ہائبرڈ وار فیئر، پاکستان اور ہائبرڈ سیاسی نظام حکومت


چیف آف پاک آرمی جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم دفاع اور یوم شہداء کی تقریب سے اور پھر کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کے دوران جو اہم ایشؤ اٹھائے، ان میں اسلامی تشخص کی بنیاد پر پاکستانیت کی پہچان کا اصول سامنے لایا گیا۔ قومی ہیروز کی یاد سے قومی بقا کا اصول باور کرایا گیا اور خصوصاً ہائبرڈ وار اور ففتھ جنریشن وار کے خطرات سے نبٹنے کے لیے خبردار کیا گیا۔ آرمی چیف کا پیغام پوری قوم کے لئے ہے جسے ذمہ دار ترین اور با اثر ترین اتھارٹی میں پیش کیا ہے۔ تو چاہیے کہ قلمی، علمی، مذہبی، سیاسی، فکری، قانونی اور آئینی نقطہ نگاہ سے اس پیغام کو جانچنے اور برتنے میں اس کے لئے پوری قوم کی آواز شامل ہو جائے۔ اس ضمن میں ناچیز کی ناقص رائے کو سنا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ
If you want peace, prepare for war just like Bhutto

اس رائے کا مطلب سمجھنے کے لئے صرف ایک مثال سے ہی کام لیا جائے جو بھارت کے جودھ پور کے علاقے میں پاکستان کے ہندو شہریوں کی ہائبرڈ ہلاکت سے منظر عام پر آئی ہے، تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا کہ اگر ایسا واقعہ پاکستان سے منسوب ہوتا تو کیا بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت اس طرح کی چپ سادھے رکھی ہوتی جیسی پاکستان نے سادھ رکھی ہے؟ اس بارے میں شاید ہماری تیاری کا اسلوب بیان کبھی آیا بھی تو وہ سی سی پی او لاہور جناب عمر شیخ کی عذر خواہی جیسا ہوگا جو انہوں نے موٹروے کے واقعے پر نہ صرف متاثرہ خاتون کی غلطی جتا کے پوری قوم کو باور کرانے کا منصبی حق ادا کر دیا، بلکہ رہی سہی کسر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے نئے آئی جی کو یہ حکم دے کر سمجھا دی کہ سی سی پی او صاحب کی مکمل سپورٹ کی جائے۔

سابقہ آئی جی صاحب کو سی سی پی او صاحب پہلے نکلوا چکے ہیں تو موجودہ آئی جی صاحب کو نکلنے کی بازگشت سنا دی گئی۔ کیا یہ تاثر ہائبرڈ گورنینس یعنی گڈ گورنینس کے نام پر بیڈ گورنینس کی ملتبس نظام آزمائی کا نہیں ہے؟ ایسے سب سوالات کے جوابات سوجھنے کے لیے پہلے پتہ ہونا ضروری ہے کہ ہائبرڈ وارفیئر سے مراد کیا ہے؟

لغوی معنوں میں لفظ ہائبرڈ (hybrid) سے مراد دو مختلف چیزوں کا باہمی خلط ملط ہے۔ لغوی معنوں کے علاوہ ہائبرڈ وارفیئر کی تزویراتی منصوبہ بندی کا عملی اطلاق جاننا مطلوب ہو تو اس کی مکمل تفصیل پال کورنش اور کنگسلے ڈان کی مشترکہ کتاب 2020 ورلڈ آف وار میں پڑھی جا سکتی ہے جہاں ابتداءً ہائبرڈ وار کے میدان عمل کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے دکھایا گیا، جن میں سے ایک حصے کی نشاندہی خفیہ گھات سازی (espionage) ، بے جا اثر اندازی (intrusion) اور انتخابی نتائج سے کیسے من مانے جمہوری ڈھانچے کا امکان (and possibly electoral manipulation) جیسے الفاظ سے کی گئی ہے۔

یہ نشاندہی بجائے خود دور رس اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ یہ جن الفاظ سے دعوت فکر نمایاں کرتی ہے ان کی معنویت کی مدد سے بیرونی دنیا کی اختیار کردہ ہائبرڈ وار سے امن کو لاحق خطرات کے خلاف حربی تیاری سے بہرہ ور رہنے کا موقع بھی ہاتھ آ جائے گا کیونکہ ہائبریڈ وار بالآخر ہتھیاروں کے استعمال پر آ کر جا ٹکتی ہے۔ نیز ملک کے اندر بھی گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کے باہمی خلط ملط ہونے سے حقیقی جمہوریت کے نام پر ہائبرڈ جمہوریت کے نت نئے تجربات آزمانے کی راہ روکنے میں بھی آسانی رہے گی۔

2020 ورلڈ آف وار کے عالمی مصنفین اور مفکرین کے دیے گئے الفاظ یعنی بے جا اثر اندازی (intrusion) ، انتخابی جھانسہ سازی (electoral manipulation) یا خفیہ چال کی بھیس تراشی سے فساد کی گھات (espionage) وغیرہ کے اطلاق سے یہ طے ہونا بھی آسان ہو جائے گا کہ خود پاکستان کے اندر کہیں ہائبریڈ جمہوریت کو فروغ تو نہیں دیا جا رہا؟ اگر ایسا ہے تو اس نظام یا بندوبست کے زیر اثر پورے کا پورا سٹرکچر ہائبریڈ ہو رہا ہوگا۔ اس صورت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ایسی ہائبرڈ سٹریٹجی کے پیچھے جو ہاتھ کار فرما ہے اس ہاتھ کو ہولا کرنے کی تیاری کی جائے۔

پاکستان میں اگر غیر آئینی اور غیر جمہوری نظام نافذ ہوتا آیا ہے تو بتایا جائے یا معلوم کیا جائے کہ ایسا اقدام اٹھانے والی قوت کوئی سیاسی قیادت ہوتی ہے یا کوئی غیر سیاسی قیادت ہوتی ہے؟ اسی طرح یہ بھی پتہ لگانے کی ضرورت ہوگی کہ آئی جے آئی، ایم کیو ایم (نسیم الطافات کا فروغ) ، پیٹریاٹ، لیگیں یا موجودہ عمرانیات تک کا سلیکٹڈ بندوبست اب تک کہاں سے مینی پولیٹ ہوتا آ رہا ہے؟ اس جانب بنی بنائی حقیقت سامنے کھل جاتی ہے کہ اگر رمضان کلینڈر آزاد پاکستان دورہ کے بعد دلی گئے تو وہاں ان کی ملاقات جرنل حکومتی ذمہ داران سے ہوئی پاکستان میں ویسے حکومتی ذمہ داران سے کیوں نہیں ہوئی (روزنامہ جنگ سولہ ستمبر 2020 ) تو اس پر وزیرقانون کے جناب فروغ نسیم صاحب کا ترمیمی قانون مزید وضاحت کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے کہ ”ہمارے دشمن۔ ۔ ۔ کسی (باوردی) افسر کے خلاف غلط بات کروا دیتے ہیں جس کا کوئی ازالہ نہیں ہے۔ قانون میں ترمیم ایسی نہیں کہ آپ فوج پر کوئی بات کریں بلکہ ایسی تضحیک جو اس کے (باوردی) ممبرز سے مخصوص ہو اس کے لئے ہے (روز نامہ جنگ سترہ ستمبر 2020 ) ۔ یہ قانون فوجداری ترمیمی بل ہے جس میں دو سال قید پانچ لاکھ جرمانہ ہو گا۔

متعلقہ ترمیمی بل میں جو ”نسیم الطاف“ سرایت کی گئی ہے وہ بجائے خود ہائبرڈ قانون کی ہے، خواہ کوئی اسے علمی قانون ہونے کا درجہ دینے کا دعویٰ دار کیوں نہ ہوتا پھرے کیونکہ جب ’قانون کی طاقت‘ سے فراغت پانے کے لیے ’طاقت کے قانون‘ کو ’فروغ‘ دینا لگ پڑے تو اس سے ’نسیم الطافات‘ کے جو جھونکے سرسرائیں گے تو اس کے اثرات یقیناً ہائبریڈ قانون کی وارفیئر دہکائیں گے۔ جس ریاستی ادارے کے کسی افسر یا رکن کے تمسخر اڑانے کی سزا دو سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں دی جانے کا قانون بنایا گیا ہے، کیا ایسے افسر کو علمی قانون اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت ملازم کے خلاف اس کے متعلقہ تھانے میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی محض خبر پانے پر ڈی پی او کو ’رسٹرکٹڈ‘ سرکاری چٹھی لکھ کر اسے غلط ’wrong‘ قرار دیتے ہوئے ملزم کا نام اس میں خارج کرنے کا خود فیصلہ لکھ کر بھیج دے اور ملزم کو شامل تفتیش ہوئے بغیر ایف آئی آر کو بے اثر بنا دینے میں پولیس یا قانون کے عمل پر اثر اندازی (intrusion) کا جواز پا سکے؟

اس افسر کی اس بے جا اثر اندازی کے خلاف مدعی پارٹی کہیں شکایت اٹھائے یا چیف آف آرمی سے درخواست کرے (بحوالہ مورخہ اکیس مئی پندرہ) تو کیا اس کا اقدام افسر یا ادارے کے رکن کی تضحیک کے زمرے میں آئے گا اور اسے فروغ نسیم صاحب کے قانون کے تحت مجوزہ سزا کا مزہ چکھنا پڑے گا؟ اس افسر کی یہ رسٹرکٹڈ چٹھی عدالت کے اس ریکارڈ میں محفوظ ہو گی جو ایف آئی آر نمبر 107 30.4.15 تھانہ صدر اٹک کے اس چالان کے ساتھ باقاعدہ لف ہے جس میں افسر کا نام/ عہدہ میجر نعمان فار کمانڈنٹ 11 کیولری فرنٹیئر فورس ملتان بحوالہ نمبر پی/ 5111 ایکٹس بمورخہ 7.5.2015 کے اندراج سے موجود ہے۔

اسی طرح یہ بھی کہ کیا کسی کو تاریخ کا یہ موازنہ پیش کرنے میں بھی قانونی ممانعت ہو سکتی ہے کہ اگر وہ گوام جزیرے پر جاپانی کمانڈر شوچی یوکوی کے امریکی افواج سے شکست کا ذکر کرتے ہوئے بتلائے کہ دشمن کے آگے ہتھیار ڈال کر دشمن کا قیدی ہونے کی بجائے اٹھائیس سال تک شوچی جنگلوں اور غاروں میں مارے مارے پھرنے کی ترجیح کو نبھاتا رہا۔ اس بات کا موازنہ بھارتی جرنیل کے آگے پاکستانی جرنیل کے ہتھیار ڈالنے کی تاریخ سے کیا جائے تو ہم پاکستانیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ پوچھا جا سکے کہ ڈھاکہ پر قبضہ کے لیے دشمن کو جنرل نیازی کی لاش سے گزرنے کی تربیت کیوں نہیں دی گئی تھی؟

بھٹو جنرل نہیں تھے، تختہ دار پر لٹک گئے لیکن ”عبرت کا نمونہ“ بننے کی امریکی دھمکی کے آگے سرینڈر ہونا قبول نہیں کیا۔ کیا وہ قومی ہیرو نہیں ہیں؟ وزیراعظم فیروز خان نون قومی ہیرو نہیں ہیں جنہوں نے گوادر پاکستان کے لیے خریدا تھا؟ کیا آصف زرداری سی پیک کے بانی نہیں ہیں؟ جس کا چین کے سفیر کو تو پتہ ہے لیکن ہمیں اعتراف نہیں؟ قومی ہیروز کی یاد بھلانے سے قومی بقاء کا اصول کیوں یاد نہیں رکھا جاتا اور یہ بھی کہ
if you want peace prepare for war just like Bhutto


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).