سفر کی جہتیں: اک الگ سی کہانی


آسمان پر جیسے روشنی کے بہت سے در کھلے ہوں اور چمک گویا راستہ دکھا کر بلا رہی ہو۔ کتنا صاف اور شفاف تھا آسمان۔ کہیں سنہری اور کہیں روپہلی سی لگنے والی نرم ریت پر نیم دراز ہم اس عجیب سے آسمان کو دیکھتے تھے اور محو تھے شاید گہرے سے خیالوں میں، اور شاید لاکھوں سالوں سے بھی پرانی یاداشتوں کے کچھ ذرے ہمارے ذہن میں جگمگاتے تھے اور پھر کہیں غائب سے ہو جاتے تھے۔

ستارے کہ جیسے آسمان پر جابجا نظر اتے تھے اور نہ جانے ہم کس اجنبی سی کیفیت میں گرفتار تھے۔ کبھی یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی گم گشتہ سا راستہ ہے جو ہمیں ان سرزمینوں پر لے جائے گا کہ جو بہت زمانوں قبل کی وہی سرزمینیں ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا اور اب کتنا عرصہ گزرا کہ شمار بھی محال ہے۔

کبھی لگتا تھا کہ شاید روشنی کے ان دروازوں سے برق رفتار سے بگولہ نما جہازوں میں اجنبی اس سیارہ زمین کی جانب پھر سے انے کو ہیں۔ اک عجب کیفیت اور عجیب سا سماں۔ یہ سب کیا تھا، کیوں تھا اور ہم کہاں آگئے تھے۔

اک سیدھی سی کالی لکیر سی دکھنے والی سڑک اور اس کے دونوں اطراف میں کبھی سنہری اور کبھی روپہلی سی لگنے والی ریت کے ذروں کا بکھرا سمندر کیا روپ لیے سامنے آتا تھا اور یہ روپ آسمان پر چمکتے چاند کی مدھم سی روشنی میں بھی انوکھے انداز میں جگمگاتا تھا اور اس کی دمک پورے ماحول کو اک طلسم میں بدل چکی تھی۔

کسی نے درست بیان کیا تھا کہ صحرا کے اندر ہزار رنگ پوشیدہ ہیں اور ہر اک ساعت میں جدا جدا سے رنگ اک مختلف منظر تخلیق کرتے ہیں اور ہر منظر کا اپنا ماحول ہوتا ہے اور اگر آپ اس ماحول کے اندر سفر کرتے ہیں تو جان لیجیے کہ یہ ماحول آپ کے اندر کو بدلتا ہے اور آپ کے اندر نت نئے سپنوں، سوچوں اور تصورات کو جنم دیتا ہے اور پھر آپ اس ماحول کا ایک جز ہوتے ہیں اور یہ ماحول آپ کے ذہن کی ان تصویروں کو زندہ کرتا ہے جو نہ جانے کب سے کسی اندھیرے گوشے میں پوشیدہ تھیں اور بس اسی ماحول میں زندہ ہونے کے فراق میں تھیں۔

اپنی آنکھوں پر بھروسا کرنا بسا اوقات مشکل لگتا ہے کیوں کہ ہمیں دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنے کی عادت جو ہوجاتی ہے اور دوسرے کی آنکھیں جو منظر نہ دیکھ پائیں وہ منظر غیرحقیقی سے لگتے ہیں مگر کیا یہ سچ ہے کہ بہت سے منظر ہماری نظروں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں مگر ہم یا تو اپنے کم دھیان اور تھوڑے گیان میں گم انہیں ان دیکھا کرتے ہیں کہ ہمیں شاید ایسا لگتا ہے کہ جو سب دیکھتے ہیں وہی سچ ہے اور ہم اگر ایسے منظر دیکھیں جو دوسرے نہ دیکھ پائیں تو پھر ہم کہیں فریب نظر کا شکار تو نہیں۔

بس سچ کے بہت سے منظر اور صداقت کی بہت سی باتیں ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم انہیں ان دیکھا اور ان سنا کرتے ہیں کہ شاید ہمارے اندر اک بہت پرانا خوف اک سوئے ہوئے اژدھے کی مانند بل کھائے پڑا ہے اور ہمارے قدموں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔

اسی لیے تو مسافر اور سیاح دراصل سچ کی سرزمینوں پر سفر کرتے ہیں اور کسی لمحے وہ زمان و مکان کی قید سے ماورا اک آزاد لمحے یا اس کے ایک مختصر سے حصے سے گزرتے ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں، وہ احساس ان کی زندگی میں رنگ اور خوشبو کی مانند یادوں کے اک زندہ حصے کے طور پر محفوظ ہوجاتا ہے۔

سفر شاید انسان کی سرشت میں ہے اور سچ کو جاننے کے لیے، اپنے اوپر جمے دروغ کے غلاف کو جھاڑنے کے لیے انسان کو قدم بڑھانے کے لیے درست راستہ اپنے اندرون ہی سے ملتا ہے جس کے لیے اسے روز و شب کے چکر ویو سے نکل کر نئی سرزمینوں کی جانب اپنا رخ کرکے چلتے رہنا ہوتا ہے۔

چاہے عقیدہ ہو یا محبت، مقصد ہو یا ارادہ۔ جہاں بھی دیکھو، جو بھی پڑھو توکہیں نہ کہیں سفر اک قدر مشترک کے طور پر آویزاں نظر آتا ہے۔ شاید اک پرانی یاداشت جسے بھولے ہوئے ہزاروں صدیاں بیت چکی ہیں اور ان سرزمینوں کے رنگ، موسم، راستے اور سراغ سب لگتا ہے کہ زمانوں قبل کہیں کھو چکے ہیں۔

مگر سفر کے کسی اک لمحے میں، جب اک خموش سی تنہائی مسافر کو گھیرے میں لیتی ہے اور وقت کے ایک خاص حصے میں کائنات شاید ایک الوہی سے سکوت میں گرفتار ہوتی ہے تو اک منفرد سے ماحول میں ان بہت بہت پرانے سفر کی تگ ودو کے لمحے یادوں کے پرسرار اور دور دراز سے کونوں سے نکل کر نگاہوں کے سامنے مجسم ہونے لگتے ہیں۔

اور یہ سچائی کی تعبیروں کے لمحے ہوتے ہیں جوکبھی کبھی، کسی کسی خوش نصیب اور جستجو کے مارے مسافر یا سیاح یا خانہ بدوش کو ہی نصیب ہوتے ہیں۔ بس اس احساس کو محسوس کرنے میں اک لمحے کی دیر نہ ہو جائے اور مسافر درست مقام، درست وقت اور درست سمت کو پہچاننے میں خطا نہ کر بیٹھے۔

آسمان پر جیسے روشنی کے بہت سے در کھلے ہوں اور چمک راستہ دکھا کر بلا رہی ہو۔ کتنا صاف اور شفاف تھا آسمان۔ کہیں سنہری سی اور کہیں روپہلی سی لگنے والی نرم ریت پر نیم دراز ہم اس عجیب سے آسمان کو دیکھتے تھے اور محو تھے شاید خیالوں میں یا لاکھوں سال پرانی یاداشتوں کے کچھ ذرے ہمارے ذہن میں جگمگاتے تھے اور پھر کہیں غائب سے ہو جاتے تھے۔

ستارے کہ جیسے آسمان پر جابجا نظر اتے تھے اور نہ جانے ہم کس اجنبی سی کیفیت میں گرفتار تھے۔ کبھی یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی گم گشتہ سا راستہ ہے جو ہمیں ان سرزمینوں پر لے جائے گا کہ شاید بہت پہلے جہاں سے ہم اس زمین پر ائے تھے۔

صحرا اپنی سچائیاں شاید رات کے کچھ مخصوص لمحوں میں عیاں کرتا ہے جب چند ہی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں اور ان کے اوپر صرف شفاف سا آسمان اک لامتناہی سی چادر کی طرح پھیلا ہوتا ہے۔

صحرا میں ہم بھی خوش نصیب تھے کہ اک تو وہاں تھے اور گزرتی، بھیگتی رات کے کچھ پہر گزر چکے تھے اور ہم اپنی متلاشی آنکھوں کو آسمان کی جانب لگائے بیٹھے تھے۔

ہم جو محسوس کرتے تھے وہ بیان کرنے سے قاصر تھے اور ہم سب کہ چند ایک تھے مگر ان خاص لمحوں میں سب جدا جدا تھے۔ ہر ایک کی آنکھ اپنے اپنے ستارے کی جانب تھی اور روشنی تھی کہ جیسے آسمان میں بہت سے راستے نمودار ہوگئے تھے جو شاید ہزاروں صدیوں سے گم گشتہ مسافروں کی رہنمائی کے لیے تھے جو راستہ اور سفر سب ہی بھول گئے تھے۔

بس ایک سرشاری تھی اور جیسے ہراک سو سکون اور سکوت طاری تھا کہ کائنات جیسے اک پڑاؤ سے گزر رہی تھی۔ اور ہاں جب ہی تو مسافر، سیاح اور خانہ بدوش خوش نصیبوں میں سے ایک ہوتے ہیں جو سفر کرتے ہیں اور سچ کو کھوجتے ہیں۔ ان کی نگاہیں پھر مخصوص منظروں کی قید میں اداس رہنے کی عادی نہیں ہوتیں اور ان کے لیے

بہت سے اچھوتے، انوکھے اور خوبصورت منظر انعام کی صورت منتظر رہتے ہیں۔

سفر کے دوران ایسے لمحے ہی دراصل انعام ہوتے ہیں جو مسافروں، سیاحوں اور خانہ بدوشوں کے نصیب میں لکھے جاتے ہیں اور ان کے اندر کو جگمگا کر انہیں خود میں پوشیدہ سچائی سے روشناس کراتے ہیں۔

شرط بس سفر کی ہے اور سفر کے ہر لمحے کو کچھ اس طرح برتنے کی، کہ جب موقع ائے تو مدہوشی کہیں محروم نہ کردے۔ وہ جو تلاش میں رہتے ہیں وہ ہی سراغ پاسکتے ہیں۔

سفر ہم سب کے لیے اندھیری سی گپھا سے باہر نکلنے کا ایک راستہ ہیں اور جو خوشی مسافروں، سیاحوں اور خانہ بدوشوں کے حصے میں آتی ہے وہ منفرد اور مختلف ہی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).