں جمہوری نظام کو بہتر کیا۔ ان کی سیاست بھی اتنی شفاف نہ تھی۔ مگر برصغیر کو کوئی سیاسی نظام نہ دے سکے۔ بلکہ سیاست کو مذہب اور فرقہ بندی میں بھی شامل کر دیا گیا۔ انہوں نے برصغیر کے پیسے سے اپنے ملک میں اداروں کو مضبوط کیا اور ایک عظیم ملک بنایا مگر برصغیر کو ایک ملک تو بنا دیا مگر معاشرتی برائیوں کے لیے کچھ بھی نہ کیا اور رشوت ستانی کو فروغ بھی دیا اور رشوت ہر جگہ مقبول اور قابل قبول بھی ہوئی۔ فوج میں صرف اس کو بخشش کا نام دیا گیا اور وہ رشوت کا نظام ابھی تک پاکستان میں خوب پھول پھل رہا ہے۔ اور اس کا کوئی علاج بھی نظر نہیں آتا اور سیاست میں اہم کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

برصغیر کی آزادی کے بعد بھی برطانیہ نے دونوں ملکوں کو اور اپنی نو آبادی کو نظر انداز نہیں کیا اور ایک ادارہ بنایا۔ اس کا نام اس نے کامن ویلتھ رکھا اور ہم پر احسان کیا کہ مشترکہ دولت ہمارے درمیان رابطے کا ذریعہ رہے گی۔ ملکہ برطانیہ اب بھی بہت سے کاروباری اداروں کی مالک ہیں پھر برطانیہ نے ہمارے سیاسی اور فوجی نظام میں بھی دخل اندازی جاری رکھی۔ پاکستان میں برطانیہ کے قوانین ابھی تک رائج ہیں اور مقامی طور پر ان پر عمل ہو رہا ہے۔ تھانہ میں پولیس رپورٹ لکھوانی ہو تو پرانا برطانیہ کا قانون عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے اور ہماری پولیس سرکار کی راکھیل نظر آتی ہے اور عسکری ادارے بھی برطانیہ کے زمانہ کے قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیاست اور سرکار کی نگرانی کرتے نظر آتے ہیں اور ان کے لیے ہم کوئی بھی رہنما اصول بنا نہیں سکے جبکہ برطانیہ نے اپنے ہاں سب کچھ بدل دیا مگر اب ان کی سیاست میں بھی ملاوٹ نظر آ رہی ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے ہمارے سیاسی لوگوں نے برطانیہ میں بھی سرمایہ کاری شروع کر دی اور برطانیہ میں ان کو تحفظ بھی مہیا کیا گیا اور دوسرے کچھ لوگوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ بھی حاصل کرنی شروع کردی۔ جس کی بنیاد مذہب اور نظریات کے اختلافات پر رکھی گئی اور برطانیہ نے ان کو مکمل تحفظ بھی دیا اور ان لوگوں نے برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست کو داغ دار کرنا شروع کیا اور اس سے پہلے پہل کچھ مذہبی لوگ تھے پھر سیاسی لوگ بھی شامل ہو گئے اور ایک عرصہ کے بعد برطانیہ کے شہری بھی بن گئے۔ برطانیہ کے قانون کے مطابق وہ دوہری شہریت رکھ سکتے تھے اور ان سب نے رکھی اور پاکستان کی سیاست اور ریاست میں من مانی کرنے کی کوشش کی جو لوگ پاکستان میں مجرم تھے ان کو برطانیہ نے تحفظ دیا اور اس ہی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری نظام قابل اعتبار نہ رہا۔

میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کو دیکھتا ہوں تو بہت ہی مایوسی ہوتی ہے۔ جمہوریت میں جمہور کی آواز کو سنا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست نے جمہوریت کو بے توقیر کر دیا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے سیاسی نیتا اپنا علاج اور اپنا منشور برطانیہ سے کرواتے اور بناتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ایم کیو ایم مہاجروں کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اور ان لوگوں نے برطانیہ میں ملکہ کی سرکار سے بہت فوائد بھی حاصل کیے اور پاکستان کی سیاست کے ذریعہ لوٹا سرمایہ برطانیہ میں لگایا اور پاکستان میں نظام اور سیاست کو مشکل میں رکھا اور ہمارے کچھ قومی اداروں نے ان پر نظر رکھی اور خاصی مشکل کاوش کے بعد برطانیہ میں رہنے والے سیاسی لوگوں سے جان چھڑوائی اور ان کا پاکستان میں رسوخ ختم کیا مگر اس سے ملکی سیاست تو کچھ بہتر ہوئی مگر برطانیہ نے اپنی روش نہ بدلی وہ اب بھی ہمارے سیاسی نظام میں دخل اندازی کر رہا ہے۔

اب اس وقت پاکستان کی سیاست شدید خلفشار سے دوچار ہے۔ ملک میں عمران خان کی سرکار ہے اور اس کے عسکری اداروں سے تعلقات بہترین ہیں۔ بھارت کے ساتھ معاملات میں سرکار اور فوج کا نقطۂ نظر ایک ہے۔ عمران خان ملک ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے۔ ہمارے سیاسی لیڈر اور حزب اختلاف کرپشن کے معاملات پر عمران خان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ فوج بھی اس معاملہ میں یک سو نہیں ہے اور خرابی بھی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

ایک پاکستانی سیاست دان سابق وزیراعظم اور سزا یافتہ شخص برطانیہ میں بیٹھ کر بھاشن دیتا ہے کہ فوج نے انتخابات میں مداخلت کی جبکہ کسی زمانہ میں وہ بھی ان کا مرہون منت رہا ہے۔ خیر یہ سب کچھ پاکستان کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ بھارت پاکستان پر کسی وقت بھی حملہ کر سکتا ہے۔ پاکستان چینی دوستوں کو مایوس کر رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ مگر ٹرمپ رکاوٹ ہے۔ ٹرمپ اگلا الیکشن جیت نہیں سکتا اور اتنا عرصہ پہلے امریکہ کچھ کر نہیں سکتا۔ صورت حال یہ ہے کہ عمران کے پاس بہت کم وقت ہے۔ پہلے دو سال تو تبدیلی کا سوچنے میں گزر گئے۔ اب نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ اس سال کے آخری چند مہینے اس ملک کے لیے بہت ہی اہم ہیں۔

عمران خان تاریخ میں نام تو بنا چکا ہے مگر یہ سچ اس کے ہاتھوں سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی منصوبہ بندی میں ہمارے غیرملکی مہربان مسلسل رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اس کو اندازہ ہے۔ ملک کے اندر تبدیلی کے لیے اس کی ٹیم تیار نظر نہیں آ رہی۔ عوام اور سیاست دان دونوں ناقابل اعتبار ہوچکے ہیں۔ عوام کے نزدیک نظریہ اور قانون بے مقصد ہیں اور سیاست دان مفادات کے غلام نظر آرہے ہیں اور اس ساری صورت حال میں فوج بھی پریشان ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ سیاست اور فوج کے لیے بیرون ملک دوست کس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ سب کچھ بیرون ملک ہی طے ہو رہا ہے اور اسی لیے اعلیٰ عدالتوں میں اہم کیسوں کے فیصلے لٹکائے جا رہے ہیں۔ کیا ہوگا کوئی کچھ بھی بتا نہیں سکتا ہے۔ عوام کے پاس جانے سے بھی خطرہ ٹلتا نہیں ہے۔ خطرہ سب کو ہے مگر فکر صرف اپنی اپنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).