مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل


24 اگست 2020 کو سینیٹ میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا ترمیمی بل اکثریت رائے سے پاس ہوا، تو پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں خوشی کی ایک لہرسی دوڑ گئی۔ وہ خوش تھیں کہ اب شاید ان کی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہو گی۔ شاید اب جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کرنے والوں کو کچھ ادراک حاصل ہو۔ شاید سلیبس میں تبدیلیاں کرنے والوں کو کچھ احساس ہو اور شاید معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی آئے۔ جس سے معاشرہ بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی طرف گامزن ہو۔

مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی چکناچورہو گیا۔ وہی ہوا جو ہمیشہ سے اس ملک میں ہوتا آیا ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھیں تو اقلیتوں کے حقوق ہمیشہ ہی غصب ہوتے رہے ہیں۔ ویسے بھی اس بل کی منظوری کی کوئی خاص توقعات نہیں تھیں کیونکہ بل میں صاف درج تھا کہ جبری بین المذاہب شادی کروانے والے کو 10 سال تک سزا، پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ کم عمر مذہبی اقلیت کی شادی کروانے والے کو 14 سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز تقریر پر تین سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے جرم کے مرتکب کو تین سال سزا، 50 ہزار جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک کرنے والے کو ایک سال سزا، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔

اگرچہ اقلیتوں کے تحفظ کا قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ سپریم کورٹ نے بھی 4 اکتوبر 2019 میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے پیش نظر 2014 کے ایک حکم کو برقرار رکھتے ہوئے ایک خصوصی بینج تشکیل دیا۔ اورقومی کمیشن برائے اقلیتی امور کی تشکیل پر عمل درآمد کی ہدایت بھی کی۔ چھ سال بعد 5 مئی 2020 میں وزیراعظم کی صدارت میں قومی اقلیتی کمیشن قائم کر دیا گیا مگر تاحال یہ کمیشن اقلیتوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہا ہے۔

اور نہ ہی اس کمیشن کی کوئی قابل ذکر کارکردگی سامنے آئی ہے۔ واضح رہے کہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا ترمیمی بل 2020 پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کیا تھا۔ اورانہوں نے قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور پر واضح بھی کیا کہ حضور اکرم نے اقلتیوں کے حقوق کے تحفظ کا پورا خیال رکھا تھا اور قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنی پہلی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہوگی اور وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے آزاد ہوں گے۔

پاکستان کے تینوں آئین میں بھی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے لئے سزا ہونی چاہیے۔ مگر قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امورنے کوئی نہ کوئی دلیل دے کر اسے یکسر مسترد کر دیا۔ دراصل اس بل کو دانستہ طور پر سینیٹ کمیٹی کی بجائے قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کو بھیج دیا گیا تاکہ اس بل کی منطور ی کی کوئی گنجائش ہی باقی ہی نہ رہے۔ حالانکہ قائمہ کمیٹی کے پاس اس بل کو دیکھنے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔

اگر یہی بل سینیٹ اس بل کو انسانی حقوق کی کمیٹی میں بھیجتی جہاں ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ موجود ہوتے ہیں۔ یاپھر وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق اسے اقلیتی کمیشن کے حوالے کیا جاتا۔ تو شاید اس کے نتائج مثبت آتے۔ تمام اقلیتی کمیونٹی سینیٹر جاوید عباسی کی اس کوشش کو بے حد سراہتی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کی بجائے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی شفارشات کا بل قومی کمیشن برائے اقلیتی امور کاکوئی اقلیتی رکن ہی لاتا۔ مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ اقلیتی ا راکین خودحکومت کے اشاروں پر چلتے ہیں۔

یا پھر ان کی ضروریات کمیونٹی کی اغراض سے بڑی ہیں۔ مذہبی امور کی اس کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری، جن کا تعلق جمعیت علما اسلام ف سے ہے۔ انہوں نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جبراً تبدیلی مذہب کروانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ مگر مرضی سے مذہب تبدیل کرنے پر کوئی قدغن نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نصاب تعلیم سے ظاہر ہونا چاہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ ہماری قانون سازی سے مسخ نہیں ہونا چاہیے۔

حافظ عبدالکریم نے تو حد ہی کر دی ان کا کہنا تھا کہ حقوق اقلیتوں کو نہیں مسلمانوں کو دیے جائیں۔ توہین رسالت والا توبیرون ملک چلا جاتا ہے۔ جب کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ اس بل میں متعدد وزارتوں کا کردار ہو سکتا ہے۔ تعلیم کے نصاب میں ایسا مواد نہ ہو جس سے مذہبی منافرت پھیلے۔ جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے سندھ کے دو تین اضلاع میں یہ واقعات ہورہے ہیں ان اضلاع کی انتظامیہ کو اسلام آباد طلب کر کے پوچھا جا سکتا ہے۔

اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کو دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ حقوق میسر ہیں۔ کمیٹی کے رکن راجہ ظفر الحق کو تو ان کے ادراک پر داد دینا پڑے گی جنہوں نے اقلیتوں کے زخموں پر نمک یہ کہہ کر چھڑکا کہ جبراً تبدیلی مذہب کے کچھ واقعات پیش آئے ہیں۔ یہ کوئی عام وبا نہیں جسے روکنے کے لئے خاص قانون لایا جائے۔ اس موقع پر بل کے محرک سینیٹر جاوید عباسی نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر کمیٹی کو اختلاف ہے تو آئین سے اقلیتوں کے حقوق کا آرٹیکل ہی نکال دیں، آئین میں موجود آرٹیکل کے نیچے قانون سازی ہونا چاہیے۔

غرض کہ تعصب اور تنگ نظری کی انتہا ہے اور انسانیت کسی گہری ندی میں غوطے کھا رہی ہے۔ قائداعظم کا پاکستان ماضی کا قصہ پارینہ بن گیا ہے جہاں تمام شہریوں کوبلا امتیاز مذہب، رنگ و نسل برابری کے حقوق حاصل ہونے تھے۔ بقول سینیٹر کامران مائیکل مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے اس بل کو وہ اور ان ساتھی دوبارہ سینیٹ میں منظوری کے لئے پیش کریں گئے۔ اور منظور بھی ہوگا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).