الاسکا میں پہلا پڑاؤ – مچھلی پلانٹ، ریچھ اور سیاح


تفریحی بحری جہاز اپنے مسافروں کے مکمل آرام کا خیال اور اعلی میزبانی کرتے علی الصبح رفتار آہستہ کر رہا تھا۔ سپیکر سے آئسی سٹریٹس ( ہونا ) الاسکا میں چند گھنٹے کے پڑاؤ کا اعلان کرتے مسافروں سے اپنے پاسپورٹ ساتھ لینے، چند گھنٹے کے قیام، یہاں دیکھنے یا تفریح کے مقامات اور سہولتوں کے متعلق بتاتے یہ بھی بتایا گیا کہ چونکہ اتنے بڑے بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کی سہولت اس چھوٹی بندرگاہ پر نہیں لہذا نیچے کی منزل سے موٹر بوٹس پر مسافروں کو ساحل تک پہنچایا جائے گا۔ اور اس کے لئے ہدایات جاری کر دی گئیں۔

لمبے پل سے گزرتے ساحل پہ پہنچ چکے تھے۔ بچوں نے دنیا کی سب سے بڑی اور تیز رفتار زیپلن کی سواری کا ٹکٹ لیا اور بس ان کو تیرہ سو فٹ اونچی پہاڑی چوٹی پر لے گئی جہاں سے ( چھ متوازی ) تاروں کے ساتھ لٹکتے سیاح سو کلو میٹر کی رفتار سے چند منٹ میں نیچے پہنچتے ہیں۔ ہم تو بمشکل چل سکنے والے ان لذتوں کو صرف دیکھنے والے تھے۔ ہم نے وہیں گھومتے رہنے کا پروگرام بنایا۔ اچانک نظر پڑی کہ ساحل کے بالکل ساتھ نیچے سے ڈبے سے اوپر جا رہے ہیں۔

قریب پہنچے۔ نیچے جھانکا۔ وہی انیس سو پچاس کے زمانے کا پاکستانی کنویں کا نظارہ تھا۔ وہاں بیل گھماتے پانی سے بھری رسیوں سے بندھی مٹی کی ٹنڈیں ( گڑویاں ) اوپر آ لکڑی کے پرنالے میں پانی انڈیلتی پھر نیچے جاتیں۔ یہاں نیچے کھڑی بڑی سی سمندر سے پکڑی مچھلیوں سے بھری موٹر لانچ میں سے ان سٹیل کے ڈبوں میں مچھلیاں ہر سائز اور رنگ کی اوپر آ رہی تھیں۔ اور اوپر کنویئر بیلٹ پہ انڈیلتی جاتی اور وہ ساتھ بڑی سی فیکٹری نما عمارت میں پہنچتا خالی ہو واپس آ رہا تھا۔

یاد آیا کینیڈا کی تاریخ پڑھتے کہ یہ بھی ہوا تھا۔ الاسکا روس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اٹھارہ سو سڑسٹھ میں یو ایس اے نے بہتؔر لاکھ ڈالر میں اسے خریدا۔ اور منصفوں نے کینیڈا کے ساتھ سرحد بندی کے وقت ساحل کے ساتھ ایک پوری ایک ہزار میل کی پٹی کہ جہاں سمندر دنیا کا سب سے زیادہ مچھلیوں اور دوسری سمندری حیات کی اقسام ملتی ہیں۔ الاسکا کا حصہ قرار دیں، مگر امن کی خاطر دونوں اطراف نے لمبی ثالثی کے بعد چپ سادھ لی۔ گو کبھی کبھار کوئی دل جلا اس درد کو بیان کر ہی دیتا ہے ”کشمیر کہاں نہیں دنیا میں“ ۔

میں اور بیگم محویت سے یہ مچھلیاں اوپر جاتی دیکھ رہے تھے۔ کہ کشتی سے ساحل کے ساتھ لگی سیڑھی پہ چڑھتا ایک شخص اوپر آیا اور ہماری دلچسپی کو ایک آدھ منٹ غور سے دیکھتے میرے نزدیک آ کر محبت سے بولا۔ یہ مچھلیاں پراسیس کرنے کا پلانٹ ( کینری ) ہے اور میں اس کا مالک ہوں۔ اگر آپ نے مشاہدہ کرنا ہے تو میرے ساتھ اوپر آجائیں۔ پھر پیچھے کھڑے سیاحوں بھی دعوت دے دی۔ یوں کوئی بیس سیاح سیڑھیاں پھلانگتے اوپر ایک گیلری میں جا پہنچے۔ جہاں ایک طرف شیشے کی دیوار کے دوسری طرف کام جاری تھا۔ ایک کارکن کو بلا ہمیں گائیڈ کرنے کو کہا۔ اور ساتھ ایک میز پر پڑے کنٹینر کی طرف اشارہ کرتے کافی سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دے دی۔ اور خود اجازت لے دفتر میں چلا گیا۔

کنویئر بیلٹ پر آتی مچھلی ایک بڑے حوض میں گرتی۔ دو حوضوں میں دھل کر پھر کنویئر بیلٹ پہ آجاتی تین چار کارکن ہر قسم کی یعنی سالمن، کنگ، روہو، کھگا وغیرہ اٹھا علیحدہ علیحدہ کنویئر بیلٹ پر ڈالتے۔ آگے آتے مشینیں سائز کے مطابق چھانٹ کر علیحدہ بیلٹ پر ڈالتیں۔ ہمارے قریب والے بیلٹ پر سالمن کی تین چار کلو سائز والی مچھلی آ رہی تھی۔ بیلٹ کے دونوں طرف کھڑے کارندے پہلے چار آتی مچھلی پکڑ اس کے چاننے ( باہر لگی سیپیاں سی) اور کانٹے وغیرہ صاف کرتے۔

اگلے ان کے سر اور دم کاٹ کے ڈرم میں پھینکتے۔ اس کے بعد والے پیٹ کاٹ انتہائی مہارت سے تیزی سے اندر سے صاف کرتے آگے ڈرم میں پھینکتے۔ یہ ڈرم دوسرے شعبوں میں جا رہے تھے جہاں ضرورت کے مطابق ان کو ٹکڑوں میں یا جلد اتار کانٹے نکال فلؔیٹس پیکنگ شعبہ میں بیجا جا رہا تھا۔ نصف گھنٹہ سے زائد ہم یہ دیکھتے سوال کرتے۔ خصوصاً صفائی کے انتظامات دیکھتے حیران ہو رہے تھے۔ اور مجھے کراچی فش ہاربر کے متعلق کوئی دس سال قبل دیکھی ڈاکو مینٹری یاد آ رہی تھی۔ مچھلیاں اترتی اور ساحل پر ڈھیر۔ اور ہر طرف پھیلی گندگی۔ خدا کرے اب تک کہ بیس سال گزر گئے وہاں بھی کوئی ماڈرن پلانٹ لگ چکا ہو۔ اور صفائی کا اہتمام بھی ہو۔

وہاں سے نکل ہم زیپلن کے زمینی پلیٹ فارم کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک پولیس کی دو گاڑیاں سائرن بجاتے ہم سے کچھ آگے رکیں اور رائفلیں اٹھائے پولیس والے دوڑتے گلی میں گھس گئے جہاں چند سیاح کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ بیگم صاحبہ کو تماشا دیکھنے کا موقع اللہ دے۔ گھستی کھسکتی آگے جا پہنچیں۔ کوئی سو فٹ لمبی گلی ختم ہوتے ہی خاصی اونچائی کی طرف جاتی گھنے درختوں سے ڈھکی پہاڑی کے دامن میں ایک بڑا سا کالا ریچھ کھڑا گلی میں پڑے بڑے سے کوڑے دان کے گرد چکر لگا رہا تھا اور چار پولیس والے ہاتھوں میں بیہوش کر دینے والی ٹیزر بندوقیں لئے چاق و چوبند کھڑے سیاحوں کے آگے پیلی پٹی باندھ رہے تھے کہ اس سے آگے کوئی نہ آئے۔ بس کیجئے نظارہ مگر دور دور سے۔

اچانک پہاڑی سے اترتی شاید مادہ ریچھ معہ چار بچہ ریچھوں کے اترتی نظر آئی۔ کوڑے دان گر چکا تھا اور بچے وہاں سے مطلب کا کھاجا نکال کھائے جا رہے تھے۔ دس بارہ منٹ رونق لگانے اور ہمیں تماشا دکھانے کے بعد سب سے آگے بڑا ریچھ اس کے پیچھے بچے اور آخر میں مادہ اوپر چڑھتے جنگل کی راہ لے رہے تھے۔ نہ پولیس نے سیاحوں کو روکا۔ نہ ریچھوں کو ڈرایا بھگایا۔ نہ کوئی سیاح رسی سے آگے نکلا نہ کسی نے پتھر پھینکا۔

ورنہ ہمارے ہاں کے بہادر تو وہ رحیم یار خاں یا بہاولپور کے نزدیک والی سفاری پارک میں گینڈے کا قریب سے دیدار کرنے جنگلہ کود جاتے ہیں۔ وہ ویڈیو میری نظر میں گھوم گئی۔ جب گینڈے نے اسے آن لیا تھا۔ وہ تو شکر ہے اس نے باہر آتی پکار سن لی اور دم سادھ مردہ بن گیا اور گینڈا اسے کھلونے کی طرح الٹتا پلٹتا اپنے ٹرینر کے بہلاوے میں چھوڑ پرے چلا گیا۔

زیپلن پلیٹ فارم پر پہنچ پہاڑ کے اوپر سے آتی چھ موٹی موٹی متوازی تاروں کے ساتھ پہیہ دار کنڈوں سے لٹکے مضبوط بیلٹ سے جکڑے چند فٹ آگے پیچھے چھ چھ سیاح چیخیں مارتے شور مچاتے انتہائی تیز رفتار۔ سو کلو میٹر فی گھنٹہ تک۔ انتہائی خوبصورت نظاروں اور دور نظر آتے نیلے سمندر کی جھلک لیتے اوپر سے نیچے آتے نظر آئے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد میری بیٹی داماد اور نواسے چیخیں مارتے ہاتھ پھیلائے آتے اپنے لباس سے پہچانے گئے۔

ہم بحری جہاز کی طرف جا رہے تھے۔ بڑا نواسہ کہنے لگا۔ ”نانا ابو آپ نے راکی ماؤنٹین، بینف میں گیارہ ہزار فٹ سے نیچے آتی چیئر لفٹ کا مزا لیا ہے۔ مگر یہ اس سے دس گنا زیادہ مزے کی چیز ہے۔ ہم نے آپ کے ساتھ کو بہت مس کیا“ وہ اپنے لطف کو بیان کر رہا تھا اور ہم ”ہائے مرا دل“ اور ”ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا“ گنگنانا شروع کر کے تھے۔ ہم نے تو شاید انیس سو ستر میں ایوبیہ میں نئی نئی لگی چیئر لفٹ کا مزا بھی لیا ہوا تھا۔

جہاز آہستہ آہستہ آئسی سٹریٹ کے دل کش نظاروں کو اوجھل کر رہا تھا اور ہم یاد کر رہے تھے کہ کہ بینف میں گیارہ ہزار بلند چوٹی پر پہنچ اس کی ساتھ والی چوٹی پر لگے اکثر ملکوں کے جھنڈوں اور وہاں براہ راست ان کے دارالحکومتوں کے لکھے فاصلہ میں اسلام آباد شاید گیارہ ہزار پانچ سو کلو میٹر لکھا دیکھا تھا اور آج تقریباً ہم سولہ سترہ ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر اس پر تعیش جہاز کے عرشہ پر ریلنگ سے لگے یہ سوچ رہے تھے۔ کہ ایک فیکٹری مالک محض پاکستانی لباس میں ملبوس میری بیگم اور مجھے دیکھتے تمام کھڑے سیاحوں کو اپنا پلانٹ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے اور نوے کی دہائی میں آخری بار صوبہ سرحد کے شہر رشکئی کے دکاندار مجھے سوات جانے سے منع کرتے ہیں کہ آگے۔ صوفی صاحب کا راج ہے۔ اور آپ کے ساتھ تین بیٹیاں بھی ہیں۔

آج کی حکومت پھر بفضل خدا پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔ خدا کرے محض اپنے شہر کی سیاحت میں مزید دلچسپی پیدا کرنے والے اس فش پلانٹ کے مالک کی طرح میرے ملک میں بھی لوگ مری کے ہوٹلوں کے سیاحوں سے سلوک کی بجائے اس اجنبی ماحول کے کے اجنبی محب وطن والا وتیرہ اپنا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).