وادی بروغل


وادی بروغل پاکستان کے صوبہ خبیرپختوں خواہ کے ضلع چترال اپر کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال یہ علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وادی بروغل کی کل آبادی تقریباً 220 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اس وادی میں نسلی طور پر تین قومیں یا لسانی گروہ واخی، سراقیلی اور کرغیز آباد ہیں۔ اس طرح علاقے میں تین زبانیں واخی، سراقیلی اور کرغیز بولی جاتی ہے۔ ان زبانوں میں بولنے والوں کی تعداد کے حساب سے واخی یوسی بروغل کی بڑی زبان ہے اس کے بولنے والے وادی بروغل کے ہرگاؤں میں موجود ہیں۔

واخی کے بعد سراقیلی کا نمبر آتاہے سراقیلی بولنے والے لوگ لشکرگاز میں آباد ہیں یہ وادی بروغل کا وہ علاقہ ہے جہاں تک گاڑی جاتی ہے یہاں سے اگے گاڑی کا راستہ نہیں ہے۔ علاقے میں بولی جانے والی تیسری زبان کرغیز ہے۔ یہ زبان بولنے والا واحد خاندان وارکون گاؤں میں مستقل طور پر آباد ہے۔ وادی بروغل کے باسی اپنی مادری زبانوں کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ چترال کی بڑی زبان کھوار بول اور سمجھ لیتے ہیں۔

سطح سمندرسے 4272 میٹربلندی پر واقع پاکستان کی دوسری بلند ترین مشہور اور خوبصورت جھیل، جھیل قرمبرہ بھی اس وادی میں واقع ہے۔ اس جھیل کی لمبائی 3.9 کلومیٹر اورچوڑائی 2 کلومیٹر ہے۔ وادی بروغل کشمانجہ سے شروع ہوکر کھوئے، پیچ اوچ، ویدین کھوت، وارکون، چیکار، لشکرواز، یارکھان، منڈاہی، چیلیماربٹ، گارل اور لشکرگاز پر مشتمل ہے۔ لشکر گاز کے آخری حصہ ارشاد گاؤں تک گاڑی جاتی ہے لیکن شرط یہ ہے گاڑی جیب ٹائپ اور فوویل ہو یہاں پر روڈ بہت خستہ حال ہیں کار اور چھوٹی گاڑی سے یہاں تک رسائی بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

یہاں سے اگے مستقل آبادی نہیں ہے صرف سرمائی چراگاہ پر لوگ مویشیاں چرنے یا سیاح جھیل قرمبرہ کی سیر کے لیے جاتے ہیں۔ لشکرگاز میں سیاحوں کی سہولت کے لیے علاقے کا واحد گسٹ ہاؤس موجود ہے جہاں پر قرمبرہ کی سیر کو جانے والے رات گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ ارشاد گاؤں سے قرمبرہ جھیل تک جانے کے لیے گھوڑے اور گدھے کرایے پر مل جاتے ہیں۔ یہاں سے اگے کا فاصلہ تقریباً پیدل کے لیے آٹھ گھنٹے کا ہے اور گھوڑے اور گدھے پر بھی اتنا ہی وقت لگتاہے۔

لشکرواز گاؤں میں چترال سکاوٹس کی چھاؤنی بنی ہوئی ہے۔ یہاں سے اگے جانے والوں سے شناختی کارڈ کا اندراج اپنی رجسٹر میں کرکے شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور واپسی پر کارڈ یہاں سے لینا ہوتاہے۔ یہاں پر ایک پولو گروانڈ بھی بناہواہے جس میں ہرسال جشن بروغل کے نام سے ایک میلہ بھی منعقد ہوتاہے جس میں پولو، خوشگاؤ پولو کھیلاجاتا ہے اور ثقافتی پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔

وادی بروغل کے لوگوں کا واحد ذریعہ معاش گلہ بانی ہے۔ خاص کرکے بکری، دنبے اور خوشگاؤ ( (yakیہاں کے لوگ زیادہ پالتے ہیں۔ گرمیوں میں مال مویشیوں کو بالائی چراگاہوں میں لے جایا جاتا ہے گھر کے کچھ افراد مال مویشیوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس موسم میں دودہ ذخیرہ کرکے اس سے مختلف قسم کے خوراک بناکر سردیوں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ سرمائی چراگاہ میں گھاس کھاکر جب جانور خوب موٹے تازے ہوتے ہیں تو ان میں سے کچھ کو بیج کر سردیوں کے لیے سودا سلف خرید کرگھروں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔

علاقے کے لوگ اپنے لیے گوشت کا بندوبست بھی گھر میں ہی کرلیتے ہیں۔ یہاں پر سردیوں کا موسم بہت سخت ہوتا ہے سردیوں میں یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے گھر سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ کبھی کبھی سردی کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے، اس کی شدت اور چارے کی قلت کی وجہ سے مال مویشی مرجاتے ہیں۔ موسم کی شدت کو کم کرنے کے لیے علاقے کے زیادہ لوگ افیون کا نشہ کرتے ہیں۔ بروغل میں سردیوں کا دورانیہ سال میں آٹھ مہینے رہتاہے۔

وادی بروغل سطح سمندر سے اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں پر درختیں نہیں ہیں۔ اس وجہ سے جلانے کی لکڑی کی یہاں پر قلت ہے۔ لوئر بروغل میں مختلف قسم کے چھوٹے قد کی درختیں اور جڑی بوٹیاں پائے جاتے ہیں جو جلانے کے کام آتے ہیں۔ اس علاقے میں ایک خاص قسم کا گھاس پایاجاتا ہے جو گرمیوں کے موسم میں مٹی سمیٹ اکھاڑ کر سوکھایا جاتا ہے جس کو سال کے بارہ مہینے علاقے کے لوگ ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں مقامی زبان میں اسے چیم کہتے ہیں۔ علاقے میں سبزہ بھی بہت کم وقت کے لیے اگتاہے اس لیے کبھی کبھی مال مویشی فاقے کا شکار ہوتے ہیں۔

گریل گاؤں سے دروازہ پاس صرف دوگھنٹے پیدل کی مسافت پر واقع ہے جو بروغل کو واخان پٹی افعانستان سے ملاتاہے۔ اس طرح دفاعی طور پر اہم علاقہ ہونے کے باوجود بھی یہاں پر مستقل جیپ ایبل روڈ نہیں ہے۔ گرمیوں میں علاقے کے لوگ اپنی مدد اپ کے تحت روڈ بناکر لشکرگاز گاؤں تک آمدورفت کو ممکن بناتے ہیں جو ہمیشہ موسم کے رحم کرم پر ہوتاہے۔ تھوڑی سی بارش ہو جائے یا دریا میں طعیانی آ جائے تو روڈ آمدورفت کے قابل نہیں رہتا۔

اس لیے موسم کی حالت دیکھ کر علاقے کے لوگ اپنے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء لاکر سال بھر کے لیے ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ علاقے کے لیے مستقل روڈنہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ چھوٹے قد کے کوہستانی نسل کے گھوڑے پالتے ہیں جن کو سواری، بربارداری، اور پولو کھیلنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ خوشگاؤ پولو (yak polo) یہاں کی مشہور مقامی کھیل ہے۔ جو کہ خوشگاؤ پر سوار ہوکر کھیلا جاتا ہے ۔ یہاں کے لوگ خوشگاؤ کو سواری کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

گرمیوں کے موسم میں وادی بروغل کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہوتی ہے۔ وادی بروغل کے آغاز میں ہی چیکار گاؤں میں روڈ کے ساتھ ہی گلیشیر موجود ہے۔ اس گلیشر کے نشانات دیکھ کر پتہ چلتاہے ماضی میں اس کا ہجم بہت بڑا ہوتا ہوگا لیکن یہ اب پگھل کر سکڑ گیاہے اس گلیشر کے ساتھ ایک بڑا تالاب بناہواہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ یہ گلیشیر کافی تیزی سے پکھل رہا ہے۔ یہاں سے اگے برف پوش پہاڑ اور ساتھ صاف پانی ایک ساتھ بہتے نظر آتے ہیں۔

کویو زوم (کویو کا پہاڑ) یہاں کی سب سے اونچی چوٹی اور چیانتر گلیشیر علاقے کی سب سے بڑی گلیشیر ہے۔ یہ گلیشیر دریاء یارخون کا کا منبع ہے جوچترال خاص جاکر دریا چترال اور اگے جاکر دریا کابل کہلاتاہے۔ اس علاقے میں اور بھی بہت چھوٹے بڑے گلیشر موجود ہیں، ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے جھیل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ علاقے کی ایک خاص بات یہ ہے گارل گاؤں سے اگے ہر ایک پتھر کے اوپر مارمیٹ بیٹھے ہوئے نطر آتے ہیں، ان میں سے اگر ایک نے بھی کسی کو باہر سے آتا دیکھے تو اپنی مخصوص آواز میں آپنے ساتھیوں کو خبردارکرتاہے تو یہ آواز سن کر سارے مارمیٹ ایک ساتھ اپنی بل کی طرف بھاگتے ہیں تو نظارہ دیکھنے کے قابل ہوتاہے۔ ایک سیاح یہ سارے قدرتی نظارے دیکھ کر فطرت کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔ جسے بندے کوکئی گھنٹے پیدل چل کر بھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔

معاشی طور پر کمزور اور حکومتی سطح پران کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ہونے کے باوجود بھی علاقے کے لوگ بہت ہی پیارے اور دل کے غنی ہیں۔ ان کے پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہے۔ ۔ ہر وقت ان غریب لوگوں کے دروازے سیاحوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ رات ہو یا دن سورج ہو یا بارش ہمیشہ سیاحوں کی خدمت کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جو گھر میں ہوں پیش کرتے ہیں جو سہولت ان کی طرف سے ہو سکے خندہ پیشانی سے مہیاکرتے ہیں۔

سنا یہیں تھا کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے کاش کہ ریاست پاکستان ماں کے نام کے تقدس کا خیال رکھ کر وادی بروغل کے باسیوں کے ساتھ بھی ماں جیسا رویہ اپناتی۔ لیکن معاشی طور پر پسماندہ اور سہولت سے محروم وادی بروغل کے لوگوں کے ساتھ حکومت کا رویہ سوتیلی ماں جیسی ہے۔ پاکستان کے کسی حکومت نے یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ یہاں پر ہسپتال ہے اور نہ سکول اور نہ کوئی حکومت کی طرف سے دوسری سہولیات۔ معمولی سے معمولی علاج کے لیے یہاں کے باسیوں کو لمباسفر طے کرکے سول ہسپتال بونی جانا اپڑتاہے۔ حکومت اس پسماندہ علاقے کی لوگوں کے مشکلات کو سامنے رکھ کر یہ اقدامات کریں تو معاشی طور پر کمزور لوگوں کے لیے زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا ہوں۔

حکومت کم ازکم دو کمرے پر مشتمل ہسپتال یہاں پر مستقل طور پر قائم کریں جہاں پر ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر موجود ہوں۔ حکومت وقت یہاں پر یوٹیلٹی سٹور قائم کریں جس میں کھانے پینے کی چیزیں دوسرے علاقوں کے یوٹیلٹی سٹور سے بھی رعایتی نرخ پر دستیاب ہوں۔ وادی بروغل میں جنگلات کی کمی ہے، اس وجہ سے جلانے کی لکڑی کی قلت ہے یہاں پر سردیوں کا دورانیہ تقریباً آٹھ مہینہ کا ہوتاہے۔ حکومت علاقے کی عوام کا خیال رکھتے ہوئے ان لوگوں کو گیس سلنڈر مہیاکریں اور یہ رعایتی قیمت پر ہوں۔

سرد موسم کی وجہ سے سال میں یہاں پر کوئی فصل نہیں ہوتی۔ اس لیے حکومت یہاں کے لوگوں کو آٹا رعایتی نرخ پر مہیا کریں۔ ان اقدامات سے علاقے کی لوگوں کے زندگیوں میں بہت آسانیاں پیدا ہوں گے ۔ لیکن کیا کیا جائے درالحکومت سے دور ا ن پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے ہمارے سارے سیاسی پارٹیوں کی پالیسی ایک جیسی ہے بس سال میں وادی بروغل میں تین روزہ جشن مناکر حکومتی عہدہ دار یوں سمجھ لیتے ہیں کہ حکومت نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر دیاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).