فن خطاطی کی نمائش


تاریخ کے زرد اوراق بتاتے ہیں کہ تجسس کی راہوں پہ رینگتی تہذیب کو پہلی کامیابی تب ملی جب انسانی آنکھوں میں سماتے قدرتی نظارے پتھروں کی سلوں پہ اترنا شروع ہوئے۔ بھونڈی و بے تکی تصویریں ہاتھوں کی مہارتوں سے ٹپکتے رنگوں سے رنگین ہونے لگیں تو ترقی کی راہیں کھوجتی تہذیب خوش نمائی کے مقام ارفع تک پہنچتی تصویری دور کے نام سے موسوم ہونے لگی۔ انسانی سمجھ بوجھ میں رچتی بستی تصویروں نے جب خاکوں کی شکل اختیار کی تو گول دائرہ سورج کی تصویر کا اظہار کرتا دن کی ترجمانی کرنے لگا۔ خاکہ نگاری کے اس دور نے نقوش کی شکلوں کو استحکام بخشا تو وقت بچانے کی سوچ نے علامتوں کو جنم دیا۔ اور یوں دور علامت نگاری تصورات کی ترجمانی کرنے لگا۔

کمربستہ تخلیق کاری نے ان علامتوں کو آوازوں کے ساتھ جوڑا تو حلق سے نکلتی صدائیں صوتی نقوش میں ڈھل کر حروف ابجد کا آغاز ٹھہریں۔ مؤرخین کہتے ہیں ارتقائی مسافتیں طے کرتی تہذیب کے لیے یہ موڑ ایک انقلاب ثابت ہوا۔ حلق سے نکلتی آوازیں ایک دوسرے سے مل مل کر الفاظ میں ڈھلنے لگیں تو یوں صوتی نقوش تحریر میں تحلیل ہونے لگے۔

فن تحریر کا پتھر تخلیقی ارتقا کے چھتے پہ جیسے ہی پڑا انسانی افکار کی خیال آفرینیاں شہد کی مکھیوں کی طرح جا بجا ٹوٹ پڑیں۔ پتھروں کی سلیں کیا، درختوں کی چھالیں کیا، جانوروں کی کھالیں کیا، مٹی کی الواح و تختیاں کیا، موقع بموقع کہیں علوم تو کہیں فنون، کہیں تہذیب تو کہیں تمدن، کہیں اخلاقیات تو کہیں تجربات، کہیں داستانیں تو کہیں افسانے، تحریر ہو ہو کر تہذیب کی رفتار میں حیران کن تیزیاں و طراریاں لانے میں کامیاب ہونے لگے۔

دریاوں کے کناروں پہ بستی تہذیبوں کے بے نقاب گوشے بتاتے ہیں کہ پہلے پہل فن تحریر صرف مذہب کے علمبرداروں کی دسترس میں تھا۔ پھر عمال حکومت نے سرکاری احکامات کو احاطہ تحریر میں لانا شروع کیا۔ اور بعد ازاں عوام الناس کی پہنچ میں آیا۔ پہلا شخص اخنوع تھا جس نے قلم سے لکھنے کا آغاز کیا اور روئے زمین پر درس و تدریس کا سلسلہ اس قدر تسلسل سے سر انجام دیا کہ ان کا نام حضرت ادریس پڑا۔ تاریخی ثبوتوں کے کھوجن ہاروں کے مطابق یہ ہے لیکن قرآن نے جناب آدم کے ساتھ قلم و کتاب کا آغاز بتایا ہے۔

امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ فن تحریر مختلف تہذیبوں و ادوار میں جدا جدا انداز اپناتا متفرق ناموں سے ہروان چڑھتا گیا۔

جہاز رانی کی ماہر قوم آرامی تھی جن کا سلسلہ تجارت بحرروم سے بحر ہند اور افریقہ سے لے کر ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ دائیں سے بائیں لکھتے آرامیوں کا رائج کردہ آرامی خط دنیا کی بیشتر اقوام نے اپنا لیا۔ یونانیوں نے مذکورہ خط کو پانچویں صدی قبل مسیح میں بائیں سے دائیں لکھنا شروع کیا۔ سکندر یونانی کی فتوحات نے یونانی خط کو عالمگیریت عطا کی۔ المختصر یہ کہ فن تحریر فن خطاطی کی اولادوں سے جنم لینے والا گزشتہ کئی صدیوں سے معراج شباب پہ جلوہ فگن ہے۔ لیکن فن خطاطی کو وقت کی گردشیں انسانی یادداشتوں سے محو کرتی جارہی ہیں کیونکہ دور حاضر میں خطاطی کی تعلیم و ترویج کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

گزشتہ ہفتے روٹھتی روایتوں کو زندہ کرنے کی ایک کاوش حکومتی سرپرستی میں سامنے آئی جب الحمرا آرٹ گیلری لاہور میں لوح و قلم کے عنوان سے فن خطاطی کی قومی نمائش کا پانچ روزہ انعقاد عمل میں لایا گیا۔ نمائش میں آویزاں اسمائے ربانی و آیات قرآنی کو ایسے دل آویز انداز میں پیش کیا گیا کہ فن مذکور کے اوصاف و اصناف نکھر نکھر کر شائقین سے داد و تحسین لوٹتے رہے۔

کسی نے حروف کے خطوط کو صنف تحقیق سے ممتاز دکھایا تو کسی نے صنف تحدیق سے حروف کے دائرے زیبا کیے۔ کسی نے حروف کی گردنوں کو صنف تحویق سے گزار کر دل آفریں گولائی عطا کی تو کسی نے صنف تخریق سے ع اور غ کی آنکھوں میں سمندروں کی گہرائیاں دکھا دیں۔ کسی نے صنف تعریق سے شین اور نون کے دائروں کو دلکشی عطا کی تو کسی نے صنف تشقیق سے صاد و ضاد کی گرہوں کو تکمیل بخشی، کسی نے صنف تنمیق کے پیمانے لگا لگا کر حروف کی زیبائش و آرائش کو چار چاند لگا دیے تو کسی نے صنف توفیق سے حروف کو کرسی نشینی عطا کی۔ کسی نے صنف تدقیق سے حروف کی باریکیوں کو نزاکتیں پہنانے کی سعی کی تو کسی نے صنف تفریق سے حروف کی منفرد و ممتاز حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے درجہ بدرجہ مقامات سونپے۔

صوبائی وزیر خزانہ کے دست مبارک سے نقاب کشائی کا اعزا پانے والی تقریب میں فن خطاطی کے سرو و شمشاد شریک ہوئے تو فن مخصوص سے محبت کا دم بھرتے شہریوں اور طلبہ نے بھی بھرہور شرکت کو یقینی بنایا۔ فنی سرگرمیوں میں ورکشاپس کے انعقاد نے ذوق و شوق کی تحریک کو نئی راہیں دکھائیں تو منتظمین نے علوم و فنون کو فروغ دیتی تقریبات کے مزید قیام کا عندیہ بھی دیا۔

قلم جس کا ذکر پہلی وحی اور لگاتار دوسری وحی میں مبارک الفاظ قرآن می۔ ہوا۔ سے محبت یقیناً وہ سرمایہ ہے جو کسی بھی زندہ قوم کا مقصد حیات ہے۔

بقول منظر ایوبی
کسی لب پہ حرف ستم تو ہو کوئی دکھ سپرد قلم تو ہو
یہ بجا کہ شہر ملال میں کوئی فیض ہے کوئی میر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).