بلوچستان: چمن میں پولیو ٹیم پر فائرنگ، سکیورٹی پر مامور لیویز اہلکار زخمی


پولیو

کوئٹہ میں محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ حملے کا ہدف لیویز فورس کا اہلکار تھا (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں فائرنگ کے ایک واقعے میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور لیویز فورس کے ایک اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔

چمن میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ روغانی کے علاقے میں پیش آیا ہے۔

یاد رہے آج بلوچستان میں پولیو کے خلاف حالیہ مہم کا دوسرا کیچ اپ ڈے تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ دو خواتین ورکروں پر مشتمل پولیو ٹیم کام ختم کرکے واپس آرہی تھیں کہ کلی ٹھیکیدار میں رازق شہید گراﺅنڈ کے قریب موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نمودار ہوئے اور انھوں نے فائر کھول دیا۔

بعض اطلاعات کے مطابق خواتین ورکر فائرنگ سے بچنے کے لیے قریبی گھروں میں داخل ہوگئیں اور محفوظ رہیں تاہم لیویز فورس کے ایک اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر قلعہ عبد اللہ بشیر احمد بڑیچ نے بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کو فون پر بتایا کہ لیویز فورس کے اہلکار کو ایک گولی لگی ہے جنھیں چمن میں ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان میں ایک خاتون پولیو ورکر ہلاک

کوئٹہ: پولیو ورکر ماں بیٹی حملے میں ہلاک

پاکستان میں پولیو ورکروں پر حملوں کے بعد پولیو مہم معطل

کوئٹہ میں محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے کا ہدف لیویز فورس کا اہلکار تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حالیہ پولیو مہم کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچی ہے اور کورونا وائرس کے بعد یہ بلوچستان بھر میں چلائی جانے والی دوسری بڑی مہم تھی۔

اس مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے 25 لاکھ کے قریب بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔

فائل فوٹو

قلعہ عبد اللہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی پولیو کی ٹیموں پر حملے ہوتے رہے ہیں تاہم سب سے زیادہ حملے کوئٹہ شہر میں ہوئے ہیں (فائل فوٹو)

چمن کہاں واقع ہے؟

چمن، افغانستان سے متصل سرحدی شہر بلوچستان کے ضلع قلعہ عبد اللہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ شہر کوئٹہ سے اندازاً 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

چمن میں بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ پولیو ٹیموں پر پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔

اس سے قبل اپریل 2019 میں چمن کے علاقے میں ایک پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے میں ایک خاتون ورکر ہلاک اور دوسری زخمی ہوئی تھی۔

بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پولیو ورکرز پر ہونے والے حملے

قلعہ عبد اللہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی پولیو کی ٹیموں پر حملے ہوتے رہے ہیں تاہم سب سے زیادہ حملے کوئٹہ شہر میں ہوئے ہیں۔

کوئٹہ شہر میں جنوری 2018 میں ہونے والے ایک حملے میں ایک خاتون پولیو ورکر اور ان کی بچی ہلاک ہو گئی تھیں۔

تاہم ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے کوئٹہ میں پولیو ورکرز پر سب سے بڑا حملہ نومبر 2014 میں ہوا تھا جس میں تین خواتین سمیت چار پولیو ورکرز ہلاک ہو گئے تھے۔

فروری 2015 میں افغانستان سے متصل ژوب میں ایک پولیو ورکر سمیت چار افراد کو ہلاک کرنے کی بعد ان کی لاشیں پھینک دی گئی تھیں۔ ہلاک کیے جانے والے باقی تین افراد میں ایک ڈرائیور اور لیویز فورس کے دو اہلکار بھی شامل تھے۔

کوئٹہ کے علاقے سیٹلائیٹ ٹاﺅن میں جنوری 2016 میں بھی پولیو مہم کے موقع پر ایک خود کش حملہ ہوا تھا۔ اس خود کش حملے میں اگرچہ پولیو ورکرز محفوظ رہے تھے لیکن ان کی سیکورٹی پر مامور 12 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

تاہم ماضی کے مقابلے میں بلوچستان میں پولیو ورکرز پر حملوں میں کمی آئی ہے۔

بلوچستان میں پولیو اب بھی ایک بڑا مسئلہ

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اب بھی ناصرف پولیو وائرس موجود ہے بلکہ رواں سال بھی پولیو کے کیسز کی ایک بڑی تعداد رپورٹ ہوئی ہے۔

پولیو کے حوالے سے بلوچستان کے تین اضلاع کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبد اللہ کو ہائی رسک اضلاع قرار دیا گیا ہے۔

محکمہ صحت حکومت بلوچستان کے مطابق بلوچستان سے رواں سال اب تک پولیو کے 20 کیسز سامنے آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp