باسمتی چاول کو ’خالص انڈین پراڈکٹ‘ قرار دینے کا دعویٰ پاکستانی چاول کی برآمدات کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟


باسمتی

پاکستان سے برآمد کیے جانے والے چاولوں میں باسمتی چاول کی بڑی مارکیٹ یورپی یونین کے ممالک ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک کو باسمتی چاول کی برآمد پاکستان کے علاوہ انڈیا سے بھی کی جاتی ہے، تاہم حال ہی میں انڈیا نے یورپی یونین میں چاول کی باسمتی کوالٹی کے حقوق اپنے نام محفوظ کروانے اور اسے ایک انڈین پراڈکٹ قرار دینے کی درخواست جمع کرائی ہے جو یورپی یونین کے جرنل میں شائع کی گئی ہے۔

انڈیا نے جیوگرافیکل انڈیکشنز (جی آئی) قوانین کے تحت یہ درخواست جمع کرائی ہے جس میں باسمتی چاول کو ’خالص انڈین پراڈکٹ‘ قرار دینے کا کہا گیا ہے۔

پاکستان میں چاول برآمد کرنے والے شعبے کے افراد انڈیا کے اس دعوے کو ’ناجائز‘ قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر انڈیا ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک سے باسمتی چاول کی برآمد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا اور یورپی یونین میں پاکستانی باسمتی چاول کا نعم البدل ثابت ہو گا۔

دوسری جانب حکومت پاکستان انڈیا کے اس اقدام کے بعد متحرک ہوئی ہے اور اس سلسلے میں مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے کہ کس طرح انڈیا کے اس اقدام کا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

سفید چاول ذیابیطس کا سبب

چینی تحقیق چاول کی پیداوار بڑھا سکتی ہے

ماحولیاتی تبدیلیاں، چاول کی پیداوار میں کمی

پاکستانی حکام پُرامید ہیں کہ انڈیا کا یہ اقدام ’شرارت‘ تو ہو سکتا ہے تاہم وہ باسمتی چاول کے جملہ حقوق اپنے نام کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس سلسلے میں پاکستان جلد یورپی یونین میں درخواست جمع کرائے گا۔

جی آئی قوانین کیا ہیں؟

انڈیا نے یورپی یونین میں اپنی درخواست جی آئی قوانین کے تحت دی ہے۔

جی آئی قوانین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اراکین ممالک کو بنانے ہوتے ہیں جن کے تحت ایک خاص پراڈکٹ کے اصل محل وقوع اور اس کی خصوصیات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

جی آئی قوانین ایک ملک میں پیدا کردہ مصنوعات کو اس بنیاد پر تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ یہ اسی ملک میں پیدا ہونے والی اشیا ہیں جن کا رنگ، ذائقہ، خوشبو، کوالٹی وغیرہ تاریخی طور پر ایک خاص جغرافیائی حدود سے وابستہ ہے۔

انڈیا نے جی آئی قوانین کا نفاذ کچھ سال پہلے کر لیا تھا جب کہ پاکستان میں ان قوانین کو اس سال مارچ میں منظور کیا گیا، تاہم ان کا نفاذ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔

پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق سینیئر وائس چیئرمین توفیق احمد خان نے کہا ہے کہ انڈیا نے اس سلسلے میں تقسیم ہند سے پہلے کی اُن دستاویزات اور ڈکشنریوں سے مدد لی ہے جس میں باسمتی چاول کو انڈیا کی پیداوار لکھا گیا تھا۔

انھوں نے کہا تقیسم سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقے بھی برٹش انڈیا کا حصہ تھے جہاں باسمتی چاول پیدا ہوتا ہے لیکن انڈیا چالاکی سے صرف ہندوستان کا لفظ استعمال کر رہا ہے جو پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کی دستاویزات اور ڈکشنریوں میں لکھا گیا ہے۔

باسمتی چاول اور اس کی پیداوار کا تاریخی پس منظر

برصغیر میں باسمتی چاول کی پیداوار کی تاریخ لگ بھگ 200 برس پرانی ہے۔ اس کی پیداوار برصغیر کے مخصوص حصوں تک محدود تھی اور یہاں پیدا ہونے والے باسمتی چاول کا الگ ذائقہ اور خوشبو تھی۔ اس کی پیداوار کا تاریخی علاقہ چناب اور ستلج دریاؤں کا درمیانی حصہ ہے۔

رائس

پاکستان میں سیالکوٹ، نارووال، شیخوپورہ، گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاوالدین اور حافظ آباد کے اضلاع باسمتی چاول کی پیداوار کے حوالے سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور دوسری جانب انڈیا میں مشرقی پنجاب، ہریانہ، جموں و کشمیر کے علاقوں میں تاریخی طور پر اس کی کاشت کی جاتی رہی ہے۔

تاہم موجودہ دور میں باسمتی چاول کی کاشت کے روایتی علاقوں سے باہر بھی اس کی کاشت کی جاتی ہے تاہم اس کی خصوصیات میں اس کی کاشت کے روایتی علاقوں کی پیداوار سے تھوڑا فرق ہے۔

توفیق احمد خان کے مطابق باسمتی چاول کی کاشت کی کوشش افریقہ اور امریکہ میں بھی کی گئی تاہم وہاں پیدا ہونے والی فصل میں وہ خصوصیت اور ذائقہ ناپید تھا جو پاکستان اور انڈیا میں میں کاشت ہونے والے روایتی تاریخی علاقوں کی فصل میں پایا جاتا ہے۔

توفیق احمد خان نے کہا باسمتی چاول پاکستان اور انڈیا کا مشترکہ ورثہ ہے کیونکہ دو سو سال سے چاول کی یہ قسم پاکستان اور انڈیا کے مخصوص علاقوں میں کاشت کی جاتی رہی ہے جو اپنے منفرد ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے منفرد ہے۔

پاکستان سے باسمتی چاول کی برآمدات

پاکستان سے چاول کی تمام اقسام کی برآمدات گذشتہ مالی سال میں دو ارب ڈالر سے زیادہ تھیں۔ پاکستان نے گذشتہ مالی سال میں چالیس لاکھ ٹن سے زائد چاول بیرون ملک بھیجا۔ برآمد کیے جانے والے اس چاول میں پانچ لاکھ ٹن چاول باسمتی تھا جبکہ باقی 35 لاکھ ٹن دوسری اقسام کا چاول تھا۔

پاکستانی چاول کے بڑے درآمد کنندگان میں چین، کینیا اور یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں۔ کینیا میں پاکستان کے غیر باسمتی چاول کی زیادہ کھپت ہے۔ چین میں تمام اقسام کا چاول بھیجا جاتا ہے تو یورپی یونین پاکستانی سے برآمد ہونے والے باسمتی چاول کا بڑا درآمد کنندہ ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں انڈیا سے باسمتی چاول کی برآمد چالیس لاکھ ٹن ہے۔

چاول

انڈین اقدام سے باسمتی چاول کی برآمد کو کیا خطرہ ہے؟

یورپی یونین میں انڈیا کی جانب سے درخواست کے بارے میں بات کرتے ہوئے باسمتی چاول کے برآمد کنندہ توفیق احمد خان نے کہا کہ انڈیا کا باسمتی چاول پر حقوقِ کا دعویٰ بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ یہ چاول انڈیا اور پاکستان دونوں میں پیدا ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر اس اقدام کا سب سے تباہ کن منظر سامنے رکھا جائے کہ جس میں انڈیا اسے اپنے نام رجسٹرڈ کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ہمارا چاول اور آپ اس کا نام استعمال نہیں کر سکتے اور آپ نام استعمال کرتے ہیں تو ہمیں آپ کو رائلٹی دینا پڑے گی۔

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ یہ صورتحال اس وقت پیش آ سکتی ہے جب پاکستان یورپی یونین میں اس دعوے کے خلاف نہ جائے اور وہ یکطرفہ طور پر اس کے حق میں فیصلہ دے دے۔

انھوں نے کہا کہ خدشات تو موجود ہیں تاہم اس درخواست کے خلاف جانے کے لیے پاکستان کے پاس تین مہینے کا وقت ہے اور پاکستان وہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ باسمتی چاول پر انڈیا کا دعویٰ غلط ہے۔

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جی آئی پر کنوینر زاہد خواجہ نے انڈین اقدام کو دھوکا بازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس سلسلے میں اپنا کیس لڑے گا اور کسی طور پر اس دعوے کو حقیقت نہیں بننے دے گا۔

کیا پاکستان انڈین دعوے کو غلط ثابت کر پائے گا؟

پاکستان کی جانب سے یورپی یونین میں باسمتی چاول کو انڈین پراڈکٹ قرار دینے کی درخواست کے بعد پاکستان میں حکومتی سطح پر کچھ ہلچل پیدا ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان میں پارلیمان کے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی نے اس پر ایک اجلاس میں بحث کی کہ کیسے اس انڈین اقدام کے مقابلے میں یورپی یونین میں درخواست دائر کی جا سکے۔

چاول

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینٹر مرزا محمد آفریدی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ پاکستان میں جی آئی قانون نہیں تھا جو اس سال مارچ میں بنا۔ انڈیا میں یہ قانون اس سے پہلے بن گیا تھا تو اس نے یورپی یونین میں باسمتی چاول کو اپنی پراڈکٹ قرار دینے کی درخواست دے دی۔

انھوں نے مزید کہا کہ حکومت ’میڈ ان پاکستان‘ کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور باسمتی بھی اسی ٹیگ سے یورپی یونین میں برآمد ہو گا۔

پاکستان میں انٹلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) کے حکومتی ادارے کے چیئرمین مجیب خان نے بتایا کہ انڈیا نے یورپی یونین میں باسمتی چاول کو اپنا پراڈکٹ قرار دینے کا دعویٰ یورپی یونین کی زرعی مصنوعات سے متعلقہ قوانین کے تحت کیا حالانکہ اسی یورپی یونین کی ریگولیشن کے تحت باسمتی کو پاکستانی اور انڈین پراڈکٹ قرار دیا گیا ہے جو انڈیا کے اس دعوے کو غلط ثابت کرتا ہے کہ باسمتی اس کے ہاں بھی پیدا کردہ چاول کی قسم ہے۔

انھوں نے کہا پاکستان انڈیا کے دعوے کے مقابلے میں اپنا جواب تیار کر رہا ہے کہ جس میں ان کے اس دعوے کو غلط ثابت کیا جائے گا اور اسے انڈیا اور پاکستان کی مشترکہ پراڈکٹ ہونے پر زور دیا جائے گا جو کہ تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کا اعتراض جمع ہونے کے بعد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تاہم اگر یہاں پاکستان کے حق میں فیصلہ نہیں آتا تو پھر بھی ہمارے پاس یورپی یونین کورٹ آف جسٹس کا آپشن موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp