آن لائن اسکول اور ہمارا ڈرامہ


اس سال بڑی عجیب بات ہوئی ہم اپنے اسکول میں ہر سال ایک ڈرامہ کرواتے ہیں جو کہ ہمارے ڈرامہ کلب کا حصہ ہے اس دفعہ ہمار ے ذہن میں مسعود احمد برکاتی کا ڈرامہ آیا جو انہوں نے نونہال رسالے کے لیے لکھا تھا سوچا اسی پر ہی بچوں سے محنت کروائی جائے مگر اس کا بالکل ادراک نہیں تھا کہ یہ ڈرامہ حقیقت کا روپ دھار لے گا اور ڈرامہ نہیں ہو پائے گاویسے بھی یہ موضوع آئندہ سوسال کے بعد اسکول کیسے ہوں گیں اس پر تھا۔

سوسال کے بعد بچے کی اسکول اور کتابوں سے ناواقفیت اور آف لائن اسکول کے اوپر لکھی ہو ئی یہ تحریراتنی جاندار ہوگی یہ سوچا بھی نہ تھا اورمزے کی بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کوہم نے دو پیش کرنا تھا ایک اسمبلی میں اور ایک اسپیلنگ بی کے فنکشن میں اسمبلی میں جب یہ ڈرامہ پیش کیا گیا تو اس ڈرامے کا سب سے اہم کردارہی اس دن غیر حاضر ہو گیا ا ور یہ ڈرامہ اپنی خوبصورتی کے بنا ہی پیش کر دیا گیا اور اس کے کچھ عرصے کے بعد اس ڈرامے نے حقیقت کا روپ دھار نا شروع کر دیا اور پھر باقاعدہ آن لائن اسکول کھل گئے ہم بڑے مطمئن اور شاداں کہ چلو اس دفعہ اخراجات بہت ہی کم ہوئے نہ کاپیاں خریدنی پڑیں نہ یونیفارم اور نہ ہی کتابیں بیٹی کو موبائل پر ساری سیٹنگ کرکے دے دی اور خود صبح سے دوپہر تک لیپ ٹاپ پر پڑھانے لگے۔

مگر چونکے اس وقت جب دوستوں کے فون اور پیغامات آنے لگے کہ یہ آن لائن کلاسز یا والدین کے لئے سزا کتابیں بھی لو کاپیاں بھی موبائل اور انٹرنیٹ کے الگ خرچے فیسوں کا بوجھ اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسکول مدد کرنے کے لئے تیار نہیں طالب علم اپنے اساتذہ کو واٹس اپ پہ فون بھی نہیں کر سکتا ویڈیوز ایسی بنی ہے کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔

ادھر ہمارا یہ حال کہ ہمیں لگتاہے کہ ہماری چوبیس گھنٹے کی ملازمت ہوگئی ہے ہر وقت ہاتھ میں موبائل یا لیپ ٹاپ اسکرین کے سامنے بیٹھے ہیں ہمیں پہلی دفعہ احساس ہو ا کہ اس طرح بیٹھ کر پڑھانے سے کتنی تھکن ہوتی ہے اتنی تو اسکول میں بھاگ دوڑ کر کے پڑھانے میں بھی نہیں ہوتی تھی۔

خیرہم نے دو چار دوستوں کو فون کیا اور معلوم کیا کہ ان کے آن لائن کلاسز کے بارے میں کیا رائے ہے؟
ہمیں اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ زیادہ تر والدین پریشان ہیں۔

ہمیں بالکل سمجھ نہیں آیا کہ جب آن لائن کلاسزز ہیں تو اس میں کاپی اور کتابوں کی کیا ضرورت بچہ تو سب کچھ گوگل کلاس میں ہی کر لے گا اور اچھے اسکول نے یہی کیا ہے فیس بھی کم کی بلکہ بار بار بچوں کو تلقین کی ہے کہ آپ کو کتاب خریدنے کی ضرورت نہیں ہے سب کچھ آپ کو گوگل کلاس میں فراہم کر دیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے اسکول کی تعد اد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ والدین ڈیوائسس کا بوجھ اٹھا ئیں، انٹرنیٹ کا فیسسز کا اور پھر کتابوں اور کاپیوں کا بھی؟

ہم نے ایک بچی سے دریافت کیا کہ آپ گوگل کلاس میں کیا کرتی ہیں؟

اس نے بتایا کہ جب میں کاپی پہ کام کر لیتی ہوں تو گوگل کلاس میں ڈ ن لکھ دیتی ہوں اسکول والوں نے کہا ہے کہ کام مکمل کرنے کے بعد کاپی اسکول میں بھجوائیں مگر بابا نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اسکول نہیں جائیں گیں زیادہ تر پرائیویٹ اسکول والوں نے اسی طرح سے آن لائن کلاسسز لیں ہم عوام کو سوشل ڈ سٹینس کا درس کیا دیتے جب ان تعلیمی اداروں نے اس کی دھجیاں بکھیر دی۔ وبا کے دنوں میں پوری دنیا آن لائن ہو کام کر رہی ہے مگر ہمارے تعلیمی ادارے اپنی ہی روش پہ چلے۔

اس وقت والدین معاشی طور پر بھی پریشان تھے یہ وقت اگلے سال نئی برانچ کھولنے کا نہیں تھا بلکہ اپنے بچوں کا تعلیمی سلسلہ جوڑے رکھنے کا تھا ایک ویڈیو جس مضمون کی بنائی جا رہی تھی اگر سبجیکٹ اسپیشلسٹ سے بنوالی جاتی تو میرا نہیں خیال بچے کو کوئی مشکل ہوتی بلکہ وہ کسی وقت آن لائن ہوکر موضوع سے متعلق ویڈیودیکھ کر سمجھ لیتا آج بچوں کو کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے تو اس کا فوری حل وہ یوٹیوب یا گوگل سے نکال لیتے ہیں اور خود میں نے بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں اناڑی ہونے کے باعث کتنی جگہ انہی چیزوں کا سہارا لیا۔

تو کیا ہم بحیثیت اساتذہ یہ کام نہیں کر سکتے تھے مگر یہ کام ادارے کر واتے ہیں ہمارے اداروں کو ایک کام بہت آسان لگتا ہے اور وہ اس پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں اور وہ ہے تنخواہیں روکنا اور فیسیں بٹورنا تو یہ کام انہوں نے بڑی جانفشانی سے کیا۔ ذرائع اور طریقے کار بہت تھے مگر جس طرح ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام چل رہا ہے اس میں خلل ڈالنا یا اس کو تبدیل کرنا بلکہ ایسا ہی ہے جیسا بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا۔ جن اداروں میں کمپوئڑ لیب دیکھاوے کا ہو وہاں ٹیکنالوجی کی جدت کو اختیا ر کرنا نا ممکن نہیں تو اور کیا؟ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اسکول کھلنے کی نوید سنائی دی گئی اور والدین کی پریشانی ختم ہوئی ورنہ ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ اگر خدانخواستہ یہ سلسلہ طول پکڑتا تو کیا ہوتا؟

اب آتے ہیں گورنمٹ اسکول کی طرف گورنمنٹ اسکول والوں نے تو چین کی بنسری بجائی جو لوگ اداروں میں صرف حاضریاں لگواتے تھے اب اس فکر سے بھی آزاد ہوئے کہ چلو آرام سے گھر بیٹھے گیں حکومت پہ سب سے زیادہ نکتہ چینی یہی گورنمنٹ کے ادارے کرتے ہیں جبکہ یہ گورنمنٹ ٹیچر ز جتنی تنخواہیں اٹھاتے ہیں ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل کی بھی نہیں ہوتی اس پر بھی حکومت نے ان کی پنشن میں اضافے کا اعلان کیا ہے تو بھائی جب حکومت آپ کو اتنا دے رہی ہے تو آپ بھی کچھ محں ت کرلو اس اسمارٹ فون کے دور میں گاؤں

میں مقیم بچوں کو بھی پڑھایا جا سکتا ہے آج کون سا ایسا گاؤں ہے جہاں اسمارٹ فون کی رسائی نہیں بات تو لاہ عمل تیار کرنے کی تھی کسی ہیڈ ٹیچر یا پرنسپل کے دماغ میں یہ خیال نہیں آیا کہ بچوں کو کچھ نہیں تو واٹس اپ پہ ہی کچھ سمجھا دیا جائے۔

اب ان کے آرام کی سزا پرائیویٹ اسکول کے اساتذہ بھگتیں گیں جن کی مہینے میں کم از کم د و تین ہفتے ایسے آتے تھے جو وہ سکون سے گزارتے تھے خواہ وہ کوئی بھی پرائیویٹ اسکول ہو اب حکومت نے سردیوں کی چھٹی کے ساتھ ہفتے کی بھی چٹھی منسوخ کر دی ہے۔

اعلان بہت اچھا ہے بلکہ میں تو کہتی ہوں اتوار کی بھی چٹھی منسوخ کر دیں آدھے دن کے لیے بلا لیں لیکن صرف ان گورنمنٹ ٹیچرز کو جنہوں نے یہ چھے مہینے بڑے عیش کے ساتھ گزارے ورنہ حد تو یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ اسکول کے ٹیچرز ہو ں انہوں نے چار چار مہینے بغیر تنخواہوں کے جان پہ کھیل کے پڑھایا انہیں تو گورنمنٹ کو اعزاز دینا چاہیے۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).