نیزہ بازی کا کھیل


نوجوان نسل کو گھڑ سواری جیسے ثقافتی اور صحت افزا کھیل کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز پاکستان اس خوش قسمت خطہ زمین سے تعلق رکھتا ہے جہاں نیزہ بازی جیسے شاندار کھیل ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے نوجوان گھڑ سوار اور نیزہ بازی کے مایہ ناز کھلاڑی صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز نے زور دیا ہے کہ نوجوان نسل کو اس ثقافتی اور صحت افزا کھیل کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔

صاحبزادہ سلطان نے کہا کہ دنیا بھر میں تمام ممالک اور اقوام اپنے اپنے ثقافتی کھیلوں کی پاسداری کرتی ہیں۔ مملکت خدا داد پاکستان کو قدرت نے زبردست ثقافتی ورثہ عطا کیا ہے۔ انہی میں سے ایک قیمتی ورثہ گھڑ سواری اور اس سے وابستہ مختلف کھیل اور فن ہیں جن میں نیزہ بازی پاکستان کے مختلف علاقہ جات بالخصوص پنجاب میں بہت مشہور ہے۔

صاحبزادہ سلطان کا تعلق معروف صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی دسویں پشت سے ہے۔ ایک روحانی تحریک سے وابستگی رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ثقافتی اور صحت افزا کھیلوں میں وہ ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ خانوادہ حضرت سلطان باہو کی روایت رہی ہے کہ ان کے ہاں گھوڑوں کی بہترین نسلیں رکھی جاتی ہیں اور ان سے متعلقہ علوم اور ہنر کی حفاظت اور اگلی نسل کو منتقلی یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس وقت صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز دربار حضرت سلطان باہو سے وابستہ پاکستان میں گھڑ سواری کے سب سے بڑے کلب محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان کلب کے ذریعے اس کھیل کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔

وہ اپنے کلب کے بہترین گھڑ سوار ہیں اور اپنے والد گرامی حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ سے ملنے والی اس وراثت کی بخوبی حفاظت میں مشغول ہیں۔ اپنے بڑے بھائی اور دربار حضرت سلطان باہو سے وابستہ روحانی تحریک کے سرپرست حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز ملک بھر میں نیزہ بازی اور گھڑ سواری کے بیسیوں مقابلوں میں نمایاں کارگردگی دکھا کر بہت سے اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نیزہ بازی کی قومی ٹیم کا بھی حصہ ہیں اور عالمی سطح پر نیزہ بازی کے مقابلہ جات میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ صاحبزادہ سلطان نیزہ بازی کے ساتھ گھڑ سواری کے دیگر روایتی فنون کے بھی ماہر ہیں جن میں اورنج کٹنگ اور ہائی سٹیپ واک قابل ذکر ہیں۔

صاحبزادہ سلطان محمد بہادر عزیز کا کہنا ہے کہ گھڑ سواری ان کی خاندانی روایت ہے اور ان کے ہاں نہایت احسن انداز میں نسل در نسل اس کی منتقلی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خاندانی روایت ہونے کے سبب انہیں بچپن سے ہی گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اپنی روایات کی پاسداری کے سبب ان کے کلب میں کئی نایاب نسل کے گھوڑے بھی موجود ہیں اور گھوڑوں کی نسل افزائی کے لئے خاص توجہ دی جاتی ہے۔ کئی ایسے گھوڑے بھی ہیں جن کی نسل قریباً چار سو سال سے حفاظت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ عشرے قبل تک گھڑ سواری کا فن زوال پذیر ہو گیا تھا لیکن الحمدللہ اب دوبارہ اس روایت کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول ہوئی ہے اور اس ضمن میں ہمارے کلب نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

صاحبزادہ سلطان بہادر عزیز نے خیالات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اپنی ثقافت اور روحانی اساس کے سبب دہشت گردی کی عفریت سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو ایک صحت مند ماحول اور ذہنی و جسمانی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ ایک معتدل معاشرے کے قیام میں کھیلوں کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جب ذہنی نشوونما کا اہتمام آسان ہو رہا ہے وہیں ہماری توجہ جسمانی صحت کی جانب کم ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔

چنانچہ ہمیں ایسے ہنر اور کھیل کی قدر کرنی چاہیے جو ہماری جسمانی و دماغی دونوں کی نشوونما کے لئے ضروری ہے اور انہی میں ایک گھڑ سواری اور نیزہ بازی ہے۔ پاکستان میں اس کھیل کو تقویت دینے میں مختلف تعلیمی ادارہ جات نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے جن میں ایچی سن کالج لاہور، کیڈٹ سکولز، صادق پبلک سکول اور پنجاب رینجرز ہیڈ کوارٹرز قابل ذکر ہیں جو مقابلہ جات منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ ٹریننگ کی سہولت بھی مہیا کیے ہوئے ہیں۔ تاہم ابھی اس ضمن میں بہت کام ہو سکتا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایسی سہولیات کی فراہمی ہونی چاہیے تاکہ گھڑ سواری کے شوقین حضرات اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور ساتھ ہی ساتھ نیا ٹیلنٹ بھی ابھر کے سامنے آئے کیونکہ پاکستان میں کسی اعتبار سے بھی ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔

صاحبزادہ سلطان گھڑ سواری کے علاوہ آف روڈ ریسنگ میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور چولستان، گوادر، جھل مگسی، تھل اور دیگر مقامات پر منعقد ہونے والی آف روڈ ریسنگ میں مختلف میڈلز اور پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کھیلیں نہ صرف عالمی سطح پہ پاکستان کا سافٹ امیج سامنے لاتی ہیں بلکہ ہماری سرزمین کے نہایت شاندار اور خوبصورت نظاروں کی جانب سیاحوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ چاہے وہ ریگستانوں کی چمکتی ریت ہو، سکردو کے پہاڑوں کی چوٹیاں ہوں، گوادر کے بل کھاتے راستے ہوں یا جھل مگسی کے پرپیچ ٹریک، آف روڈ ریسنگ نے پاکستان کے قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے لایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کی توانائیوں کو مثبت سمت میں استعمال کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ اس کے علاوہ دور افتادہ ریموٹ ایریاز کے عوام کو ملکی معیشت میں براہ راست شامل ہونے کا موقع بھی مہیا کیا ہے۔

صاحبزادہ سلطان نے حکومت پاکستان پہ زور دیا ہے کہ اسے ایسے کھیلوں کی حکومتی سطح پہ سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ نوجوانوں ان کھیلوں میں شوق سے حصہ لیں اور انہیں مزید فروغ دیا جا سکے۔ مختلف حکومتی ادارہ جات اور پرائیویٹ سیکٹر سے مختلف شعبہ جات کو ان کھیلوں سے منسلک کیا جانا چاہیے جن میں سیاحت سرفہرست ہے۔ اسی طرح ثقافت، فنون لطیفہ، تاریخ، میڈیا اور دیگر ایسے شعبہ جات کی وابستگی سے ان کھیلوں کو بہت ترقی دی جا سکتی ہے جو نہ صرف ہماری ثقافت اور سیاحت کو فروغ دیں گے بلکہ ملکی معیشت میں بھی نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

شجاعت علی، کراچی
Latest posts by شجاعت علی، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).