کوئٹہ سفر نامہ: سفر کا آغاز اور ابتدائی مشکلات



2013 میں چچا جان کی کوئٹہ پوسٹنگ ہوئی تب سے انہوں نے کوئٹہ وزٹ کرنے کی دعوت دی اور بارہا کہا کہ چھٹیوں میں کوئٹہ وزٹ کرو۔ اور ہمیشہ ہی چھوٹے موٹے کام آڑے آتے رہے جس کی وجہ سے کوئٹہ جانا نہیں ہوا۔ کرونا میں طویل آئسولیشن کے بعد جب عید الضحی پر اپنے گاؤں بستی بزدار گیا تو وہاں چاچو بھی عید منانے آئے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ کوئٹہ جاتے ہوئے تمہیں بھی ساتھ لیتا جاؤں گا اس لیے تیار رہنا۔ میں نے بھی کوئٹہ جانے کی پکی نیت کر لی اور سات سال سے پینڈنگ سفر مجھے طے ہوتا نظر آنے لگا۔

عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد چاچو اپنی فیملی (جن میں چچی اور دو پیاری سی شہزدایاں ہیں ) کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ اگلی صبح چھوٹے بھائی سمیت کوئٹہ براستہ ڈیرہ غازیخان، فورٹ منرو سفر کا آغاز ہوا۔ پہلا مختصر سٹاپ سخی سرور (جس کی پورے پاکستان میں وجہ شہرت بارہویں صدی کے بغداد سے تعلق رکھنے والے صوفی درویش حضرت سید احمد سلطان ہیں جنہیں سخی سرور بھی کہا جاتا ہے ) کے مقام پر ہوا جہاں بچوں کے لیے جوس اور چپس وغیرہ خریدے۔ ضروری اشیاء لینے کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کیا اور گاڑی چلنے کے آدھا گھنٹہ بعد ہی ہمیں ٹرکوں کی ایک لمبی لائن نظر آئی۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آگے راستے بند ہے۔

کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ہماری گاڑی بھی ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے رک گئی اور لوگوں کی راستہ بند ہونے پر مختلف آراء اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ڈائریکٹر کی معلومات کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ سفر ممکن نہیں۔ اس لیے ہم نے ڈیرہ غازیخان واپسی کی اور اگلے دن تک سفر ترک کر دیا۔ رات تک ہمیں معلوم ہوا کے راستہ کھلنے کے اگلے کئی گھنٹوں تک کوئی آثار نہیں اس لیے چاچو نے عمیر (جو چچی کا بھائی اور بارڈر ملٹری پولیس میں ایک قابل اور جانباز نوجوان ہے ) اور دیگر دوستوں سے متبادل راستہ پوچھنا شروع کیا۔ عمیر نے بتایا کہ سخی سرور سے پہلے ایک چھوٹی سڑک سے راستہ نکلتا ہے جو فورٹ منرو کو بائی پاس کرتے ہوئے آپ کو رکنی تک پہنچا دے گا۔

اگلے روز چاچو نے کوئٹہ کا سفر براستہ سخی سرور، رونگھن، مبارکی، رکنی طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ سفر کا آغاز ایک بار پھر سنیہا (چاچو کی بیٹی جس کی عمر 6 سال ہے ) اور چاچو کی آواز میں سفر کی دعا سے شروع ہوا۔ اور سخی سرور پل سے پہلے معلومات لینے کے بعد ہم اس چھوٹی سڑک پر چل پڑے جو فورٹ منرو کو بائی پاس کرتے ہوئے رکنی کی طرف جاتی تھی۔ چند کلو میٹر کے فاصلے کے بعد پہاڑوں میں راستہ بناتی پکی سڑک ختم ہوگئی اور کچی سڑک نے ہمیں شش و پنج میں ڈال دیا کہ اس ناہموار اور پتھریلے راستے سے ہم رکنی پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ سڑک پر ترقیاتی کام ہو رہا تھا جس کی وجہ سے بجری اور پتھر راستے کو مزید دشوار گزار بنا رہے تھے۔

ایک جگہ گاڑی کے دونوں پہیے بجری میں دھنس گئے جس کی وجہ سے گاڑی کے انجن کو کافی زور لگانا پڑا۔ ہمیں نہیں پتہ تھا گاڑی کے ساتھ یہ زور آزمائی ہمیں آگے چل کر بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔ پہاڑی اور دشور گزار راستہ طے کرنے کے بعد جب گاڑی تقریباً ایک گھنٹے کے بعد پکی سڑک پر چلی تو ایک لمحے کے لیے لگا کہ دشوار گزار پہاڑی راستے کی تمام سفری مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔ اسی دوران بارش نے ہمارے دونوں اطراف پھیلی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیا۔ گاڑی کی کھڑکی سے ہاتھ نکال کر بارش کی تیزی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی باوجود اس کے کہ میرے پاس بارش کی رفتار ماپنے کا بنیادی علم بھی نہیں تھا مگر ہر انسان کے اندر ایک چھوٹا سا سائنسدان بھی موجود ہوتا ہے جو اسے ایسی حرکتیں کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اردگرد کی خوبصورتی نے ہمیں اپنے سحر میں مبتلا کیا۔ کوہ سلیمان کے بلند و بالا پہاڑ جو کہیں سرسبز درختوں سے تو کہیں پتھر سے ہمارے راستے کو حسین بنا رہے تھے، گہری کھائیوں اور وادیوں نے ہمیں دنیا کی پریشانیوں اور خاص طور پر کرونا کے سٹریس سے آزاد کر دیا۔ یک بائی کا پہاڑ جو بادلوں کی چادر اوڑھے شاید ہمیں ماحول سے محظوظ ہوتا دیکھ رہا تھا خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ جانوروں کی گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز ماحول کو مزید خوبصورت بنا رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس ساز پہ پہاڑ، درخت اور فطرت کی ہر شے محو رقص ہو۔

ہم فطرت کے ان تمام مظاہر سے ہلکی بارش میں لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ پکی سڑک کی ایک جگہ چڑھائی پر گاڑی ایک دم بند ہوگئی۔ پہلی سوچ جو میرے دماغ میں آئی وہ یہ تھی کہ شاید گاڑی گئیر وقت پر نا بدلنے پر بند ہوگئی۔ مگر کچھ ہی دیر میں پتہ چلا کہ گئیر ہی نیوٹرل ہوگیا اور گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ فورٹ منرو کا راستہ بند ہونے کی وجہ سے سبزی لادنے والی گاڑیاں جو عموماً اونچی ہوتی ہیں آرام سے گزر رہی تھیں۔ ان کے ڈرائیوروں نے فیملی کے ساتھ ہمیں پریشان دیکھا تو گاڑی کا بونٹ کھول کر ہر ممکن طبع آزمائی کی اور اپنے فہم کے مطابق گاڑی کا مرض تشخیص کیا۔ اکثریت اس بات پر متفق ہوئی کہ گاڑی کا ایکس ایل ٹوٹ گیا ہے جس کے لیے تجویز یہ دی کہ گاڑی کو کسی دوسری گاڑی کے ساتھ ٹو چین کر کہ واپس لے جایا جائے اور کسی ورکشاپ میں مرض کے علاج کے لیے فوری داخل کروایا جائے۔

چچی ان کی دو چھوٹی بیٹیاں ( چھ سال کی سنیہا اور گیارہ ماہ کی عنایہ) اور میرے چودہ سالہ چھوٹے بھائی (الریان) کو بارڈر ملٹری پولیس کی موٹر گاڑی میں سخی سرور شہر تک پہنچایا گیا جس میں بارڈر ملٹری سالار قسمت علی نے بھر پور تعاون کیا سخی سرور شہر سے میرے والد صاحب انہیں گھر گاڑی میں واپس لے گئے۔ چچا جان اور مجھے مغرب کے وقت ایک پرانی اور بدحال سبزیاں لادنے والی موٹر گاڑی ملی جس کے گاڑی بان نے دعویٰ کیا کہ وہ دبئی میں بڑی گاڑیاں چلاتا رہا ہے۔

پریشانی اور نیٹ ورک نا ہونے کے باوجود مقامی لوگوں کے بھرپور تعاون کے بعد گاڑی ٹوچین کر کہ ہم 30 کلومیٹر کے پہاڑی راستے کی طرف واپسی کا راستہ طے کرتے ہوئے شہر کی جانب روانہ ہوئے۔ چاچو گاڑی میں سٹیرنگ سنبھالے بیٹھے تھے جبکہ میں ڈرائیور کو یہ یاد دہانی کروانے کہ لیے اس کے ساتھ اس کی موٹر میں بیٹھا کہ یہ دبئی نہیں پاکستان ہے اور ہمارے اطراف گہری کھائیوں سمیت راستہ دشوار گزار ہے اس لیے یہاں پاکستانی ڈرئیواروں کی طرح گاڑی چلانی ہے۔

خیر دو بار کھائی میں گرنے سے بچنے اور بارہا چڑھائی پر ریورس میں آنے سمیت ڈرائیور نے ہمیں 30 کلو میٹر کا پہاڑی سفر تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹوں میں طے کروا دیا اور ہم رات پونے بارہ کے لگ بھگ سخی سرور پہنچے جہاں ہم نے گاڑی ایک پیٹرول پمپ پر کھڑی کی اور ڈرائیور کو اس کی ادائیگی کر کے میرے والد صاحب جو ہمیں لینے آئے ہوئے تھے کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوئے اگلی صبح گاڑی کا نیا ایکس ایل ڈلوا کر گاڑی کو ڈیرہ غازیخان لے آئے جہاں اس نے سارا دن ورکشاپ میں گزارا۔ یوں ہماری دوسرے دن کوئٹہ جانے کی کوشش بھی ناکام رہی اور تیسرا روز گاڑی نے ورکشاپ میں گزارا۔ (جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).