پرنٹ میڈیا کی اہمیت و افادیت!


جس طرح عصر حاضر میں برقی صحافت کی اہمیت و افادیت سے کسی صورت بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح انٹر نیٹ ’سوشل میڈیا کے رجحان میں اضافہ کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اہمیت آج بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے گزشتہ دو دہائیوں کے عرصہ میں صحافت کے شعبہ میں جو وسعت آئی اس نے خبروں‘ تبصروں اور معلومات کو ریاستی سرحدوں کی قیود سے آزاد کر دیا۔ سیٹلائٹ نیوز چینلز ’انٹر نیٹ کی برق رفتاری کے باوجود اخبارات‘ جرائد و رسائل نے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مشکل اور سہل ادوار سے گزرتے ہوئے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔

پرنٹ میڈیا کی ریڈر شپ گو کم ضرور ہوئی لیکن اس کی اہمیت و حیثیت کو ایک مستند دستاویز کا درجہ حاصل ہے پرنٹ میڈیا تاریخ کے سینے میں ایک طویل جدوجہد سے مزین کامیابیاں سموئے ہوئے ہے جس سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں۔ موجودہ صحافت کی بنیاد سترہویں صدی میں پڑی جب جرمنی اور دیگر ممالک میں حالات و واقعات پر مبنی رپورٹس کی اشاعت باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوئی گو رپورٹس لکھنے کا رجحان سترہویں صدی سے بھی قبل تھا لیکن وہ بہت رازدارانہ انداز میں ہوتا تھا۔

اٹھارہویں صدی میں اخبارات اور رسائل کی اشاعت عام ہوئی اور اسی دور میں صحافت نے باقاعدہ شعبہ کی شکل اختیار کی۔ 1920 ء میں جب ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا تو اخبارات و رسائل کے مقابلے میں حالات و واقعات سے آگاہی بہت تیز اور وسیع تر علاقوں تک ممکن ہوئی اور پھر ریڈیو نشریات سے ہی الیکڑانک میڈیا کی بنیاد پڑی۔ 1940 ء تا 1960 ء کے بعد صحافتی میدان میں ٹیلی ویژن کی ایجاد نے تبدیلی و ترقی کے عمل کو تقویت دی۔ 2000 ء میں انٹرنیٹ کے آغاز سے حالات و واقعات تک رسائی میں مزید تیزی آ گئی 2002 ء میں جب نیوز چینلز کے آن ایئر ہونے کا دور شروع ہوا تو جہاں خبریت کے مقابلے کی فضا کو تقویت ملی وہیں سنسنی خیزی نے بھی جگہ بنا لی اور پھر یہیں سے زرد صحافت کی بنیاد پڑی۔

بہر حال اہل قلم ’ادیب اور دانشور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو قوموں کی درست سمتوں کے تعین میں معاون ہوتے ہیں اردو صحافت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے اس کا ناقابل فراموش جاندار کردار آج بھی تاریخ کے صفحوں پر قابل ستائش سنہری حروف میں درج ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان ارود صحافت کے وارث ہیں ایک وقت تھا جب اردو صحافت کے بے باک و نڈر علم کے خزینوں سے مخمور‘ عمل کے شیدائی ’فکر و فن کے سر تاج صحافیوں نے اپنے قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی اور اس قلم سے وہ کام لیا جو کسی زمانے میں شمشیر و سناں اور تیر و تفنگ سے لیا جاتا تھا۔

1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران ہندوستانیوں کے دل و دماغ میں قلم سے نکلے الفاظ نے آزادی کی ایسی روح پھونکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ا اسیری بغاوت پر اتر آئی اور اہل قلم کی قلمی جدوجہد نے غلامی سے آزادی تک کے سفر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی جنگ آزادی کے دوران پس پردہ فوج میں کارتوسوں کی تقسیم کے جس واقعہ کا ذکر تاریخ کے جھروکوں میں آج بھی سر ابھارتا ہے اس واقعے کو پر لگا کر ہوا کے دوش پر اڑاتے ہوئے قلمکاروں نے پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہندوستان میں بسنے والی عوام کے دل و دماغ کو جس انداز میں جھنجھوڑا یہ روح پھونکنے کا ؑظیم کارنامہ صرف اردو اخبارات کے حصے میں آیا۔

آج بھی اخبارات‘ جرائد اور رسائل کو شیش محل کے بالا خانوں ’سیاسی ایوانوں سے لے کر غربت کدوں کی بوسیدہ دیواروں تک اور کھیل کے میدانوں سے لے کر زنداں کے روشن دانوں تک جو اذن باریابی حاصل ہے اس کی بنیاد ہم صحافت پر رکھ سکتے ہیں۔ اخبارات کے ذریعے قلمکاروں نے جو قندیل روشن کی وہ مستقبل کے دریچوں کو آج بھی روشن کیے ہوئے ہے اور اکسیویں صدی کا انسان آج بھی اسی روشنی میں محو سفر ہے فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ قلم کی اشکال بدلتی رہی کبھی شاخ نباتات سے‘ کبھی بانس سے ’کبھی نرکل سے‘ کبھی مور کے پر سے ’کبھی فونٹن پن کی‘ کبھی رفل کی ’کبھی ٹائپ رائٹر کی اور اب اسی قلم نے کمپیوٹرکے کی بورڈ کی شکل اختیار کر لی ہے۔

پرنٹ میڈیا وسیع سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی کے باوجود دور جدید کی ترقی سے بھر پور استفادہ حاصل کر رہا ہے اور اخبارات اپنے قارئین تک نت نئی خبریں‘ اطلاعات اور معلومات بہم پہنچا رہے ہیں اور اخبارات ایک منظم و مربوط طریقہ کار کے تحت خبر رسانی کا کام سر انجام دے رہے ہیں قومی سطح سے لے کر اب اخبارات علاقائی سطح تک پھیل چکے ہیں یعنی خبر رسانی اور معلومات کی فراہمی میں اردو اخبارات آج بھی معاشرے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اس سے اخذ کرنا دشوار نہیں کی پرنٹ میڈیا آج بھی اپنے قارئیں میں مقبول ہے اور اخبارات کی ریڈر شپ میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی لہذا کہا جا سکتا ہے اس تیز رفتار ترقی کے دور حاضر میں بھی خبر رسانی کے میدان میں صف اول کے کھلاڑی کے طور پر موجود ہیں۔

اخبارات نے علاقائی صحافت کا جو تصور اجاگر کیا اس کی اہمیت کو دور حاضر میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ملک کی سیاست ’سماج‘ رسم و رواج ’تہذیب و تمدن‘ فن و ثقافت ’تجارت و معاش‘ معاشرتی رجحانات ’اور علاقائی مسائل کو اجاگر کر کے مقتدر حلقوں تک پہنچا نے میں اخبارات آج بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آج بھی اخبارات کے قاری کی نظر میں اخبار کی اہمیت ایک ایسی پراڈکٹ کی سی ہے جس کو خریدے اور پڑھے بغیر اس کی تشنگی ختم نہیں ہوتی آج بھی پوش علاقوں کے صاحب ثروت افراد کی صبح کا آغاز ایک کپ چائے اور اخبار کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔

ملک میں موجود بڑے نیوز چینلز کے مالکان نے ساتھ ساتھ اپنا الگ سے مؤقر قومی اخبارات بھی چلا رہے ہیں جس سے اندازہ لگانا قطعاً دشوار نہیں کہ پرنٹ میڈیا کا کردار آج بھی ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر موجود ہے جس سے صرف نظر کرنا بے حد دشوار ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا میں زمین و آسمان کا فرق ہے الیکڑانک میڈیا معاشرے کو بروقت مختصر خبر فراہم کرتا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا تفصیل کے ساتھ خبر کا احاطہ کرتے ہوئے قارئین تک خبر پہنچاتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت و افادیت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اخبارات کی جدت کا یہ عالم ہے کہ اب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی اخبارات کا مطالعہ با آسانی کیا جا سکتا ہیں اور جس سے اخبارات قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

اخبارات کے ادارتی صفحات اور مستند قومی‘ بین الاقوامی اور علاقائی خبریں موجودہ دور میں بھی قارئین کی معلومات کا باعث ہیں آج بھی اخبارات کے قارئین کی الیکڑانک میڈیا کی برق رفتاری کے باوجود اخبار کے مطالعہ کے بغیر تشنگی پوری نہیں ہوتی ملک کے گلی کوچوں میں بنے ڈھابوں ’چائے کے ہوٹلوں‘ حجام کی دکانوں پر عوام اخبارات کا مطالعہ کر کے ملکی صورتحالی پر تبصروں میں مشغول پائی جاتی ہے برقی میڈیا اور سوشل میڈیا کی موجودگی کے باوجود اخبارات کی اہمیت و افادیت کسی صورت بھی کم نہیں ہوئی سوشل میڈیا پر الیکڑانک میڈیا کے نیوز ویڈیو کلپس سے زیادہ اخبارات کی خبریں سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہیں اس لئے اخبارات کے قارئین اپنی جگہ آج بھی موجود ہیں اور پرنٹ میڈیا کی اہمیت و افادیت آج بھی اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کی نظر میں ایک مسلمہ حقیقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).