گلگت بلتستان کی حیثیت میں تبدیلی اور اس کا پسِ منظر



جیسا کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت اپنا مفاد دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ادغام چاہتی ہے ایک مختصر طبقہ ضرور ہے جو گلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ رکھ کر ریاست جموں و کشمیر کا احیاء چاہتے ہیں اور اس متحدہ ریاست کو تقسیم ہند کے وقت سے پہلے کی جغرافیائی حدود کے مطابق بحال کروانا چاہتے ہیں، لیکن ایک تو ان اصحاب کی تعداد بہت کم ہے، دوسرے یہ مختلف ممالک کی ایجنسیوں کے نفوز، رسوخ اور کوششوں کے باعث اپنے موقف کو مرتکز کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اس حمایت کو کیسے اپنے اور کشمیریوں کے مفاد کے مطابق شکل دے سکتا تھا، جس کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت کی پاکستان میں ادغام کی خواہش بھی پوری ہو جاتی، اور کشمیریوں کے موقف کو بھی نقصان نہ پہنچتا، بلکہ تقویت حاصل ہوتی، وہ صورت یہ تھی کہ جیسے اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر کے حل کے لیے مقرر کئیے گئے مذاکر ات کار سر اون ڈکسن نے کشمیر کے مختلف یونٹوں، جموں، لداخ، آزاد کشمیر، وادی کشمیر ”اور گلگت بلتستان میں الگ الگ راے شماری کروانے کی تجویز پیش کی تھی، تو اقوام متحدہ کی طرف سے ماضی میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی اس آخری عملی کوشش کے مطابق اگر پاکستان اسی“ تجویز ”کے مطابق اقوام متحدہ کے آبزرورز کو دعوت دیتا اور گلگت بلتستان میں راے شماری کروا دیتا تو نتیجہ عوام کی اکثریت کی خواہشات کے مطابق یہی نکلتا لیکن اس طرح بھارت پر راے شماری کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوتا، لیکن یہاں دلوں میں چھپا عدم اعتماد رکاوٹ بنتا ہے۔

لہذا اس کام کو بالکل اسی طرح سے کیا جانے کی منصوبہ بندی کی گئی، جس طرح نریندر مودی نے مقبوضہ جموں کشمیر اور لداخ کا خصوصی تشخص ختم کرتے ہوئے اس متنازعہ علاقے کو یہاں کے عوام کی خواہشات کے برعکس صوبائی حیثیت دے کر بھارت میں ضم کر لیا۔ یہاں بھی مطابقتاً یہی طریقہ اپنانے کی تیاری اور کوشش ہے۔ اس ضمن میں ان علاقوں اور مقبوضہ کشمیر میں وقتاً فوقتاً منعقد کرواے جانے والے انتخابات کے بارے میں اقوام متحدہ یہ کہہ چکی ہے کہ یہ انتخابات“ مستقبل کا حتمی تعین کرنے والی ”راے شماری“ کا متبادل نہیں ہو سکتے۔

اب ہمیں پاکستان کی ماضی کی مختلف حکومتوں کی طرف سے اس سلسلے میں کی جانے والی متعد کوششوں اور ان کے نتائج اور اس کام میں ناکامی کی وجوہات اور واقعات کو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا، ہر بار جب ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اقوام متحدہ اور بھارت کی طرف سے ایسی کوشش پر یہ کہہ کر شدید اعتراض کیا گیا، کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے اور اس کی حیثیت میں تبدیلی کی کسی یک طرفہ کوشش کو قبول نہیں کیا جائے گا، اور یوں گلگت بلتستان کے ادغام کی کوششیں پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں۔

اس بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، جس میں یہ حتمی طور پر واضح کر دیا گیا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے۔ لیکن یہ سب ماضی کی باتیں اور کوششیں ہیں، آج کے تناظر میں ہمیں اس معاملے کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، تو زیادہ بہتر ہو گا کہ اس ”ٹرننگ پوائنٹ“ یا ”یو ٹرن“ کے درست مقام اور وقت کی تلاش اور تعین کیا جائے۔ اس بارے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ٹرننگ پوائنٹ وزیر اعظم پاکستان اور مقتدرہ کا دورہ امریکہ تھا، اور جہاں ”شاید“ یہ خفیہ ”مفاہمت“ طے کی گئی، اور شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس مفاہمت میں اس مسئلے کا دوسرا فریق بھارت بھی ”آن بورڈ“ تھا، یوں ہمیں صدر ٹرمپ کے کشمیر پر ”ثالثی“ کے بلند و بانگ اعلانات پر ”فوری“ عمل ہوتا بھی، نہ صرف ”محسوس“ ہوتا ہے بلکہ دکھائی بھی دیتا ہے، اس ضمن میں بھارت کے ساتھ امریکہ کی علانیہ سٹریٹیجک شراکت داری کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے۔

اس ”پزل“ کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑا جائے تو ایک دھندلی سی تصویر تو ابھرتی ہے لیکن یہ تصویر اتنی بھی دھندلی نہیں کہ اس منظر نامے اور اس کے پس منظر میں دکھائی دینے والے ”چہروں کو پہچانا نہ جا سکے۔“ اب کی بار ”اس پاکستانی کوشش پر بھارت اور اقوام متحدہ کی خاموشی اس خفیہ مفاہمت کی تصدیق کرتی ہے، یاد رہے کہ یہ وہی عالمی ادارے ہیں جنہوں نے ماضی میں ہمیں دیامر بھاشا ڈیم کے لیے قرضے دینے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ یہ متنازعہ علاقے میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس تمام صورت حال کو اپنی تحریک آزادی اپنے خون، جان و مال کی لامتناہی قربانیوں سے جاری رکھنے والے“ کشمیری حریت پسند عوام ”بغور دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).