میاں صاحب! دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے


فیض صاحب تو کہہ گئے کہ چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں۔ ہم بھی کہتے آئے کہ رٹی رٹائی تقریریں اور جذباتی نعرے اچھے لگتے ہیں لیکن کافی نہیں۔

جمہوریت کی بالا دستی سے کس کافر کو انکار ہے، یہ بھی کسے علم نہیں کہ اشاروں کنایوں میں جن کا نام ابھی سات سمندر پار بیٹھے بھی زبان پر پوری طرح نہیں آ پاتا، سوشل میڈیا پہ کھلے عام نام لے لے کر ان پر تنقید ہو رہی ہے۔ مطیع اللہ جان جیسے جیالے زیادہ دم خم رکھتے ہیں، ”ہم سب“ پر لکھنے والوں میں بھی بہت ہیں جو سیاسی قائدین سے زیادہ کھلے بندوں فوج پر تنقید کرتے ہیں۔ ہونی بھی چاہیے، جس کا جتنا کردار ہے اسے وہی ادا کرنا چاہیے۔ بوٹ گھر سے باہر جاتے ہوئے پہنا جاتا ہے نہ کہ سر پر تاج بنا کر رکھا جاتا ہے۔

لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اچھے بھلے سمجھدار لکھاری بھی جذبات کی رو میں بہہ کر چلے کارتوسوں پہ تکیہ کر بیٹھتے ہیں۔ کہ اب تو ڈائریکٹ ہی ہو گئے، کیا تقریر تھی، سبحان اللہ، اب کے جمہوریت مضبوط ہوئی کہ ہوئی، اب تحریک چلی تو ٹینکوں کے نیچے لیٹنے کو بے قرار عوام کو دیکھنا۔ ہمارے چہیتے لکھنے والوں نے بے قراری سے لکھ دیا تھا کہ شعلہ بیاں مقررنے دو ٹوک اور واضح انداز میں طاقت کے غیر جمہوری مراکز کو للکار دیا ہے۔ اور اب دلی دور نہیں۔

ہمارے جیسے ہنوز دلی دوراست کا ورد کرنے کو تھے کہ پتہ چلتا ہے کہ ضرورت ہی نہیں۔ رخ انور کہیں بالکل ہی مخالف جانب ہے۔ ہاں لہو گرم رکھنے کو کبھی کبھی دلی چند کلومیٹر کا نعرہ ضرور لگ جاتا ہے کہ لشکر کے حوصلے بلند رہیں۔

ابھی کل جھولیاں بھر بھر ان کی مرضی کے ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔ لیکن ہماری یادداشت بھی عجب کہ ہر تقریر پر قدم بڑھاؤ۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ کا نعرہ مستانہ لگا دیتے ہیں۔ نعروں کے شور سے ہی کہیں جمہوریت کی سسکی ابھرتی ہے کہ یہ کل ملازم کو طلب کرنے کی بجائے اس کے حضور میں کورنش بجا لا رہے تھے۔ پھر کہیں سے جمہوریت بی بی کا ملازم ہی اطلاع دیتا ہے کہ جو کل آنکھوں میں آنکھیں ڈالے للکار رہے تھے پرسوں اپنے ہرکارے کے ذریعے پچھلا دروازہ ہلکے ہلکے کھٹکھٹاتے پھر رہے تھے۔

تقریروں کا کیا ہے جمعہ بازار ہے۔ بابا جی کی گیارہ اگست کی بھی تقریر تھی جس پہ عمل کر ے نہیں دیتے۔ 65 کی تقریر تھی کہ بزدل دشمن کو معلوم نہیں کس قوم کو لکارا ہے، جسے یاد کر کے بزرگ آج بھی جوش میں آ جاتے ہیں، ہزار سال لڑنے والی تقریر تھی، دھماکے کرنے کے بعد تقریر تھی، بغیر پرچی کے اقوام عالم کے سامنے تقریر تھی جس پر نئے دور کے عثمانی خلیفہ نے بوسہ لے لیا تھا۔ لیکن فیض صاحب کہہ گئے کہ چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں، بازار میں پابہ جولاں اور خوں بداماں چلنا پڑتا ہے اور آپ تو پاکستان کھپے والوں کی طرح مست و رقصاں چلنے سے بھی عاری ہیں۔ چلیں کم از کم انتظار کرنے والوں کو یہ تو یقین دلا دیجئے کہ سمت ہی کم ازکم دلی کی جانب ہو چکی ہے، لشکر کی ٹانگیں اور انتظار کرنے والوں کی آنکھیں تھکنے کو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).